اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کا ایک حسن اور قابلِ قدر پہلو یہ تھا کہ یہ پوری قوم کا متفقہ دستور تھا جس پر ملک کے تمام صوبوں اور مختلف الخیال اور نظریاتی بُعد رکھنے والے قومی سیاسی رہنمائوں نے دستخط کرکے اس پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا جس سے اس دستور کے تقدس میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ مگر افسوس کہ 20 اور 21 اکتوبر 2024ء کی درمیانی شب چھبیسویں آئینی ترمیم کے نام پر ایسی تبدیلیاں 1973ء کے متفقہ آئین میں متعارف کرا دی گئی ہیں جن کے نتیجے میں اس کی روح بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے اس ترمیم اور اس کی منظوری کے عمل کو بجا طور پر ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ قرار دیا ہے۔ ترمیم کی منظوری سے قبل ایک ماہ تک ملکی سیاست، جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا اس کے پسِ پردہ حکمران طبقے کی بدنیتی نمایاں تھی۔ مجلسِ شوریٰ کے ارکان کی خرید و فروخت اور اس کے لیے اختیار کیے گئے طمع و لالچ اور جبر کے حربے ملکی تاریخ میں تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ قوموں کی برادری میں ہمارے اربابِ اختیار کے طرزعمل کو کس نظر سے دیکھا جارہا ہے، اس کا اندازہ ماہرینِ آئین و قانون کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) کے اس تبصرے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو ترمیم کی منظوری کے فوری بعد جاری کیا گیا ہے۔ کمیشن نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے دھچکا ہے۔ آئی سی جے کے سیکرٹری جنرل سینٹیا گوکینٹن نے کہا کہ ترمیم سے عدلیہ میں تعیناتیوں اور انتظامی معاملات پر سیاسی اثر رسوخ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ تبدیلیاں ریاست کے دیگر اداروں کی طرف سے زیادتیوں کے خلاف عدلیہ کی آزادانہ اور مؤثر طور پر جانچ پڑتال اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی صلاحیت کو ختم کرتی ہیں۔ آئی سی جے نے اس عجلت پر بھی تنقید کی جس کے ساتھ یہ بل قانون بنایا گیا، اور کہا کہ ترامیم کو خفیہ رکھا گیا اور ان کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظوری سے پہلے عوامی سطح پر مشاورت نہیں کی گئی۔ یہ تشویش ناک ہے کہ اتنی اہمیت کی حامل اور مفادِ عامہ سے متعلق ترمیم کو خفیہ طریقے سے اور 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں منظور کیا گیا۔
ترمیم کی منظوری کے دوران 2006ء میں دستخط کیے گئے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کا تذکرہ بھی بار بار کیا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ میثاق پر دستخط کے اٹھارہ برس تک مسلسل خاموشی اور لاتعلقی کے بعد اچانک اس میثاق کی یاد کیوں آگئی کہ ہنگامی بنیادوں پر رات کی تاریکی اور پراسرار ملاقاتوں کے ذریعے اس ترمیم کی فوری منظوری ناگزیر قرار پائی؟ آخر وہ کیا مجبوری تھی کہ ملک و قوم اور عوام کے مفاد کے نام پر کی جانے والی اس ترمیم کے مسودے کو آخری دم تک عوام، آئینی ماہرین اور ارکانِ مجلسِ شوریٰ تک سے خفیہ رکھا گیا…؟ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ میں آئینی عدالت کے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی سطح پر قیام کا ذکر یقیناً ہوگا، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ موجودہ ترمیم کے خالقوں نے آئین کی بنیادی روح کو مجروح کیا ہے جس میں تمام آئینی اداروں کی خودمختاری اور ہر سطح پر عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے۔ جب کہ ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو فتح کرنے اور حکومت کے تابع رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ صورتِ حال کا ایک بڑا سبب اعلیٰ عدلیہ کی ضرورت سے زیادہ فعالیت اور واضح اندرونی گروہ بندی بھی ہے، مگر اس کا علاج ہرگز یہ نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری چھین کر اسے حکومتی اطاعت کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے۔ عدالتِ عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیم کی منظوری کے فوری بعد پیر کے روز ’’موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی‘‘ کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران درست نشاندہی کی ہے کہ اب یہ سوال ہر روز اٹھے گا کہ کیس عام بینچ سنے یا آئینی بینچ…؟‘‘ اس کے علاوہ اسی روز تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات سے متعلق نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران منصفِ اعلیٰ اور تحریک انصاف کے وکیل کے مابین یہ نکتہ گرما گرمی بلکہ تلخی کا باعث بنا رہا کہ ترمیم کی منظوری کے بعد یہ عام عدالت اس کیس کی سماعت کرسکتی ہے یا نہیں؟
جہاں تک ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کا تعلق ہے جس کا نام چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے بار بار استعمال کیا گیا، اس میثاق کا بنیادی مقصد و مدعا تو یہ تھا کہ ملک، جمہوریت اور سیاسی آزادیوں کو اس طاقت ور ادارے سے تحفظ فراہم کیا جائے جو بار بار آئین کو توڑتا اور اسے طاقِ نسیاں کے بالا خانے کی زینت بناکر خود اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے، مگر افسوس کہ آج اس میثاق کا نام لینے والے ہمارے حکمران اور سیاست دان سیاسی یا گروہی مفادات اور اقتدار کے لالچ میں اسی طاقت ور ادارے کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں۔ یہ ترمیم آئین میں متعارف کرانے والوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ماضی میں ایسے اقدامات اپنے خالقوں ہی کے گلے کا پھندا ثابت ہوئے ہیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)