محنت

بیکاری پر بیماری سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے ،بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ بیکار آدمی سب سے زیادہ محنت کرتا ہے۔

کام کو ذریعہ معاش بنانے کا طریقہ تقریباً ہر ایک کو معلوم ہے ،لیکن بیکار رہ کر زندہ رہنے کا طریقہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ ان میں کچھ مانگ کر گزارہ کرتے ہیں ،لیکن یہ کام بھی آسان نہیں ہے۔ بہرحال انسان محنت کیلئے ہے۔

ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف انسان کی محنت کے جلوے ہیں۔

انسان نے زمین کو سنوارا ہے۔

اس نے بڑی محنت سے ،مسلسل محنت کے ساتھ ،محنت شاقہ کے ساتھ شہر بسائے ہیں۔ انسانی زندگی انسانوں ہی کی محنت کے بنائے ہوئے راستوں پر گامزن ہے۔

انسان نے پہاڑوں پر بستیاں بنائیں۔ صحراؤں میں اس نے اپنے مسکن تلاش کئے۔ اس نے سمندر کے اندر راستے بنائے۔ انسان کی محنتیں ہر طرف آشکار ہیں۔ سائنس ہو یا آرٹ کی دنیائیں ،سب انسان کی محنت کی رہین منت ہیں۔

انسان کے اندر یوں لگتا ہے جیسے پارہ ہے ،اسے قرار نہیں۔ وہ سوچتا ہے ،محنت کرتا ہے ،فاصلے طے کرتا ہے۔ وقت کے فاصلے ہوں یا زمین و آسمان کے فاصلے۔ اس نے اپنی محنتوں سے یہ فاصلے طے کئے ہیں۔

شاید انسان کی خواہش اس کی محنت کا باعث ہے۔ خواہش انسان کو دوڑاتی ہے اور آرزو کے تجویز کردہ راستوں پر انسان محنت کرتا رہتا ہے۔ کبھی وہ ماہیت اشیاء جاننے کیلئے محنت کرتا ہے۔

غاروں میں چھپے ہوئے راز دریافت کرتا ہے۔ سمندروں کے چھپے ہوئے خزانے نکالنے کیلئے محنت کرتا ہے۔ اس کے سامنے ایک بہت بڑی دنیا ہے ،پھیلی ہوئی دنیا ،جو اسے دعوت دیتی ہے کہ دنیا کو دریافت کیا جائے۔ اسے حاصل کیا جائے اور انسان اس کام کیلئے محنت کرتا چلا آ رہا ہے۔

انسان اپنی محنت سے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے اور کبھی کبھی اپنی محنت سے دوسروں کی محنت کے انعام چھینتا ہے۔

محنت کرنا انسان کی جبلت ہے۔ اس کے اندر کشمکش ہے اور وہ باہر کشمکش پیدا کرتا ہے۔ سراغ ہستی کی دریافت ایک کٹھن کام ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے اور انسان اس چیلنج کو قبول کرنا جانتا ہے۔ راز دریافت کرنے کیلئے انسان نے کئی کئی سال محنت کی۔ کئی کئی نسلیں محنت کرتی رہیں۔ محنت کرتے ہوئے کئی زمانے اور کئی جگ بیت گئے اور تب کہیں جا کر وہ گوہر مقصود ملا۔

وہ گوہر مقصود اگر کوئی فانی شے ہے ،تو محنت رائیگاں ہے۔ اس دنیا میں جہاں محنت نے بڑے بڑے کرشمے سرانجام دیئے ہیں ،وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ محنتیں رائیگاں ہو گئیں۔ ان کیلئے افسوس!

انسان کی پیدائش سے پہلے ابلیس نے اپنے تکبر کی وجہ سے اپنی صدیوں کی محنت کو خود ہی رائیگاں کرلیا۔ اس کو افسوس تک نہ ہوا۔ اسے معافی کا راستہ نہ سوجھا اور وہ راندہ درگاہ ہوا۔

انسان کو اللہ نے معافی کا راستہ بتایا ہوا ہے۔ انسان اپنی رائیگاں ہونے والی محنتوں پر افسوس کرے تو اس کو محنت کیلئے نئے راستوں سے تعارف ہو سکتا ہے۔ اپنی محنت کی قدر و حفاظت نہ کی جائے تو سب محنت رائیگاں ہے۔ ارشاد ہے کہ افسوس ہے اس بڑھیا پر ،جس نے تمام عمر سوت کاتا اور آخر میں اسے الجھا دیا۔

وہ لوگ جنہوں نے باطل کے راستوں پر محنت کی ،ان کی محنت ان کیلئے ندامت کیلئے علاوہ کیا لائی؟
محنت کرنا تو انسان کی سرشت میں ہے۔
دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کس کام کیلئے محنت کرتا ہے۔ ویسے تو ایک جواری جوا خانے میں محنت کرتا ہے۔ وہ اپنے ہارے ہوئے مال کی برآمدگی کیلئے محنت کرتا ہے اور اپنا پیسہ ،وقت اور عاقبت برباد کر بیٹھتا ہے۔
)حرف حرف حقیقت ، واصف علی واصف(