اس گفت و شنید کے باوجود تھوڑی دیر بعد نیوکیمپس میں مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اغوا کی کوشش کی گئی، مگر خدا کے فضل اور جمعیتی ساتھیوں کی بہادری سے مخالفین کا یہ مجرمانہ حربہ ناکام ہوا۔ بعد دوپہر اولڈ کیمپس میں دوبارہ مجھ پر حملہ کیا گیا، مگر یہاں پر بھی کارکنوں نے مخالفین کو مار بھگایا۔ البتہ ہیلے کالج میں جب ہم گئے تو ہمارے بعض ساتھیوں کو مار کھاکر وہاں سے نکلنا پڑا۔ خود میرے ساتھ بھی بدتمیزی کرتے ہوئے ایک جتھے نے اچانک حملہ کیا اور میری نکٹائی پکڑ کر میرا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، مگر میں نے مزاحمت کرکے نکٹائی چھڑا لی، پھر ہمارے ساتھیوں نے جان پر کھیل کر مخالفین کے گھیرے کو توڑا اور دھینگامشتی کرتے ہوئے مجھے بخیریت کالج کیمپس سے باہر لے آئے۔ ہمارے ہیلے کالج میں جانے کے نتیجے میں مقامی کارکنوں اور ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو بڑا حوصلہ ہوا جو صبح سے خوف زدہ اور ہراساں تھے۔ اُس روز ہم نے ہر پولنگ اسٹیشن کا دورہ کیا۔ انتخابی رولز کے مطابق امیدوار کو ہر پولنگ اسٹیشن پر اندر جاکر صورتِ حال کا جائزہ لینے کی اجازت تھی۔
بیلٹ پیپروں میں اس غلطی کے بارے میں میرا تجزیہ اُس وقت بھی یہ تھا اور آج تک مجھے یہی تجزیہ درست معلوم ہوتا ہے:
(ا) شعبہ امورِ طلبہ میں کوئی فرد یا افراد ایسے تھے جو جمعیت کے خلاف سرگرمِ عمل تھے۔
(ب) عام صورتِ حال کے پیش نظر جمعیت کے مخالفین یہ سمجھتے تھے کہ صدارت کے امیدواروں میں مقابلہ سخت ہے، اور یہ بات درست تھی، تاہم سیکرٹری کے انتخاب میں حفیظ خان کی پوزیشن خاصی مضبوط تھی۔ اعظم ملک (ہیلے کالج) جو ابتدا میں سیکرٹری شپ کے امیدوار تھے، میری درخواست پر حفیظ خان کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے۔ موصوف میرے بہت اچھے دوست تھے۔ ان کے دست بردار ہوجانے کے بعد یہ بات بالکل یقینی تھی کہ حفیظ جیت جائے گا۔ حفیظ خان نہایت نفیس، قابل اور انگریزی زبان پر پورا عبور رکھنے والا ہر دل عزیز طالب علم تھا۔
(ج) جمیل اختر کا نام بعض بیلٹ پیپروں میں سے غائب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو اس طرح اُس کے لیے عام طلبہ برادری کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں گی۔ دوسرے اگر جہانگیر بدر کامیاب ہوگیا تو اس کی کامیابی کے زور سے جمیل اختر کو بھی ضمنی الیکشن میں کامیاب کرا لیا جائے گا، اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو یہ عذر ہنگامہ کھڑا کرنے کے لیے کافی ہوگا کہ جمیل اختر کا نام کیوں غائب ہوا۔
الیکشن کے دوران ہیلے کالج میں جو مار دھاڑ اور غنڈہ گردی ہوئی اس کی کوئی مثال کسی تعلیمی ادارے کے انتخابات میں نہیں ملتی، اس سب کچھ کے باوجود شام کو جب نتائج آنا شروع ہوئے تو مجموعی طور پر ہمارا پلہ بھاری تھا۔ جہانگیر بدر کی پرانی مادرِ علمی (ہیلے کالج) سے اسے بھاری اکثریت مل رہی تھی، مگر موصوف کے نئے کالج (لا کالج) کے ہر 6 پولنگ اسٹیشنوں پر جمعیت نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ میرے اپنے شعبے (اسلامیات) میں کُل (غالباً) 152 ووٹ پڑے۔ ان میں سے صرف 3 ووٹ جہانگیر بدر کو ملے، جب کہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔ گویا مجھے 148ووٹ ملے تھے۔ شعبے کے طلبہ و طالبات نے الیکشن میں اس طرح کام کیا تھا گویا وہ خود الیکشن لڑرہے تھے۔
پولنگ اسٹیشن خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ بڑے اداروں میں کئی کئی پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔ پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہر پولنگ اسٹیشن پر ریٹرننگ افسر (اساتذہ) کی نگرانی میں پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں گنتی ہورہی تھی۔ گنتی مکمل ہونے پر ہر امیدوار کے پولنگ ایجنٹ سے پیپر پر لکھی ہوئی تعداد کی تصدیق کرائی جاتی اور دستخط لیے جاتے۔ پھر پولنگ افسر پروفیسر صاحب بھی دستخط کرتے اور مہر لگاتے۔ اس کے بعد نتیجے والا پیپر سر بمہر لفافے میں مرکزی الیکشن کمیشن کے دفتر نیوکیمپس جمع کرایا جاتا۔
(اس کارروائی اور گنتی کے بعد ایس ٹی سی میں دوبارہ مجموعی گنتی بھی چیف الیکشن کمشنر اور چیف پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ہونی تھی۔ آخری گنتی کے دوران مَیں لا کالج ہاسٹل میں تھا۔ ہر اسٹیشن پر کارکنوں کی ٹیمیں مقرر تھیں، جونہی کوئی نتیجہ برآمد ہوتا وہ فوراً سعید منزل اور لا کالج ہاسٹل میں اطلاع پہنچاتے۔ رات آٹھ بجے تک صورتِ حال واضح ہوچکی تھی، ہم الیکشن جیت چکے تھے، اگرچہ مقابلہ خاصا سخت ہوا تھا۔ آٹھ بجے کے بعد مَیں شہر میں ایک دوست کے ہاں آرام کرنے کی غرض سے چلا گیا۔
رات بارہ بجے کچھ ساتھی وہاں آئے اور کہا کہ چلو نیوکیمپس میں تمھارا انتظار ہورہا ہے۔ ایک دوست کی گاڑی میں ہم نیوکیمپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ نتائج تیار ہوچکے ہیں اور جہانگیر بدر اور اس کے ساتھی کچھ غیر طالب علم غنڈوں کی معیت میں ایس ٹی سی (STC) کے باہر جمع ہوکر نتائج کا اعلان رکوانے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہمارے ساتھی بھی اُن کے مقابلے پر بہادری سے ڈٹے ہوئے تھے۔ ہم کوئی پون بجے ایس ٹی سی پہنچے۔ رات انتہائی خنک تھی اور ہر طرف دھند اور کہر تھی۔ ایک عجیب ہنگامہ آرائی کا منظر تھا۔ جوں ہی ہمارے کارکنوں نے مجھے دیکھا تو جوش و خروش سے نعرے لگانے لگے۔
ہال کے اندر جب اطلاع پہنچی کہ میں آگیا ہوں تو پروفیسر امتیاز علی شیخ (پرنسپل لا کالج۔ آپ بعد میں جامعہ کے وائس چانسلر بھی مقرر ہوئے) جو اس انتخاب میں چیف الیکشن کمشنر تھے، خواجہ غلام صادق اسسٹنٹ الیکشن کمشنر کے ہمراہ ہال سے باہر نکلے۔ دونوں اساتذہ خاصے تھکے ہوئے نظر آرہے تھے، خواجہ غلام صادق کے ہاتھ میں ایک پرچہ تھا۔ اس پرچے میں ہر سیٹ کا نتیجہ درج تھا۔ اس میں سے انھوں نے نتائج کی تفصیل پڑھ کر سنائی۔ اعلان کے مطابق مجھے 2296ووٹ ملے تھے اور جہانگیر بدر کو مجھ سے تقریباً دوسو ووٹ کم یعنی کُل 2100 ملے تھے۔ باقی پوسٹوں پر تنویر تابش نائب صدر اور عثمان غنی خان جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ انجمن خواتین میں ہماری نمائندہ طالبہ سائرہ کریم کامیاب قرار پائیں۔
الیکشن کے دوسرے دن ہم نے اولڈ کیمپس سے ایک جلوس نکالا اور اسمبلی ہال کے سامنے تقریریں کرکے منتشر ہوگئے۔ اسی روز شام کو مختلف ہاسٹلوں میں جاکر ووٹروں کا شکریہ ادا کیا۔ ہیلے کالج ہاسٹل میں عجیب منظر تھا۔ وہ منظر آج تک میری آنکھوں کے سامنے ہے، ہاسٹلوں کی بالکونیوں، گیلریوں اور برآمدوں میں ہر جانب موم بتیوں سے چراغاں کیا گیا تھا۔ تمام لڑکوں نے اپنے اپنے روم اور اپنی ڈارمیٹریوں کے اندر بھی موم بتیاں جلا رکھی تھیں۔ ہاسٹلوں کے طلبہ ہمارے زبردست حامی تھے، مگر ان کی تعداد بہت کم تھی۔ ہیلی کالج ہاسٹل ہی میں ہمیں اطلاع ملی کہ جہانگیربدر اور اس کے گروپ نے دن کو ایک میٹنگ کی تھی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سیکرٹری کا انتخاب نہ ہونے دیا جائے۔ پولنگ کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر حملے کر کے بیلٹ بکس اٹھا لیے جائیں۔ سیکرٹری کا الیکشن اس سے اگلے دن یعنی 28جنوری کو ہونا قرار پایا تھا۔
یہ خبر ملتے ہی میں نے اسی وقت ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر محمد ابراہیم صاحب کے ہائوس میں جاکر ان کی اجازت سے وائس چانسلر علامہ علا الدین صدیقی (مرحوم) سے فون پر بات کی اور مخالف گروپ کی ہیلے کالج میں ہونے والی میٹنگ کا تذکرہ کیا۔ میں نے علامہ صاحب سے واضح طور پر عرض کیا کہ اس معاملے میں یا تو جامعہ کی جانب سے حفاظتی اقدامات کیے جائیں یا ہم لوگ خود حفاظتی انتظامات کرلیں۔ علامہ صاحب نے بڑے وثوق سے کہا ’’بیٹا! پہلی بات تو یہ ہے کہ اس افواہ میں مجھے کوئی وزن نظر نہیں آتا، دوسرے ہم پورے حفاظتی اقدامات کرلیں گے آپ کوئی فکر نہ کریں۔ غالباً آپ لوگوں کو بلاوجہ اشتعال دلانے کے لیے یہ افواہ پھیلائی گئی ہے۔‘‘
جن جن دوستوں تک ہم پیغام پہنچا سکے، انھیں اطلاع دے دی کہ کل گڑبڑ کا خطرہ ہے، مگر اکثر طلبہ کو اطلاع نہ مل سکی، کیوںکہ اُس زمانے میں تو موبائل کا تصور بھی نہیں ہوتا تھا اور ہر جگہ اور شخص کے پاس لینڈ لائن فون کی سہولت بھی نہ ہوتی تھی۔ دوسرے روز علی الصبح جب پولنگ کا عمل شروع ہوا تو ہیلے کالج سے حسب ِپروگرام ہاری ہوئی پارٹی نے پولنگ اسٹیشنوں پر حملہ کرکے بیلٹ بکس اٹھا لیے۔ جامعہ کے عام الیکشن میں ہر ووٹر کو عہدے داران اور کونسلرز سمیت کم از کم 14یا 15امیدواران کے ناموں کے سامنے نشان لگانا ہوتا ہے، اس لیے خاصا وقت لگ جاتا ہے، مگر اُس روز چوںکہ صرف ایک ہی جگہ ہر ووٹر کو نشان لگانا تھا اس لیے ایک گھنٹے کے اندر اندر کم و بیش پولنگ کا بیشتر کام ختم ہوچکا تھااور اکثر شعبوں میں پریزائیڈنگ افسر اور پولنگ ایجنٹوں کے سوا کوئی اور نہ تھا۔
ہیلے کالج سے بیلٹ بکس اٹھا کر جلوس کی صورت میں یہ لو گ اولڈ کیمپس آئے اور اکثر شعبوں میں گھس کر مخالف ایجنٹوں کو زدوکوب کیا، اساتذہ کو برا بھلا کہا اور بیلٹ بکس اٹھا لیے۔ میں اس وقت اپنا ووٹ ڈال رہا تھا، جب یہ لوگ شعبہ اسلامیات پہنچے۔ ہمارے شعبے میں زیادہ تعداد طالبات کی تھی، مگر الحمدللہ ہم نے اپنے اسٹیشن پر بیلٹ بکسوں کی حفاظت کی۔ کئی دیگر شعبوں میں طلبہ نے بروقت پہنچ کر حملہ آوروں کو ناکام بنادیا۔ جن شعبوں کے بیلٹ بکس محفوظ رہے ان میں شعبہ اسلامیات سرفہرست تھا۔
ہنگامہ آرائی نیوکیمپس میں بھی اسی وقت شروع ہوئی جب اولڈ کیمپس اور ہیلے کالج کیمپس میں اس کا آغاز ہوا۔ یہ باقاعدہ سوچی سمجھی اسکیم تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیوکیمپس کے شعبوں میں ہنگامے کی قیادت طاہرہ مصطفیٰ (ناکام امیدوار برائے انجمن خواتین) نے کی۔ بیلٹ بکس توڑنے کے بعد ہنگامہ آرا غائب ہوگئے۔ بیلٹ پیپرز جو اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے، بعض جگہوں سے ہمارے کارکنوں نے جمع کیے۔ بیلٹ پیپروں پر جمیل اختر کے نام پر کہیں شاذ و نادر ہی مہر کا ٹھپہ نظر آتا تھا، اکثر ووٹ حفیظ خان کے حق میں ڈالے گئے تھے۔ میں اسی روز وائس چانسلر صاحب سے ان کے دفتر میں جا کر ملا۔ طلبہ کا ایک وفد میرے ساتھ تھا۔
میں نے وائس چانسلر صاحب کے ساتھ ملاقات میں اُن کو گزشتہ شب والی ٹیلی فونی گفتگو یاد دلائی اور کسی قدر شکایت کے لہجے میں کہا کہ ’’سر! ہم سے دھوکا کیا جارہا ہے اور آپ اس پر کوئی ایکشن نہیں لے رہے۔‘‘ اس پر وہ بڑے دھیمے انداز میں کہنے لگے: ’’بیٹے! آپ جو مرضی کہہ لیں میں تو صرف اسی قدر عرض کروں گا کہ آپ لوگ (جمعیت طلبہ) میرے لیے بمنزلہ اولاد کے ہیں۔ جو کچھ ہوا ہے، اس پر انتظامی کمیٹی میں غوروخوض کرکے مناسب کارروائی کریں گے۔‘‘
اس روز کی طویل گفتگو میں ہمارا ناقابلِ تبدیل مؤقف یہ تھا کہ
(1) جس قدر بھی بیلٹ بکس محفوظ رہ گئے ہیں، ان کی گنتی کرکے نتائج کا اعلان کردیا جائے۔
(2) ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف فوراً کارروائی کا اعلان کیا جائے۔
(3) یونین کی حلف برداری کی تاریخ مقرر کی جائے۔
ہمارے مطالبات سننے پر وائس چانسلر صاحب کا جواب تھا کہ (1) چھ سات ہزار ووٹروں کے ادارے میں چار پانچ یا سات آٹھ سو محفوظ ووٹوں پر کس طرح جیت ہار کا اعلان کیا جائے! (2)کارروائی کے لیے لازماً انتظامیہ عنقریب غور کرے گی۔ (3) غیر مکمل یونین کی حلف برداری کیسے ممکن ہے!
علامہ صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ میں اس وقت اپنے اور اُن کے مؤقف کے حسن و قبح پر کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ وہ ہمارے بزرگ بھی تھے، استاد بھی اور باہمی احترام و شفقت کا رشتہ بھی دو سال سے قائم تھا۔
میں نے صرف اتنا عرض کیا کہ ’’سر! جب ہم نے آپ کو اطلاع دے دی تھی کہ شکست خوردہ فریق کا تخریب کاری کا پلان ہے تو آپ نے فرمایا تھا کہ تم لوگ فکر نہ کرو، نہ تخریب کاروں کو تم روکو، اس سے باہم تصادم ہوگا، ہم خود صورتِ حال کو کنٹرول کرلیں گے۔ پھر انتظامیہ نے کیوں غفلت برتی؟‘‘ اس پر استادِ محترم نے فرمایا: ’’تم زیادہ بحث میں نہ پڑو، ہمیں کچھ کرنے دو!‘‘ میں نے عرض کیا: ’’جنابِ محترم! آپ اپنی اور ساری انتظامیہ کی اس عدم ذمہ داری کو کس کے کھاتے میں ڈالیں گے؟‘‘ علامہ صاحب نے قدرے بلند آواز میں فرمایا: ’’فضول بحث اور تکرار کو چھوڑو، انتظار کرو!‘‘ بس ہم کیا کر سکتے تھے، مجلس سے اٹھ کر باہر آگئے۔(جاری ہے)