یحییٰ سنوار کی چھڑی سے مزاحمت

یحییٰ سنوار موت سے قبل بھی اسرائیل کے حواسوں پر سوار تھا اور موت کے بعد بھی تاحال اسرائیل کے حواسوں پر سوار ہے۔ یحییٰ سنوار کی ایک جھڑپ میں موت دراصل کوئی خصوصی ملٹری آپریشن نہیں تھا کہ جس کی وجہ یحییٰ سنوار کی وہاں موجودگی ہو، بلکہ یہ ایک معمول کی کارروائی تھی کہ جہاں یحییٰ سنوار بے جگری سے لڑتے ہوئے اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ اسرائیل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اس آپریشن کی ویڈیوز اور خاص طور پر یحییٰ سنوار کی زندگی کے آخری لمحات کی ویڈیو کہ جب وہ ایک صوفے پر بیٹھے ہیں، ان کا ایک ہاتھ گولیاں لگنے سے کٹ چکا ہے اور اس کو انہوں نے ایک تار کی مدد سے باندھا ہوا ہے، اور ڈرون یہ دیکھنے کے لیے آتا ہے کہ کوئی زندہ بچا ہے کہ نہیں؟ تو یحییٰ سنوار اُس پر اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی پھینکتے ہیں، اور یہ اُن کا آخری وار تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی فوجی یحییٰ سنوار کے قریب آنے یا ان کو زندہ گرفتار کرنے کے بجائے ٹینک سے گولہ داغ کر ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔ اس ویڈیو کو اسرائیل کی جانب سے جاری کیا گیا اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ یحییٰ سنوار کو کس طرح ختم کیا جاچکا ہے، لیکن اسرائیل کی بدقسمتی کہ یہ ویڈیو مزاحمت کاروں کے لیے ایک آئیکون بن گئی۔ آخری وقت تک کٹے ہوئے بازو کے باوجود چھڑی سے مزاحمت، اور بغیر کسی پروٹوکول کے عام سپاہی کی طرح لڑنا ایک ایسی نظیر بن گئی جو اس جدوجہد کے لیے استعارے کے طور پر بیان کی جائے گی۔

یحییٰ سنوار کی زندگی میں اسرائیل ان کو اپنا بدترین دشمن قرار دیتا رہا، حتیٰ کہ 8 اکتوبر 2023ء کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے یحییٰ سنوار کی موت کو اس جنگ کے اہداف میں سے ایک ہدف قرار دیا۔ اب جبکہ اس بڑے ہدف کو حاصل کیا جاچکا ہے تو اسرائیل کو اس بات کی خوشی ہونی چاہیے، لیکن اس کے برعکس اسرائیل تاحال اس بات کو لکیر کی طرح پیٹ رہا ہے کہ یحییٰ سنوار کس طرح لگژری زندگی جی رہے تھے۔ اس سے قبل بھی یحییٰ سنوار کی زندگی میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یحییٰ سنوار غزہ کے لوگوں کو زمین پر مرتا چھوڑ کر خود غاروں میں چھپ گئے ہیں۔ لیکن یحییٰ سنوار کا ایک عام سپاہی کی طرح فرنٹ لائن پرجنگ میں حصہ لینا ان تمام دعووں کی قلعی کھول گیا، اور وہ آخری لمحات جوکہ خود اسرائیل نے فلم بند کرکے جاری کیے، اس بات کا کھلا ثبوت بن گئے کہ وہ کہاں، کیسے اور کس حال میں ے۔ اگر یہی کچھ ہوتا اور یحییٰ سنوار کی ویڈیو سامنے نہ آتی تو شاید اسرائیل کے یہ شکوک لوگوں کے ذہن میں موجود رہتے، لیکن اسرائیل نے ازخود اپنے اس پروپیگنڈے کو غلط ثابت کردیا۔

عالمی میڈیا میں اس کی بازگشت ہے کہ اسرائیل کے سارے بیانیے اور جنگی حکمتِ علمی اس کو الٹی پڑ رہی ہے۔ جنگ کے ایک سال بعد اب یحییٰ سنوار کی ایک ویڈیو اسرائیل کی جانب سے جاری کی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ویڈیو 7 اکتوبر 2023ء سے ایک رات قبل کی ہے کہ جس میں یحییٰ سنوار اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ زیر زمین سرنگوں میں جارہے ہیں۔ اس ویڈیو کو اُس پریس کانفرنس میں جاری کیا گیا جس میں یحییٰ سنوار کی موت کا باضابطہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ہوا۔ اس سے قبل اسرائیلی فوجی، یحییٰ سنوار کی میت کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے اور دعویٰ یہ کیا گیا کہ اس کے ذریعے ڈی این اے کروایا جائے گا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل یحییٰ سنوار کی میت سے بھی خوف زدہ ہے اور اس کو بھی اپنے قیدیوں کے تبادلے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اسرائیل کو درپیش سب سے بڑے خطرے کو راستے سے ہٹانے کے اگلے ہی روز اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ کو ڈرون سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، اور میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی لبنان سے تین ڈرون اسرائیل کی جانب بھیجے گئے جن میں سے دو کو راستے میں ہی تباہ کردیا گیا اور تیسرا اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ایک ایسا حملہ تھا جس کی بنیاد پر اسرائیل میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگیا، کیونکہ کل تک جس خطرے کو ختم کرنے کا جشن منایا جارہا تھا آج اس سے بڑا خطرہ اسرائیل پر آگیا ہے۔ یاد رہے کہ اس ایک سال کے عرصے میں یہ اسرائیل پر دوسرا بڑا حملہ ہے کہ جس نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کو مکمل ناکام بنایا اور اہم ترین مقامات تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس سے قبل ایران کے بیلسٹک میزائل اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور یہ حملہ حسن نصر اللہ کی موت کے بعد ایران کی جانب سے کیا گیا تھا، اور اب حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی موت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام تر اسرائیلی وحشت و سفاکی کے باوجود اہلِ فلسطین کی قوت اور پشتی بانی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اسرائیلی اخبار Haartez نے 20 اکتوبر کی اشاعت میں صفحہ اوّل پر سرخی جمائی ’’سنوار کی موت کے بعد وزیراعظم کی رہائش گاہ پر حملہ، پسپائی کا کوئی امکان نہیں‘‘۔

اس سرخی میں ہی تمام تر صورتِ حال کو بیان کردیا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جو جشن یحییٰ سنوار کی موت پر منایا گیا اور جس طرح اس کو میڈیا پر اجاگر کیا گیا یہ اس بات کا اظہار تھا کہ وہ جنگ جیت چکے ہیں، لیکن اس کے بعد اب اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ پر حملہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ جنگ مزید بڑھ چکی ہے۔

دوسری جانب اب خود اسرائیل سے ہی جنگ کے خلاف توانا آوازیں بلند ہورہی ہیں، اور یہ آوازیں نہ صرف عوام بلکہ اب دانشوروں کی جانب سے بھی نمایاں ہیں جوکہ اس بات کو کھل کر بیان کررہے ہیں کہ اسرائیلی جنگی جرائم پر اگر کوئی روک نہ لگائی گئی تو وہ پورے اسرائیلی عوام کے لیے ازخود خطرہ بن جائے گا، کیونکہ اس کے ردعمل میں ابھرنے والے بھی اسی طرح کا قتلِ عام کریں گے جس طرح کا اسرائیل کررہا ہے۔Gideon Levy نے جو کہ اسرائیلی کالم نگار ہیں، اپنے ایک کالم میں اسی بات کو بیان کیا کہ اگر سنوار دہشت گرد تھا تو ہم (اسرائیل) کیا ہیں؟ انہوں نے واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر جو مقدمہ پیش کیا وہ کسی مسلمان کا پیش کردہ نقطہ نظر نہیںہے بلکہ خود اسرائیلی دانشور کا نقطہ نظر ہے، اور اب ایسے درجنوں اسرائیلی دانشور ہیں جو اس جنگ کے خلاف لکھ رہے ہیں اور اس کو نیتن یاہو کا جنگی جنون قرار دے رہے ہیں۔

اسرائیل سے اب بہت تیزی سے آبادی کا انخلا ہورہا ہے، اس میں سرفہرست وہ لوگ ہیں جو کسی یورپی ملک یا امریکہ میں رہائش پذیر ہیں یا وہاں کے شہری بھی ہیں تاہم وہ سال کا ایک مخصوص عرصہ یا موسمِ گرما اسرائیل میں گزارتے ہیں ان کے انخلا کی مجموعی تعداد سب سے زیادہ ہے، اور وہ لوگ یا ان کی نوجوان نسل اسرائیل کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے اور یہاں نہیں رہنا چاہتی۔

دوسری جانب اسرائیل ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ غزہ کے عوام کو باور کروایا جائے کہ اسرائیل یہ جنگ جیت چکا ہے، اور اُن کے حوصلوں کو پست کرنے کے لیے اب یحییٰ سنوار کی ویڈیوز کے بعد اسرائیلی جہاز و ہیلی کاپٹر فضا سے پمفلٹ غزہ میں برسا رہے ہیں جس میں یحییٰ سنوار کی موت کے بعد کی تصویر اور یحییٰ سنوار کے خاتمے اور اسرائیل کی جیت کا اعلان ہے۔ تھامس فرائیڈمین نے اپنے تازہ کالم میں جوکہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے، لکھا ہے کہ یحییٰ سنوار کی موت سے نہ صرف جنگ کا خاتمہ ہوگا، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی راہ ہموار ہوگی بلکہ دو ریاستی حل اور سعودی عرب سے اسرائیل کے تعلقات کی بحالی جوکہ پوری مسلم دنیا تک جائے گی، کا بھی آغاز ہوگا۔

گویا ایک فرد یحییٰ سنوار اِس وقت پورے مغرب کے اعصاب پر اپنی دنیا کی زندگی کے خاتمے پر بھی سوار ہے۔ دوسری جانب امتِ مسلمہ میں یحییٰ سنوار ٹیپو سلطان، صلاح الدین ایوبی اور جلال الدین خوارزم شاہ کی مانند ایک عظیم فوجی جرنیل اور ہمت و جرأت کی مثال بن کر ابھرے ہیں کہ جس کی وجہ سے پوری امت ِ مسلمہ میں یحییٰ سنوار کی موت مایوسی کے بجائے ایک نئی امید کے طور پر دیکھی جارہی ہے، اور اس پوری صورتِ حال میں اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ اسرائیل کبھی اس جنگ کو جیت پائے گا، کیونکہ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق اس جنگ میں اسرائیل کی فوجی و سویلین آبادی، انفرااسٹرکچر اور مال کا نقصان تمام عرب اسرائیل جنگوں کے مجموعی نقصان سے زیادہ ہے۔ گویا اسرائیل ہر گزرتے دن کے ساتھ کسی باقاعدہ فوج سے نہیں بلکہ چند حریت پسندوں سے لڑتے ہوئے گرداب میں گھر رہا ہے اور ہر گزرتے دن اسرائیل کے آئرن ڈوم کے باوجود اسرائیل کی حساس تنصیبات پر گرتے میزائل و ڈرونز اسرائیل کو غیر محفوظ ترین بنارہے ہیں، اور اسرائیل پروپیگنڈے کے محاذ پر جس بیانیے کو بھی لے کر جاتا ہے وہ بری طرح پٹ رہا ہے۔ گویا عسکری و عالمی سیاسی سطح سے لے کر اسرائیل کے اندر تک اسرائیل کی ہزیمت ہر گزرتے دن بڑھ رہی ہے اور اسرائیل تاحال ایسی جنگ میں پھنس چکا ہے جس کا اب کوئی خاتمہ اسرائیل کو بھی نظر نہیں آرہا۔

تاہم دوسری جانب اس ایک سال میں اسرائیل کی عسکری برتری کو حماس نے نہ صرف خاک میں ملا دیا بلکہ سوشل میڈیا کی بدولت یحییٰ سنوار کی صورت میں غزہ و مسلم امہ کو ایک ہیرو بھی مل گیا۔ جنگ گوکہ دونوں جانب تباہی پھیلا رہی ہے تاہم اس جنگ میں اب واضح طور پر حماس کا پلڑا بھاری ہورہا ہے۔