حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی عمر بھر جو کرتے رہے، سو کرتے رہے،مگر جاتے جاتے ہمیں بھی تلقین کر گئے کہ
لیلائے سخن کو آنکھ بھر کر دیکھو
قاموس و لغات سے گزر کر دیکھو
الفاظ کے سر پر نہیں اُڑتے معنی
الفاظ کے سینے میں اُتر کر دیکھو
دیکھیں گے صاحب ضرور دیکھیں گے۔ مگر بالعموم ہمارا سابقہ اُنھیں معنوں سے پڑتا ہے جو الفاظ کے سر پر اُڑتے نظر آتے ہیں۔ جہاں کوئی معنی کسی لفظ کے سر پر اُڑتا نظر آیا، لپک کر دونوں کی تالی سی بنائی اور معنی کو بالکل اُسی طرح چٹاخ سے ہتھیلیوں کے بیچ دبوچ لیا جس طرح کسی کے سر پر اُڑتے ہوئے مچھر کو ایک ہی تالی میں تَلپٹ کردیا جاتا ہے۔ الفاظ کے سینے میں اُترنا آسان کام نہیں،کسی کے دل میں اُترنے سے زیادہ دُشوار کام ہے۔ لیکن اگر اُتر جائیے تو لطف آجاتا ہے۔ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس لفظ کا استعمال کہاں کہاں ہوسکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین ایک عمر تک (یعنی اپنی سبک دوشی کی عمر تک) متعدد تعلیمی اداروں میں اُردو کی تعلیم و تدریس کرتے رہے اور اصلاحِ زبان کے موضوعات پر کتابیں بعد کو بھی تصنیف کرتے رہے۔ اب آج کل ڈاکٹر صاحب علیل اور صاحبِ فراش ہیں۔ ہم بھی دُعا کرتے ہیں، آپ بھی دُعا فرمائیے کہ اللہ شافی الامراض ڈاکٹر صاحب کو شِفائے کاملہ، عاجلہ، مستمرہ عطا فرمائے۔ آمین!
ڈاکٹر غازی علم الدین صاحب کی ایک وقیع کتاب ہے ’’لسانی مطالعے‘‘۔ اس کتاب کے ایک باب میں ڈاکٹر صاحب نے الفاظ کے سینے میں اُتر کر دیکھا ہے۔ خود جو جلوہ دیکھا، وہی ہمیں بھی دکھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب سے اکتساب کرتے ہوئے ہم بھی چند الفاظ کا سینہ کھول کر آپ کو نظارہ کرواتے ہیں۔ مگر یہ ’اکتساب‘ کیا ہوتا ہے؟
’اکتساب‘ نکلا ہے ’کسب‘ سے۔ کسب کا مطلب ہے کمانا، حاصل کرنا، محنت کرنا۔ فارسی کا ایک مشہور مصرع ہے: ’’کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی‘‘۔کمال حاصل کرو تاکہ دنیا میں عزت پاؤ۔ اسی سے اسمِ فاعل ’کاسِب‘ بنا ہے جس کا مطلب ہے کمانے والا، محنت کرنے والا۔ یعنی مزدور یا محنت کش۔ کمانے، حاصل کرنے اور محنت کرنے کا عمل ہی ’اکتساب‘ کہلاتا ہے۔ لیکن صاحب! یہاں تو ’کسب‘ ڈاکٹر غازیؔ نے کیا ہے اور ’اکتساب‘ ہم نے کرلیا۔ آپ سے کیا چھپانا، ضمیرؔ جعفری مرحوم اپنے مرحوم ہونے سے قبل ہی یہ راز فاش کرگئے تھے :
جہاں میں زور و زر والے، اثر والے، ہنر والے
ہمیشہ دوسروں کا مال استعمال کرتے ہیں
ہمیں آپ ’ہنروالوں‘ میں شمار کرکے استعمال کرلیجے۔ استعمال کرنے والی چیزوں میں سب سے پہلے ’رومال‘ کا خیال آتا ہے۔ آج کل جا بجا بلکہ بجا و بے جا ’کاغذی رومال‘ استعمال کرنے کا رواج بڑھ گیا ہے۔ لیکن ہمارے اہلِ زبان اپنی زبان میں اسے ’کاغذی رومال‘ کہنے سے ہچکچانے لگے ہیں۔ برطانوی زبان میں ’ٹائیں ٹائیں فِش‘ جیسا کوئی سا نام اپنی زبان پر لے آتے ہیں۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جہاں میں زور و زر والے، اثر والے، ہنر والے، بالخصوص مغرب والے، مشرقی انسانوں کو کاغذی رومال کی طرح استعمال کرکے انھیں کُوڑے دان میں ڈال جاتے ہیں۔ جب مشرقی لوگ مغرب پسند ہوئے تو کُوڑے دان کو بھی ‘Dust Bin’میں ڈال آئے۔
’رومال‘ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ دونوں فارسی کے ہیں۔ ’رُو‘ بمعنی منہ یا چہرہ اور ’مال‘۔ ’مال‘ کا مصدر ’مالیدن‘ ہے یعنی ملنا یا رگڑنا۔ مالش کا لفظ بھی اسی سے نکلا ہے۔ گویا ’رومال‘ کا مطلب ہوا ایسا کپڑا جس سے چہرے کو ملاجائے، رگڑا جائے اور صاف کیا جائے۔ مگر ’رگڑا دینے‘ میں احتیاط لازم ہے۔ بالخصوص خواتین اپنی مشّاطاؤں سے منہ زیادہ نہ رگڑوایا کریں۔کبھی کبھی چہرہ بالکل ہی صاف ہوجاتا ہے۔
’بالکل‘ پر یاد آیا کہ آج کل بڑے قابل قابل لوگ ’بلکل‘لکھنے لگے ہیں۔ شاید وہ اس لفظ کے سینے میں بالکل نہیں اُترے۔ یہ لفظ بھی مرکب ہے ’بِ ال کُل‘ کا۔’بِ‘ حرفِ جر ہے، اس کا مطلب ہے ’ساتھ‘ یا ’سے‘۔ جیسے ’بِ اِسمِ اللہ‘ اللہ کے نام سے یا اللہ کے نام کے ساتھ۔ اسے ملا کر’بِسمِ اللہ‘ لکھتے ہیں۔ ’ال‘ تخصیص کے لیے آتا ہے۔ ‘The’کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’کتاب‘ کوئی بھی کتاب ہوسکتی ہے، لیکن ’الکتاب‘ سے مراد ایک خاص کتاب یعنی ’قرآن مجید‘ ہے۔ ’الکُل‘ کا مطلب ہوا سب کا سب، سارے کا سارا، کُل کا کُل۔ اس طرح ’بالکل‘ کے معنے ہوئے ’مکمل طور پر، خاص طور پر یا کُلّیۃً۔ حرفِ جَر ’ب‘ ہمیشہ بالکسر (یعنی زیر کے ساتھ) استعمال نہیں ہوتا۔ بالفتحہ (یعنی زبر کے ساتھ) بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’ب‘ زبر والے الفاظ اُردو میں ’بکثرت‘ یعنی کثرت سے یاکثرت کے ساتھ، استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً بَغور (غور سے یاغور کے ساتھ) اور بَعزمِ صمیم (پختہ عزم سے یا پختہ عزم کے ساتھ)۔ پس’بالکل‘ کو ’بلکل‘ لکھنا بے وقوفی ہے۔
’بے وقوفی‘ کا مطلب تو نادانی، حماقت یا بے عقلی لیا جاتا ہے، مگر یہ بھی مرکب ہے دو الفاظ کا۔’وقوف‘ کا مطلب ہے ٹھیرنا یا رُکنا۔ اس کا مصدر ’وقف‘ ہے۔ اسی سے توقف کرنا یا وقفہ کرنا بھی ماخوذ ہے۔کم عقل اور کم سمجھ بوجھ والے شخص میں قرار، ٹھیراؤ یا وقوف نہیں ہوتا۔ جلد باز ہوتا ہے۔ بے سوچے سمجھے اور بات کو تولے بغیر جلدی سے بول پڑتا ہے۔ اسی عادت کی وجہ سے غالباً مروّتاً اسے صرف بے وقوف کہا گیا۔ ورنہ اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا تھا۔ بے وقوف کہنے کا ایک سبب یہ بھی بنتا ہے کہ ایسا شخص دوسروں کی سنے بغیر اور اپنی بات میں وقفہ کیے بغیر یعنی رُکے بغیر مسلسل بولے چلا جاتا ہے۔ بے وقوف کہیں کا۔ ڈاکٹرغازی علم الدین نے اس ضمن میں ایک دلچسپ بات لکھی ہے:
’’قدیم زمانے میں ایسی طویل عبارت لکھی جاتی تھی جس میں بہت کم وقفہ (Full stop)کیا جاتا تھا۔ایسی طویل عبارت کو لوگ بے وقوف کہتے تھے‘‘۔(’’لسانی مطالعے‘‘۔ باب: ’’الفاظ کا تخلیقی، معنوی اور اصطلاحی پس منظر‘‘۔ ص:57)
بے وقفہ عبارت کو بالکل اُسی طرح’بے وقوف‘ کہتے تھے جیسے بغیر نقطے کے لکھی جانے والی عبارت کو ’بے نُقَط‘ کہتے ہیں (’نُقَط‘ نُون پر پیش اور قاف پر زبر)۔ نُقَط جمع ہے ’نقطہ‘ کی۔ اُردو میں جمع کے طور پر ’نقطے، نقاط اور نقوط‘ بھی مستعمل ہیں۔ نقطوں والی عبارت ’منقوط‘ کہلاتی ہے۔ گالیاں دینے کو بھی مہذب زبان میں ’بے نُقَط سنانا‘ کہتے ہیں۔ شاید مہذب لوگ صرف بغیر نقطے والی گالیاں بکتے ہیں (مثلاً ’ولدالحرام‘ یا ’حرام کی اولاد‘وغیرہ) ’بے نُقَط‘ کی جگہ ’بے نُقوط‘ بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ مصحفیؔ صاحب ایک دن بَولا کربول ہی گئے:
کس دن لکھا تھا آپ کو اک عاشقانہ خط؟
سَو سَو جو گالیاں مجھے دیتے ہو بے نُقوط
یہاں ایک نکتہ اور یاد آگیا۔ لوگ نقطے اور نکتے میں فرق کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ نقطہ کہتے ہیں صفر کو، بِندی کویا ‘Dot’ کو۔ حروف میں فرق کرنے کو بھی ’نقطہ لگایا‘ جاتا ہے۔ ’ب‘ کے نیچے اِک نقطہ، ’ت‘ کے اوپر دو نقطے اور ’چ‘ کے پیٹ میں تین نقطے۔ جب کہ’ نکتہ‘ کہتے ہیں باریک بات کو یا تَہ کی بات کو، جسے انگریزی میں ‘Point’کہا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باریک غلطیاں چننے والے کو ’نکتہ چیں‘کہتے ہیں، اسی سے اسمِ کیفیت نکتہ چینی بنا ہے۔ جوشخص باریک باریک باتیں جانتا اور سمجھتا ہو، وہ ’نکتہ وَر‘ہے۔ مولانا ظفر علی خان کی مشہور نعت کا شعر ہے:
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا، جو نکتہ وَروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اِک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں