احساسِ جرم کی دلدل

غزہ میں نہتے فلسطینی بزرگوں، خواتین اور بچوں کو شہید کرنے والے صہیونی فوجیوں کو ذہنی امراض گھیر کر حرام موت کی طرف دھکیل رہے ہیں

ایسا کبھی ہوا ہے کہ کسی نے ظلم ڈھایا ہو اور اللہ کے قہر سے بچ گیا ہو؟ اگر ہم یہ تصور کرلیں کہ جو لوگ ظلم ڈھاتے ہیں اُن کا کچھ نہیں بگڑتا تو یہ اللہ کی ذات اور صفات دونوں پر الزام کے مترادف ہے، کیونکہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ظالموں کو اُن کے ظلم کی سزا دے کر رہیں گے۔ اللہ کسی بھی ظالم کو کس طور سزا دیں گے اس کا تعین وہ خود کرتے ہیں یا کریں گے۔ یہ انسانوں کے سوچنے کا معاملہ نہیں۔ ہاں، اس بات پر یقین رکھنا انسانوں پر لازم ہے کہ اللہ کسی بھی ظالم کو بخشیں گے نہیں۔ ظالم کو اُس کے ہر ظلم کی پوری سزا دینا اللہ کی شانِ عدل کے عین مطابق ہے۔

غزہ کی پٹی میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے جو قیامت ڈھائی ہے اُس کی سزا اللہ کے ہاں مقرر ہے۔ اسرائیلی فوج سے لڑنا فلسطینیوں اور اُن کے تمام حامیوں کا منصب ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہوپائے یعنی اسرائیل کو، اُس کے انتہائی طاقتور حامیوں کی مدد کے باعث شکست دینے میں ناکامی ہو تو اِسے حقیقی، واقعی اور حتمی ناکامی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جلد یا بدیر اسرائیلیوں کو اُن کے تمام مظالم کی سزا مل کر رہے گی، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ظلم کی سزا ملتی ہے اور آخرت میں ظلم کے تمام اثرات کی۔

اسرائیل کے جن فوجیوں نے غزہ میں بلا جواز فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا اور بے قصور، غیر متحارب معمر فلسطینیوں، خواتین اور بچوں کو شہید کیا اُن کے لیے اللہ نے دنیا اور آخرت دونوں ہی میں غذاب رکھا ہے۔ نہتے اور لاچار فلسطینیوں پر قیامت ڈھانے والوں کو اب احساسِ جرم کے تحت بہت سے ذہنی عوارض نے گھیر رکھا ہے، مایوسی اُنہیں نرغے میں لیے ہوئے ہے اور وہ تیزی سے خودکشی کی طرف جارہے ہیں۔ اگر کسی کو احساسِ جرم ہو تو تائب ہوکر ازالے کا سوچتا ہے، مگر اسرائیلی فوجی اتنے بدنصیب ہیں کہ جرم کا احساس ہوجانے پر بھی وہ مایوس ہوکر حرام موت کو گلے لگارہے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے الیران مزراہی کی ماں کا کہنا ہے کہ وہ تو غزہ سے نکل آیا تھا مگر غزہ اس کے اندر سے نہیں نکل سکا تھا اور بالآخر اسی حقیقت نے اس کی جان لے لی۔ الیران مزراہی نے غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف بہیمانہ کارروائیوں میں حصہ لیا، کئی بے قصور فلسطینیوں کو شہید کیا اور پھر اُسے احساسِ جرم نے گھیرلیا۔

40 سالہ الیران مزراہی کو اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر کو اسرائیلی سرزمین پر حماس کے حملوں میں 1200 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد غزہ میں تعینات کیا تھا۔ وہ 6 ماہ تک وہاں تعینات رہا۔ اس دوران اُس نے کئی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ جب اُسے وہاں سے واپس بلایا گیا تب گھر پہنچ کر اُس کی حالت عجیب ہوگئی۔ وہ شدید احساسِ جرم کا شکار ہوا۔ اِسے عرفِ عام میں پوسٹ ٹرامیٹک ڈسٹریس ڈِزآرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی خطے میں نہتے افراد (بالخصوص بچوں اور عورتوں) کو نشانہ بنانے والوں کو بالآخر پی ٹی ایس ڈی گھیر لیتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ کوئی بھی انسان کتنا ہی گھٹیا ہو، اُسے کبھی نہ کبھی تو احساس ہو ہی جاتا ہے کہ اُس نے غلط کیا ہے اور اُس کی سزا ملنی چاہیے۔ کسی بھی بے قصور انسان کو تکلیف دینے یا موت کے گھاٹ اتارنے والے کسی بھی انسان کو کبھی قلبی سکون میسر نہیں ہوسکتا۔ اور اگر نشانہ بننے والے معمر افراد، خواتین اور بچے ہوں تو؟ تب تو قلب اور روح دونوں کا کھوکھلا پن بالآخر انسان کو مار ہی ڈالتا ہے۔

الیران مزراہی کو احساسِ جرم نے یوں گھیرا کہ وہ اِس گھیرے سے نکل نہ پایا۔ اُس کی ماں جینی مزراہی نے بتایا کہ غزہ سے واپسی کے بعد وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ اس نے وہاں جو کچھ دیکھا اور کیا تھا اُس کے بارے میں کسی کو بتا بھی نہ سکا اور مایوسی کے گڑھے میں ایسا گرا کہ بالآخر اپنی جان ہی لے لی۔

غزہ کی نام نہاد لڑائی (یعنی اسرائیل کی طرف سے یک طرفہ لشکرکشی) نے اب تک 42 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لی ہے جن میں اکثریت بوڑھوں، خواتین اور بچوں کی ہے۔ جو نوجوان شہید ہوئے ہیں اُن کی اکثریت بھی غیر متحارب تھی، یعنی ہتھیار لے کر اسرائیل کے مقابل نہیں کھڑی تھی۔ اسرائیلی فوج نے حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے نام پر ایسی بہت سی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے جہاں بے گھر فلسطینی خواتین اور بچوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ اس معاملے میں جنگ کے کسی بھی اصول کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بین الاقوامی کنونشن بھی بالائے طاق رکھ دیے گئے۔

اسرائیلی فوجی چاہے جتنی بھی پست ذہنیت کے حامل ہوں، ہیں تو انسان ہی۔ انہوں نے فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں، اُنہیں جس طور شہید کیا ہے اُس پر کبھی نہ کبھی تو اُن کے دل و دماغ میں ہلچل مچنی ہی تھی اور مچ رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں لڑنے والے ہزاروں فوجیوں کو نفسی امراض سے نپٹنے میں مدد دے رہی ہے یعنی اُن کے علاج کا اہتمام کررہی ہے۔ یہ سب پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا ہیں یعنی جو کچھ اِنہوں نے نہتے فلسطینی بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے معاملے میں کیا ہے اُس پر اندر ہی اندر شکست و ریخت کا شکار ہیں اور مایوسی کے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اب تک کتنے اسرائیلی فوجیوں نے اپنی جان لی ہے کیونکہ فوج ایسے اعداد و شمار کُھل کر بیان نہیں کرتی۔

غزہ میں جاری لڑائی اسرائیلی ریاست کی اب تک کی سب سے طویل لڑائی ہے۔ ایک سال ہوچکا ہے اور اب تک اس لڑائی کا کوئی اختتام دکھائی نہیں دے رہا۔ اسرائیلی فوج نے اب لبنان میں بھی محاذ کھول لیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے لیے خدمات انجام دینے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہم میں سے بیشتر کو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں دوبارہ غزہ نہ بھیج دیا جائے۔ اس ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی فوج میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ان کی حکومت کہہ اور کررہی ہے اُس پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔

اسرائیلی حکام نے غزہ کی پٹی میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ اگر کسی کو لے جایا بھی جاتا ہے تو اسرائیلی فوج کے ساتھ لے جایا جاتا ہے اور رپورٹنگ اپنی مرضی کی کروائی جاتی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے، فلسطینیوں پر جو کچھ بیت رہی ہے اُس کے بارے میں دنیا کو بہت کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر پھر بھی بہت کچھ ایسا ہے جو اب تک دنیا تک نہیں پہنچا۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ ہمیشہ جاری رہنے والی لڑائی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی فوجیوں پر بھی بہت کچھ بیت رہی ہے۔ وہ اپنی حکومت کی پالیسیوں پر عمل تو کررہے ہیں مگر اب اُن کا ضمیر اُنہیں کچوکے لگارہا ہے۔ بیشتر اسرائیلی فوجیوں کو احساس تو ہے کہ وہ اپنی حکومت کے حکم پر بہت کچھ غلط کررہے ہیں مگر بغاوت کی ہمت ان میں نہیں، اور وہ اپنے کیے کا ازالہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ خواتین اور بچوں کو قتل کرنے والے فوجیوں کے دل و دماغ کو سکون بھلا کیسے میسر ہوسکتا ہے؟

نائن الیون کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے نہتے شہریوں پر قیامت ڈھائی تھی۔ افغانستان اور عراق میں پندرہ بیس سال ڈیوٹی دینے والے امریکی فوجیوں کو بھی پی ٹی ایس ڈی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جو مظالم انہوں نے ڈھائے تھے اُن کا احساس اُنہیں اندر ہی اندر کچوکے لگاتا رہتا تھا۔ سیکڑوں امریکی فوجیوں نے خودکشی کی اور ہزاروں امریکی فوجی شدید نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوئے۔ امریکی حکومت اور فوج یہ اعداد و شمار چھپاتی رہی ہیں کیونکہ اس سے فوج کے مورال پر بُرا اثر پڑسکتا تھا۔

اب یہی کیفیت اسرائیل میں رونما ہو رہی ہے۔ الیران مزراہی کی خودکشی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت اسرائیلی معاشرے کو کس نوعیت کی نفسی الجھنوں کا سامنا ہے۔ جن فوجیوں نے غزہ میں نہتے شہریوں کو مارا ہے اُن کی ذہنی حالت تو خیر پریشان کن ہے ہی، عام اسرائیلی باشندے بھی کسی نہ کسی حد تک احساسِ جرم کا سامنا کررہے ہیں کیونکہ اُن کی حکومت اور فوج مل کر غزہ اور جنوبی لبنان میں نہتے، غیر متعلق اور غیر متحارب شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں۔ عام اسرائیلی کو یہ احساس پریشان کرنے لگا ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت کے ماتحت جی رہا ہے جو دشمنوں کو نشانہ بنانے کے معاملے میں بچوں اور خواتین تک کا احساس و احترام نہیں کرتی اور اُنہیں شہید کرنے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتی۔

الیران مزراہی چار بچوں کا باپ تھا۔ اُسے 8 اکتوبر 2023ء کو غزہ میں تعینات کیا گیا۔ وہ D-9 بلڈوزر پر تعینات تھا جو 62 ٹن کا آرمرڈ وہیکل ہے۔ یہ وہیکل گولیوں اور بارود کا ڈٹ کر سامنا کرسکتا ہے۔ اُس نے زندگی کا بڑا حصہ سویلین کی حیثیت سے گزارا۔ ایک اسرائیلی کنسٹرکشن کمپنی میں وہ منیجر کی حیثیت سے کام کرتا رہا تھا۔ جینی مزراہی نے بتایا کہ حماس کے حملوں کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اب اسے اسرائیل کے دفاع کے لیے لڑنا چاہیے۔ وہ فوج کے ریزروڈ دستوں کا حصہ تھا۔ غزہ میں تعیناتی کے دوران وہ کئی بار زخمی ہوا۔ اس کی قوتِ سماعت بھی متاثر ہوئی۔ اس کا آرمرڈ وہیکل ایک بار راکٹ کی زد میں بھی آیا۔ شدید زخمی ہونے پر اُسے علاج کے لیے نکال لیا گیا۔ اپریل میں تشخیص ہوئی کہ وہ پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا ہے اور اُسے ہفتہ وار بنیاد پر علاج کے لیے بلایا جاتا تھا۔ نفسی علاج سے کچھ فائدہ نہ پہنچا۔ جینی مزراہی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو معلوم ہی نہ تھا کہ نفسی الجھنوں سے دوچار فوجیوں کا علاج کرنا کیسے ہے۔ مقبوضہ غربِ اردن کے علاقے معلے عدومیم کی رہنے والی جینی مزراہی کے بیان کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے بتایا کہ غزہ کی لڑائی اُن کے لیے بہت مختلف تھی۔ انہوں نے وہاں جو کچھ دیکھا وہ کبھی اسرائیل میں نہیں دیکھا تھا۔

الیران مزراہی جب غزہ سے واپس آیا تب گھر میں اس کا عجیب حال تھا۔ وہ بات بات پر غصے سے بپھرنے لگتا تھا، اُس کا پسینہ بہت بہتا تھا، بے خوابی کی شکایت بھی عام تھی اور اُسے گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے میں بالکل لطف نہیں آتا تھا۔ اُس نے اپنی فیملی کو بتایا کہ جو کچھ اُس پر بیت رہی ہے اور جن ذہنی الجھنوں سے وہ لڑرہا ہے اُنہیں صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو غزہ میں اُس کے ساتھ تھے۔ الیران کی بہن شِر نے بتایا کہ اُس کے خیال میں گھر، دوستوں میں اور علاقے میں کوئی بھی شخص وہ سب کچھ سمجھ نہیں سکتا تھا جو کچھ اُس نے غزہ میں دیکھا۔ جینی مزراہی کا کہنا ہے کہ شاید اُس کے بیٹے نے کسی بے قصور کو مار ڈالا تھا اور اِس جرم کا بوجھ اُس کے دل و دماغ سے اٹھایا نہیں گیا۔ جینی کا کہنا ہے کہ اُس نے بہت سوں کو مرتے دیکھا ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ کسی کو قتل بھی کیا ہو۔ ہم نے کبھی اپنے بچوں کو ایسا کچھ نہیں سکھایا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ہم سے پائی ہوئی تربیت کے خلاف کچھ کرتے ہوئے اپنے دل پر بہت بوجھ لے بیٹھا ہو اور پھر یہی بوجھ اُسے اپنے ساتھ لے گیا ہو۔

الیران مزراہی کے ساتھ غزہ میں فوج کے لیے خدمات انجام دینے والا گائے زیکن دراصل آرمرڈ وہیکل میں اُس کا ساتھی ڈرائیور تھا۔ گائے زیکن کا کہنا ہے کہ ہم نے غزہ میں انتہائی مشکل حالات اور معاملات دیکھے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے انتہائی ناقابلِ قبول اور ناقابلِ برداشت تھا۔

گائے زیکن نے کئی بار کھل کر بتایا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کو ایسا بہت کچھ کرنا پڑا جس کے بارے میں انہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ جون میں اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسیٹ میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے گائے زیکن نے کہا تھا کہ کئی مواقع پر اسرائیلی فوجیوں نے حماس کے کارکنوں کو بڑی تعداد میں قتل کیا اور پھر ان پر سے گاڑیاں گزارتے ہوئے لے گئے۔ کبھی کبھی اُن پر سے بھی گاڑیاں گزاری گئیں جو زندہ تھے۔ اب وہ سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح ڈرا رہا ہے۔ گائے زیکن کا کہنا ہے کہ اب اُس سے کھایا پیا بھی نہیں جاتا۔ اُس نے غزہ میں جو مناظر دیکھے تھے وہ اب اُس کے دل و دماغ میں ہلچل مچائے رہتے ہیں اور وہ سو بھی نہیں پاتا کیونکہ کانوں میں دھماکوں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ گائے زیکن نے بتایا کہ جب بھی کھانے بیٹھو تو غزہ میں اپنے اردگرد بکھرا ہوا گوشت اور خون یاد آتا ہے۔ گائے زیکن کا اشارہ فلسطینی اور اسرائیلی لاشوں اور زخمیوں کی طرف ہے۔ گائے زیکن کا دعویٰ ہے کہ اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ صرف حماس کے کارکنوں پر حملے کیے۔ سویلینز کو دیکھ کر وہ رک جاتے تھے، کبھی کبھی انہیں اپنے حصے کا کھانا اور پانی بھی دیتے تھے۔

اسرائیلی فوج کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ جب فوجیوں کا سامنا شہریوں سے ہوتا تھا تب ان کے لیے اخلاقی مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی تھی کہ غزہ کے شہری بہت برے ہیں۔ عام فلسطینی حماس کی بھرپور حمایت اور مدد کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کے ذہنوں میں یہ تصور بھی موجود تھا کہ عام فلسطینی حماس کا اسلحہ، گولہ بارود چھپاکر رکھتے ہیں۔ جب اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی شہریوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو یہ تصور تبدیل ہوا۔ تب اندازہ ہوا کہ غیر متحارب شہری تو غیر متحارب ہی ہوتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے عام فلسطینیوں کی ہلاکتیں محدود رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ انہیں ٹیکسٹ میسیج بھیجے جاتے ہیں، فون کالز کی جاتی ہیں اور پرچے بھی گرائے جاتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی بڑی فوجی کارروائی سے پہلے علاقے سے نکل جائیں۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے فلسطینی علاقوں میں ان عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جن میں بے گھر شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں نے پناہ لے رکھی تھی۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب ستم ڈھانے والوں کو شدید نفسی مسائل کا سامنا ہے تو ستم سہنے والوں کا کیا حال ہوا ہوگا؟ اس حوالے سے عالمی امدادی اداروں نے بھی بہت کچھ بیان کیا ہے۔ امدادی اداروں اور اقوامِ متحدہ کے حکام اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ کے طول و عرض میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد غیر معمولی ہے۔ عام فلسطینیوں پر اسرائیل سے ہونے والی لڑائیوں کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔ اسرائیل نے 17 سال سے غزہ کا اقتصادی محاصرہ کررکھا ہے۔ یہ سب کچھ اُن کے لیے سوہانِ روح ہے۔ پانی اور خوراک کے علاوہ دواؤں کی بھی شدید قلت ہے۔ غزہ کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ لوگوں کے لیے پیٹ بھر کھانے کا اہتمام کرنا بھی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ کاروباری ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان لڑائی رک جانے پر صنعتی اور تجارتی ادارے کس طور بحال کیے جاسکیں گے اِس کا کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ غزہ کے شہری پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ پیچیدگی تو کسی انتہائی کیفیت کے بعد کی ہے۔ فلسطینیوں کے معاملے میں تو ’’بعد‘‘ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ ان کے لیے تو صورتِ حال برقرار ہی رہتی ہے۔ یہ سب کچھ ختم ہو تو ہم سوچیں کہ اُنہیں کس نوعیت کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ وہ مستقل عذاب کے پہلو میں جی رہے ہیں۔

الیران مزراہی کی خودکشی کے بعد اُس کی چند تصویریں سوشل میڈیا پر نمودار ہوئیں جن میں کہیں وہ مکانات کو بلڈوز کررہا تھا، کہیں تباہ شدہ مکانات کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ یہ تصویریں اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی تھیں جو بعد میں ڈیلیٹ کردی گئیں۔ اس نے اسرائیل کے چینل 13 کی ایک دستاویزی فلم کے لیے بھی انٹرویو دیا تھا۔ چند تصویریں اس دستاویزی فلم میں بھی دکھائی دیں۔ الیران مزراہی کی بہن شِر نے بتایا کہ اس نے سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس دیکھیں جن میں اس کے بھائی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے قاتل قرار دیا گیا تھا۔ اُس پر لعنت بھیجنے والے بھی کم نہ تھے۔ شِر کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے لیے بہت بڑے قلبی اور روحانی بوجھ کی طرح تھا کیونکہ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ اسرائیلی فوج نے اُسے کیا کرنے پر مجبور کیا، تاہم اتنا تو ہم جانتے ہی ہیں کہ وہ ایک اچھا انسان تھا اور قتل و غارت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔

لندن کے کنگز کالج میں سیاسیات کے استاد آہرون بریگمین نے 1982ء کی لبنان جنگ سمیت اسرائیلی فوج میں 6 سال خدمات انجام دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ اسرائیل کی دیگر جنگوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ متواتر ہے، شہری علاقوں میں لڑی جاتی رہی ہے اور اسرائیلی فوجیوں کو غیر متحارب شہریوں کے درمیان لڑنا پڑا ہے۔ بلڈوزر چلانے والوں کا جنگ کی بہیمیت سے براہِ راست سامنا رہتا ہے۔ اُن کے سامنے لاشیں بکھری ہوتی ہیں اور انہیں لاشیں ہٹانا پڑتی ہیں۔ بہت سے مواقع پر انہیں لاشوں کو روندتے ہوئے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ اُن کی نفسی ساخت پر انتہائی نوعیت کے اثرات مرتب کرتا ہے۔

آہرون بریگمین کا کہنا ہے کہ بیشتر اسرائیلی فوجی جب بچوں اور عورتوں کی ہلاکتوں کو بھی دیکھتے ہیں یا اُن ہلاکتوں کا سبب بنتے ہیں تب ان کے لیے فوج کی زندگی سے ہٹ کر دوبارہ سویلین زندگی کو اپنانا انتہائی دشوار اور بعض حالات میں تو بالکل ناممکن ہوجاتا ہے۔ جس انسان نے غزہ میں بچوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہو وہ اپنے بچوں کو بستر پر تھپک تھپک کر کیسے سُلا سکتا ہے؟ الیران مزراہی کی فیملی نے بتایا کہ دوبارہ تعیناتی کے لیے بلائے جانے پر الیران غزہ جانے کے لیے تیار ہوگیا تھا مگر پھر روانہ ہونے سے دو دن پہلے اُس نے خودکشی کرلی۔

اسرائیلی فوج نے پہلے اسے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کرنے کا فیصلہ نہیں کیا مگر جب الیران کی فیملی نے اس حوالے سے تنقید شروع کی تب فوجی حکام نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا۔ اسرائیلی اخبار ہارتیز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر سے 11 مئی کے دوران 10 اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کی۔ جب امریکی میڈیا نے اسرائیلی فوج کے ماہرِ نفسیات اور کامبیٹ رسپانس یونٹ کے کمانڈر اوزی بیکر سے پوچھا کہ اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان کتنا قوی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ قواعد کے تحت ہم اعداد و شمار جاری نہیں کرسکتے۔ پانچ چھ سال کے دوران اسرائیلی فوج میں خودکشی کا رجحان مستحکم رہا ہے یعنی اس میں زیادہ کمی بیشی واقع نہیں ہوئی۔ اوزی بیکر کا کہنا تھا کہ خودکشی چاہے جتنے بھی فوجی کریں، ہمارے لیے تو ہر خودکشی ہلا دینے والا واقعہ ہوتی ہے۔

میدانِ جنگ سے واپس آنے والے ایک تہائی اسرائیلی فوجیوں کو شدید نفسیاتی امراض کا سامنا ہوتا ہے اور فوج کو اُن کے علاج کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ اگست میں اسرائیلی وزارتِ دفاع نے بتایا کہ ہر ماہ میدانِ جنگ سے ایک ہزار فوجیوں کو نکالا جاتا ہے تاکہ علاج کرایا جاسکے۔ ان میں ایک تہائی فوجی ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ 27 فیصد فوجی انتہائی نوعیت کی ذہنی اذیت کی شکایت کرتے ہیں۔

غزہ کی لڑائی کا ایک سال مکمل ہونے پر 14 ہزار اسرائیلی فوجیوں کو علاج کے لیے اسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے اور ان میں سے 40 فیصد کی ذہنی صحت کا معیار گرا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔

اسرائیلی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں ہر سال 500 افراد خودکشی کرتے ہیں جبکہ خودکشی کی کوشش کرنے والوں کی تعداد 6 ہزار ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ خودکشی اور خودکشی کی بیشتر کوششوں کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ 2021ء میں 11 اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کی تھی۔ اسرائیلی وزارتِ صحت نے اس بات کی بھی سختی سے تردید کی ہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ میں لشکر کشی کے بعد سے اب تک اسرائیل میں خودکشی کا رجحان پروان چڑھا ہے اور زیادہ تعداد میں اسرائیلی باشندے موت کو گلے لگارہے ہیں۔ اسرائیلی وزارتِ صحت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف غیر جانب دار ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزارتِ صحت حقائق چھپا رہی ہے۔ اسرائیلی معاشرے میں مایوسی بڑھی ہے اور خودکشی کا رجحان توانا تر ہوا ہے۔

آہرون بریگمین کا کہنا ہے کہ چالیس پچاس سال پہلے کے مقابلے میں میدانِ جنگ کے تجربات کو بیان کرنا اب آسان ہوگیا ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں لڑائی میں حصہ لیا ہے وہ اس زمانے کو مرتے دم تک نہیں بھول سکیں گے۔

اسرائیلی فوج کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ فوج کے ہر یونٹ کے ساتھ ایک مینٹل ہیلتھ آفیسر ہوتا ہے مگر اس کے باوجود فوجیوں کے لیے ذہنی الجھنیں تو رہتی ہی ہیں۔ اٹھارہ بیس سال کے لڑکوں کے لیے جنگ کی تباہ کاریوں کو سمجھنا اور جھیلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان میں سے بیشتر تنہائی میں روتے ہیں اور ہلاکتوں پر افسوس کرتے رہتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ماہرِ نفسیات اوزی بیکر کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے غزہ میں لڑائی میں حصہ لیا ہے انہیں دوبارہ سویلینز میں نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا بہت مشکل مرحلہ ہے۔ اسرائیلی فوج اس سلسلے میں بہت سے نفسیاتی ہتھکنڈے بھی استعمال کرتی ہے۔ ذہنی الجھنوں سے دوچار فوجیوں کو ماہرینِ نفسیات کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں جو انہیں دلاسہ ہی نہیں دیتے بلکہ 7 اکتوبر کے واقعات بھی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اِن فوجیوں کو یہ احساس ہوتا رہے کہ جو کچھ بھی انہوں نے غزہ میں کیا وہ بلاجواز نہ تھا، خود اُن کی سرزمین پر بھی حملے ہوئے تھے اور لوگ مارے گئے تھے۔

اسرائیلی قیادت اور فوج نے غزہ کی لڑائی کو بالکل درست اور اسرائیل کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا تاکہ فوجیوں کے دل و دماغ پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ انہیں نفسی طور پر یہ باور کرایا گیا کہ اگر انہوں نے غزہ میں مظالم نہ ڈھائے، بھرپور طاقت استعمال نہ کی تو اسرائیل کا وجود بھی نہ رہے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے حماس کی قیادت اور ارکان کو نئے نازی قرار دیا تاکہ عام اسرائیلی فوجی اور شہری انہیں اپنے وجود کا دشمن سمجھ کر کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوجائے۔

اسرائیلی سیاست بکھری ہوئی تھی۔ غزہ پر لشکرکشی نے ملک کو سیاسی بحران سے نکال لیا۔ اسرائیلی ٹی وی چینلز پر فلسطینیوں کے مصائب برائے نام دکھائے جاتے ہیں۔ ان نشریات میں زیادہ وقت اسرائیلی یرغمالیوں کو دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ غزہ کی لڑائی کو ہر اعتبار سے درست قرار دیا جائے اور وہاں بچوں، عورتوں اور بزرگوں کی شہادت کو غلط قرار دینے والوں کی آواز مکمل طور پر دبادی جائے۔

ایک سال قبل جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا اور 1200 سے زیادہ اسرائیلیوں کو ہلاک کر ڈالا تھا تب اسرائیلیوں کی اکثریت اس بات کے حق میں تھی کہ سبق سکھانے کے لیے بھرپور فوجی کارروائی کی جانی چاہیے۔ لڑائی کا ایک سال مکمل ہونے پر اسرائیل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کے سروے سے معلوم ہوا کہ صورتِ حال کچھ زیادہ نہیں بدلی۔ صرف 6 فیصد اسرائیلیوں نے کہا کہ فریقین کے غیر معمولی جانی نقصان کے باعث لڑائی روکی جانی چاہیے۔

اسرائیلیوں کی اکثریت چاہے کچھ بھی کہتی ہو، اسرائیلی فوجیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس لڑائی کی منطق سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اُن کی ذہنی الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ الیران مزراہی کی فیملی نے بتایا کہ غزہ سے واپسی کے بعد وہ کہا کرتا تھا کہ اُسے اپنے جسم سے ایسا خون نکلتا دکھائی دیتا ہے جو دوسروں کو دکھائی نہیں دیتا۔ الیران کی بہن شِر اُس کی موت کے لیے اس جنگ اور اسرائیلی فوج کو ذمہ دار ٹھیراتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آج اس کا بھائی اِس دنیا میں نہیں ہے تو اِس کی ذمہ دار صرف فوج ہے۔ اُسے دشمن کی کسی گولی نے نہیں مارا مگر وہ ایک نادیدہ گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔