ترامیم کی منظوری اگرچہ حکومت کے کندھوں کی مدد سے ہوئی، مگر اس ترامیم کا اسکرپٹ رائٹر پیچھے تھا اور اس کی مدد اور حمایت سے اس کو منظور کروایا گیا
اسلام آباد میں جاری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یا طاقت کے مراکز کے درمیان جاری سیاسی لڑائی نے مجموعی طور پر ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کے اندر ان کی داخلی لڑائی اور تضادات کو نمایاں کردیا ہے۔ یہ بات مسلمہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اسلام آباد میں طاقتور افراد یا اداروں کی لڑائی کا کوئی تعلق سیاست، جمہوریت، آئین، قانون یا عدالتی اصلاحات سے نہیں بلکہ ان تمام معاملات کو سیاسی ہتھیار کی بنیاد پر چلا کر ذاتیات پر مبنی سیاست کو تقویت دی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف مجموعی طور پر سیاسی نظام کی مایوسی یا لوگوں میں ایک بڑی لاتعلقی کی سیاست کا کھیل غالب ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ہر فریق دوسرے فریق پر کیسے بالادستی حاصل کرسکتا ہے اور کوئی بھی فریق اپنے اپنے سیاسی، قانونی یا آئینی دائرہ کار میں ادا کرنے کے لیے تیار نہیں، اور ہم سب مل کر ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرکے اپنے مفاد کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اس پورے آئینی پیکج کی بحث یا اس کا عمل جس انداز سے چلایا جارہا تھا اور جیسے بار بار ان تمام معاملات کو خفیہ رکھنا اور بار بار مسودے کی تبدیلی یا جمہوری بنیادوں پر مشاورت نہ کرنے کے عمل نے پورے آئینی و قانونی عمل کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور ان کی اتحادی جماعتوں نے طے کرلیا تھا کہ ہمیں ہر صورت اس آئینی ترامیم کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کروانا ہے۔ اس کے لیے جائز و ناجائز دونوں حربے اختیار کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ مطلوبہ نتائج کو ہر صورت ممکن بنایا جاسکے۔ بلاول بھٹو نے دھمکی دی تھی کہ اگر اتحادی جماعتوں نے ہماری مدد نہ کی تو ہم مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر ہر اس حربے کو اختیار کریں گے چاہے وہ طاقت کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ان ترامیم کو منظور کروانا ہماری انا کا مسئلہ بن گیا ہے اور ایسے ہی ہوا جیسے حکومت چاہتی تھی۔
اس سیاسی انا، دباؤ اور دھمکیوں یا اسٹیبلیشمنٹ کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 26 ویںآئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس ترامیم کی منظوری کے لیے پچھلے دو ماہ سے اسلام آباد میں جو سیاسی سرکس چل رہا تھا، وہ عملی طور پر بظاہر منطقی انجام پر پہنچ گیا ہے اور حکومت سمیت اسٹیبلیشمنٹ اس محاذ پر سرخرو ہوگئی ہے۔ یہ آئینی ترامیم حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں کے لیے اپنی اپنی بقا کی جنگ بن گئی تھی اور دونوں کو اپنے معاملات میں کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے عدلیہ پر مکمل طور پر کنٹرول درکار تھا۔حکومت نے ان ترامیم کی منظوری کے لیے دو راستے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اول یہ کہ ترامیم مولانا فضل الرحمن کی حمایت سے ہی کی جائیں گی اور اگر مولانا فضل الرحمن نے مخالفت کی تو اس کے مقابلے میں دوسرا راستہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کا ہوگا۔ اس کے لیے اگر ارکان کو دباؤ میں بھی لانا پڑا تو اس سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کے اس آئینی پیکج پر جو کچھ مولانا فضل الرحمن نے کیا، اس پر بھی کچھ افراد کو تحفظات ہیں کہ مولانا نے آخر کار حکومت کا ہی ساتھ دے کر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کے معاملات میں سہولت کاری کی ہے۔جبکہ اس کے برعکس مولانا فضل الرحمن کی سیاست کے بارے میں ایک رائے یہ بھی بنی ہے کہ اگر ترامیم کی منظوری میں جے یو آئی نہ شریک ہوتی تو حکومتی سطح پر ان کا طے شدہ آئینی ترامیم کا پیکج آنا تھا جو عدلیہ کے حوالے سے کافی سخت تھا، اور حکومت کو مولانا کی حمایت کے لیے اپنے کئی موقف میں تبدیلی کرنا پڑی، حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کو وفاقی آئینی عدالت سے دست بردار ہونا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے اور سودا کرتے وقت اپنے سیاسی مفاد یا اقتدار کی بندربانٹ میں اپنا حصہ بہتر طور پر لینے کی عملی کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس آئینی ترامیم کی منظوری میں مولانا فضل الرحمن کو اقتدار کی سیاست میں کیا کچھ نیا ملتا، اس کا فیصلہ اگلے چند ہفتوں کی سیاست میں سب کے سامنے آئے گا۔آصف زرداری ہوں، نواز شریف یا شہباز شریف ہوں، مولانا کی مجموعی سیاست ان ہی کے گرد گھومتی ہے اور ان ہی سب لوگوں نے مل کر عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اور رجیم چینج کے اہم اتحادی کے طور پر کام کیا ہے۔ مولانا کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ کے پی کے میں اصل طاقت آج بھی عمران خان کے پاس ہے اور ان کا مستقبل میں بھی سیاسی مقابلہ کسی سے نہیں بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی سے ہی ہوگا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کی حمایت کسی اقتدار کے کھیل کے بغیر دی ہے، وہ جلد ہی اپنی اس غلطی سے باہر نکلیں گے اور لوگوں کو جلد ہی یہ بھی احساس ہوگا کہ ان تمام معاملات میں مولانا فضل الرحمن بھی ایک بڑی ڈیل کی سیاست کا شکار ہوئے ہیں۔حکومتی یا اتحادی جماعتوں کی جانب سے 26 ویںآئینی ترمیم منظور ہوگئی ہے مگر یہ دنیا کی پارلیمانی تاریخ کی انوکھی ترامیم ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اول یہ کہ جو ترامیم ہوئی ہیں، اس کے کوئی چھ کے قریب مسودے سامنے آئے اور ہر مسودے کو ایک دوسرے سے چھپا کر اور بغیر بحث کے منظور کرانے کی کوشش غالب رہی۔ دوم، کئی ہفتوں تک حکومتی ارکان کو اسلام آباد میں یرغمالی بنا کر رکھا گیا، اور جن اپوزیشن ارکان کی حکومت کو حمایت کی ضرورت تھی، ان کو بھی نہ صرف یرغمال بنایا گیا بلکہ دھونس، دھاندلی اور اغوا کی بنیاد پر ان کی حمایت حاصل کرنے کا پورا سیاسی بندوبست اسلام آباد میں خوب سجایا گیا۔ کئی اپوزیشن کے ارکان کو اسپیکر چیمبر میں بٹھایا گیا اور جتنے نمبرز حکومت کو درکار تھے، اسی کی بنیاد پر ان کو سیاسی میدان میں اتارا گیا۔ سردار اختر مینگل کے دو سینٹرز کا اغوا اور ان کو جس انداز میں سینیٹ میں پیش کیا گیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔سوئم، اس ترامیم کی منظوری اگرچہ حکومت کے کندھوں کی مدد سے ہوئی، مگر اس ترامیم کا اسکرپٹ رائٹر پیچھے تھا اور اس کی مدد اور حمایت سے اس کو منظور کروایا گیا۔ چہارم، حکومت کے پاس ان ترامیم کو منظور کروانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، اور حکومت سمیت ان کے اتحادیوں کے کئی ارکان نے اعتراف کیا کہ ہمارے پاس اسے منظور کروانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، اور یہ سب منظوری کا کھیل پس پردہ طاقتوں کی مدد سے کھیلا گیا ہے۔ پنجم، رات کی تاریکی میں جس طرح سے حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ان ترامیم کو منظور کروایا ہے، اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، اور یہ کام حکومت کو ایک ٹارگٹ کے تحت 25 اکتوبر سے پہلے کرنا تھا۔ اسی بنیاد پر حکومت نے جلد بازی بھی کی اور عجلت کا مظاہرہ بھی کیا۔ حکومت ان ترامیم کی منظوری کے پہلے راونڈ میں ناکام ثابت ہوئی اور دوسرے راونڈ میں اس کھیل کی بڑی ذمہ داری بلاول بھٹو کو دی گئی، اور انہوں نے اس کھیل میں خود کو سہولت کاروں کے درمیان ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کے مشکل وقت میں ان کو بچانے کی خوب مہارت رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 25 اکتوبر سے پہلے ان ترامیم کی منظوری اور نئے چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو دینا اور ترامیم کے فوری بعد کمیٹی کا قیام ظاہر کرتا ہے کہ حکومت چیف جسٹس کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کو اس عہدے پر نہیں دیکھنا چاہتی تھی اور ان کی جگہ جسٹس یحییٰ افریدی کو نیا چیف جسٹس بنانا چاہتی ہے۔ کیونکہ حکومت کو ڈرتا تھا کہ اگر منصور علی شاہ نئے چیف جسٹس ہوں گے تو ان کی حکومت کو خطرات لاحق ہوں گے، اور اسی بنیاد پر نئے چیف جسٹس کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے وہی کچھ کیا جو ان کو بطور اسکرپٹ دیا گیا، اور یحییٰ افریدی کی بطور چیف جسٹس تقرری اسی کھیل کا حصہ ہے۔ یعنی آئینی ترمیم کا سارا کھیل جسٹس منصور علی شاہ کو بطور چیف جسٹس بنانے سے روکنا تھا، اور حکومت نے اپنی سیاسی اور انتظامی طاقت یا سہولت کاری کی بنیاد پر وہی کچھ کیا جن خدشات کا ذکر پہلے سے کیا جارہا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو پارلیمان کا فیصلہ قرار دیا جارہا ہے، مگر اس فیصلے کا علم پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل اور اجلاس سے پہلے ہی سب کے سامنے آگیا تھا کہ منصور علی شاہ کی جگہ یحییٰ افریدی کو ہی چیف جسٹس بنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ وقت سے پہلے کیسے جاری ہوا اور کون سے میڈیا کے بڑے نام اس کا اعلان کررہے تھے، وہ بھی ایک بڑے سیاسی کھیل کا حصہ تھا۔ اسی بنیاد پر اگر ہم ترامیم کے پس منظر اور پیش منظر کو دیکھیں تو بہت سے پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس لیے یہ جو سارا کھیل ہمیں کئی ہفتوں سے اسلام آباد میں دیکھنے کو مل رہا تھا، اس کا کوئی تعلق عدلیہ کی آزادی یا خود مختاری سے نہیں بلکہ عدلیہ کو کنٹرول کرنا اور عدلیہ کے مقابلے میں حکومت کا کنٹرول بڑھانا تھا۔نئے چیف جسٹس کے فیصلے کی نوعیت سیاسی ہے اور جو بھی فیصلہ ہوگا، اس کی بنیاد قانونی سے زیادہ سیاسی ہوگی، اور اس طرز کی تقرری سے مسائل میں کمی نہیں بلکہ اور زیادہ ہمیں ٹکراؤ دیکھنے کو ملے گا۔ جسٹس یحییٰ افریدی کا چیف جسٹس بننا بھی ایک متنازعہ عمل ہے، اور اس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، بلکہ ان کو اب عدالت کے محاذ پر مختلف نوعیت کے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان ترامیم کی منظوری پر وکلا برادری کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور انہوں نے ملک گیر وکلا تحریک چلانے کی بات کی ہے، مگر دیکھنا ہوگا کہ وکلا کیا کوئی بڑی تحریک چلا سکیں گے یا وہ کارتوس ثابت ہوں گے۔ اسی طرح، کیا ان ترامیم کو سیاسی جماعتوں یا وکلا کی طرف سے چیلنج کیا جائے گا، اور اگر چیلنج ہوتا ہے تو 25 اکتوبر کی سپریم کورٹ اس پر کیا ردعمل دے گی؟ تحریک انصاف کے اندر بھی ان ترامیم کے حوالے سے ہمیں دو مختلف تضادات دیکھنے کو ملے ہیں: ایک پس پردہ ان ترامیم کی حمایت اور دوسرا مخالفت کر رہا ہے۔ اس پوری ترامیم کے منظرنامے میں ہمیں خود پی ٹی آئی کے بھی کئی داخلی تضادات دیکھنے کو موقع ملا۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے ترامیم کی حمایت نہیں کی اور جو ترامیم منظور ہوئی ہیں، ان میں یقینی طور پر پی ٹی آئی کے کچھ منحرف ارکان شامل ہیں۔ اب پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ان ترامیم کی مخالفت عملاً کر رہے ہیں، اور امیر جماعت اسلامی نے تو پی ٹی آئی اور جے یو آئی دونوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ان ترامیم کے تناظر میں کسی بھی سطح پر حکومت کے ساتھ مشاورت کا حصہ نہ بنیں۔ کیونکہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کے بقول، 26ویں آئینی ترامیم عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ ہے اور اسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیا اس بات کا امکان ہے کہ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور وکلا تحریک مل کر ان ترامیم کی منظوری اور چیف جسٹس سے منصور علی شاہ کو باہر نکالنے کے کھیل میں کسی بڑی تحریک کو پیدا کر سکیں گے؟ حافظ نعیم الرحمن نے مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کے بیان پر یہ بھی کہا ہے کہ حکومت نے ان ترامیم کی منظوری سے کالے ناگ نہیں بلکہ عدلیہ کے دانت نکال دیے ہیں، اور منصور علی شاہ کا چیف جسٹس نہ بننا حکومت کے سیاسی عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے بقول، یہ کہنا کہ ترامیم اتفاق رائے سے ہوئی ہیں، یہ بھی غلط ہے۔ اس میں ہمیں اتفاق رائے سے زیادہ اسکرپٹ کے تحت کھیل نظر آتا ہے، اور سیاست دانوں سمیت حکومت نے اپنی سیاسی کمزوری دکھائی ہے جو سیاست اور جمہوریت کے عمل کو اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بنے گی۔بنیادی لڑائی یہ ہے کہ حکومت کا یہ موقف ہے کہ عدلیہ ایک سیاسی پارٹی بن چکی ہے اور پارلیمنٹ کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتی ہے۔ جبکہ اس آئینی ترامیم پر اپوزیشن کا موقف ہے کہ اصل کھیل ہی حکومتی سطح پر عدلیہ کو کنٹرول کرنے کا ہے اور عدلیہ سمیت ججوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ جو بھی حکومتی ایجنڈے پر مزاحمت کرے گا، اسے حکومتی عتاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب ملک کا وزیر دفاع خواجہ آصف برملا یہ کہے کہ موجودہ سپریم کورٹ میں سات سے آٹھ ججز پارلیمنٹ کے خلاف ایک گینگ وار کے طور پر کام کر رہے ہیں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ان ججوں کے خوف میں بھی ہے اور انہیں آنے والے وقت میں یا کچھ عرصے میں مزید دیوار سے لگانا چاہتی ہے۔ اس لیے اسلام آباد کا سیاسی سرکس سیاست، جمہوریت، آئین و قانون سے زیادہ افراد کی طاقت کا کھیل زیادہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ حکومت خوش ہے کہ اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے، مگر اس کامیابی کے نتیجے میں ملک کی سیاست میں اور زیادہ ٹکراؤ پیدا ہوگا اور ایسے لگتا ہے کہ نئے سیاسی سرکس کے کھیل کا آغاز ہوگا، اور خود حکومت کو بے شمار محاذوں پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے جس انداز سے ان ترامیم کی سیاسی بیٹھک سجائی اور جو کچھ کیا، اس سے قومی سیاست کے ساتھ ساتھ ان دونوں جماعتوں کا جمہوری مقدمہ بھی کمزور ہوا ہے۔