پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ مرحوم’’مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے‘‘

بروز پیر7 اکتوبر کو جب میں نے اچانک خواجہ محلہ کندھ کوٹ کے درویش صفت مکین، معروف ماہرِ تعلیم، مبلغ، مصنف،مؤلف، داعی، مربی، مقرر، سید مودودیؒ اور تحریکِ اسلامی کے عاشقِ صادق پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ کے سانحۂ ارتحال کی خبر سنی تو دل بے اختیار رنج اور الم سے بھر گیا۔ سوچا کہ اس دورِ قحط الرجال میں کتنی بڑی علم دوست شخصیت اور ایک بے لوث خادمِ خلق کو ہم نے کھو دیا ہے، اس کا اندازہ صرف انہی افراد کو ہوسکتا ہے جو مرحوم و مغفور (بلکہ اگر میں انہیں ولی اللہ بھی لکھوں تو ہرگز اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا) پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ کو قریب سے جانتے اور ان کے کام اور خدمات سے بہ خوبی واقف ہیں۔ راقم الحروف کا تعلق ان سے گزشتہ لگ بھگ ایک عشرے پر محیط تھا، لیکن ان سے مانوسیت، محبت اور آشنائی اس قدر زیادہ تھی کہ گویا ہماری ارواح اس عالمِ فانی میں جنم لینے سے پیشتر ہی باہم آشنا تھیں۔ راقم نے جب چند برس قبل پروفیسر صاحب پر ایک تحریر بہ عنوان ’’چھوٹا شہر، بڑا آدمی‘‘ کے سلسلے کے تحت سپردِ قلم کی تھی تو انہیں بہ مشکل اپنے حوالے سے معلومات فراہم کرنے پر آمادہ کیا تھا، کیوں کہ مرحوم نمود و نمائش اور شہرت سے فطری بُعد اور مغائرت رکھتے تھے۔ انہوں نے مذکورہ تحریر کے لیے اپنی تصویر میرے مسلسل اصرار کے باوجود دے کر ہی نہ دی۔ وہ صرف ایک ہی مقصدِ حیات رکھتے تھے اور ساری زندگی اسی پر کاربند رہے، اور وہ تھا بڑے لوث اور بے غرض انداز میں کامل دیانت داری اور سچائی کے ساتھ کام، کام اور بس کام۔ اور یہ کام انہوں نے ایک طرح سے تادمِ حیات سرانجام دیا۔

فتنۂ ارتداد، قوم پرستی، سیکولرازم، لبرل ازم، لسانیت، شرک، بدعت، علاقائیت اور فرقہ واریت کے خلاف انہوں نے عمر بھر ایک روایتی قبائلی معاشرے میں بذریعہ تحریر اور تقریر ڈنکے کی چوٹ پر کام کیا اور اس حوالے سے وہ راہ میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں لائے اور نہ ہی کسی خوف، خطرے یا دھمکی کی پروا کی۔ بلاشبہ انہوں نے تنِ تنہا وہ کام کیا جو اداروں کے کرنے کا تھا۔

پروفیسر عبدالخالق سہریانی کی شخصیت بڑی من موہنی تھی۔ میں نے انہیں ہمیشہ ہنستے اور مسکراتے ہی دیکھا۔ انہیں غیبت اور گلہ سے یک گونہ نفرت تھی۔ میرے سامنے جب بھی کسی نے کسی حوالے سے محفل میں کسی غیر موجود فرد کی برائی کرنی چاہی تو انہوں نے بڑی خوب صورتی سے بات کا رُخ کسی اور طرف موڑ دیا، یا پھر خود ہی ہدفِ تنقید بننے والے شخص کی یہ کہہ کر صفائی پیش کرنے کی کوشش کی کہ ’’ہوسکتا ہے اسے یہ مجبوری لاحق ہو جس کی وجہ سے اس سے شکایت پیدا ہورہی ہے۔‘‘

پروفیسر سہریانی مرحوم کو سابق امیر ضلع مرحوم احمد نور مغل اور پروفیسر محمد یونس قریشی، ملک الطاف حسین (اللہ تعالیٰ ہر دو شخصیات کو مع صحت کے تادیر سلامت رکھے) بڑی محبت تھی اور ان کا ذکر ہمیشہ بڑے والہانہ انداز میں کیا کرتے تھے۔ تقریباً تین برس قبل جب مرحوم جیکب آباد تشریف لائے تو بڑے اہتمام کے ساتھ پروفیسریونس قریشی اور ملک الطاف حسین کے ہاں بہ غرض ملاقات تشریف لے گئے اور اس موقع پر مجھے، ہدایت اللہ رند نائب امیر ضلع اور غلام حیدر پیرزادہ کو شرفِ ہمراہی بخشا تھا۔ اس موقع پر ہم نے تحریکِ اسلامی کی مذکورہ بڑی شخصیات کی آپس کی ملاقاتوں سے ان کی ماضی کی خوش گوار حسین یادوں کے تذکرے سے وہ عطر کشید کیا تھا جس کی خوشبو آج تک مشامِ جاں کو معطر کیے رکھتی ہے۔ پروفیسر سہریانی مرحوم جب بھی کندھ کوٹ سے جیکب آباد تشریف لانے کا ارادہ کرتے تو ایک یا دو روز قبل مطلع فرما دیا کرتے تھے۔ ان کی طبیعت میں نفاست، ریاضت، عبادت اور نظافت کا التزام اور اہتمام اتنا زیادہ تھا کہ مجھے تو ان کے چہرے سے باقاعدہ نور چھلکتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی دنیاوی آلائشوں سے یکسر پاک اور صاف تھی۔ انہیں پیرانہ سالی کی عمر میں بھی دعوت اور تبلیغ کا کام نوجوانوں کی طرح کرتے دیکھ کر جہاں رشک آتا تھا، وہیں یک گونہ ان کی اس فعالیت اور تحرک پر حیرت بھی ہوا کرتی تھی۔ پروفیسر سہریانی مرحوم ضعیف العمری میں بھی ہرجا، ہر شہر، ہر قریہ سفر کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہا کرتے تھے اور دعوتی کام کے سلسلے میں وہ کسی صعوبت یا تکلیف کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ مرحوم پروفیسر عبدالخالق بلوچ علامہ اقبال کے اس شعر کی ایک جیتی جاگتی اور زندہ مثال تھے اور بسا اوقات انہیں اور تحریکِ اسلامی ضلع کندھ کوٹ کشمور کی ایک اور بڑی شخصیت، جید عالمِ دین مرحوم و مغفور مولانا عبداللہ کھوسو کو دیکھ کر یہ شعر بے اختیار ذہن میں در آیا کرتا تھا:

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو دیے ہیں حق نے اندازِ خسروانہ

(یہاں پر راقم اپنے اس تاسف کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ اپنی کوتاہی اور سہل انگاری کی وجہ سے ماضیِ قریب میں وفات پانے والی تحریکِ اسلامی ضلع کندھ کوٹ کشمور سے تعلق رکھنے والی دو بڑی شخصیات مولانا عبداللہ کھوسو (مدفون جنت المعلیٰ) اور پروفیسر غلام حیدر بہلکانی کے بارے میں تحاریر نہیں لکھ سکا۔ پروفیسر بہلکانی مرحوم سابق پرنسپل لا کالج کندھ کوٹ تھے)۔ پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ سے وابستہ خوش گوار، یادگار اور حسین یادوں کا سلسلہ ہے کہ اس وقت امنڈتا چلا آرہا ہے، سمجھ میں نہیں آرہا کہ کسے لکھا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔ مرحوم سے آخری مرتبہ فون پر گفتگو اُن کی وفات سے تقریباً دو ہفتے قبل ہوئی تھی۔ اس موقع پر میں نے اُن کی آواز کو بجائے ہشاش بشاش پانے کے، اس میں نقاہت اور کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواباً یہ فرمایا کہ ’’پراسٹیٹ گلینڈ کی بیماری کا علاج چل رہا ہے، دعا کریں کہ اللہ صحت یابی عطا فرمائے۔‘‘ کسے معلوم تھا کہ میری یہ اُن سے فون پر آخری بات چیت ہوگی اور میں پھر اُن کی شیریں اور نرم آواز دوبارہ کبھی نہ سن پائوںگا۔

پروفیسر سہریانی مرحوم کو اردو، عربی، انگلش، سندھی اور بلوچی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ وہ فنِ تقریر اور تحریر ہر دو کے دھنی تھے۔ ان کی وفات کی خبر سنی تو اُن کے پسندیدہ شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا یہ بیت بھی بے ساختہ یاد آگیا گویا انہی کے لیے شاہؒ نے فرمایا ہو:

’’جان جان ھیئی جیئری ورچی نہ ویٹھی‘‘
مرزا غالبؔ کے اس شعر کو بھی ان سے منسوب کیا جاسکتا ہے:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ 27 نومبر 1938ء کو کندھ کوٹ شہر کے ایک سندھی مہذب اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کندھ کوٹ ہی میں حاصل کی، جب کہ انٹر اور بی اے کے امتحانات انہوں نے سی اینڈ ایس کالج شکارپور سے پاس کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے سیاسیات، اسلامیات، عربی اور تاریخ کے مضامین میں ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔ انہوں نے ایل ایل بی کی سند بھی حاصل کر رکھی تھی۔ کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کندھ کوٹ میں تاریخ اسلام کے استاد مقرر ہوئے جہاں انہوں نے علاقے کے شاگردوں کو تعلیم و تربیت اور شعور سے منور کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ مرحوم کو لندن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس جو اسلامی انقلابِ ایران سے متعلق تھی، میں بھی شرکت کا موقع ملا جس میں انہوں نے اپنا مقالہ پڑھا تھا۔ انہوں نے قاہرہ میں الازہر یونیورسٹی کے زیر اہتمام دعوتِ دین کے بارے میں منعقد کردہ ایک سہ ماہی ریفریشر کورس میں بھی شرکت کی تھی۔ ان کی یہ کتب اپنے مضوعات پر بے حد شان دار اور مؤثر لوازمے کی حامل ہیں:

-1 مسلم امت پر قوم پرستی کے اثرات (بزبانِ اردو)

-2 اسلامی ریاست میں علاقائی حقوق کا تصور (بزبانِ اردو، سندھی)

-3 خدا اور مذہب (بزبانِ سندھی)

-4 فرقہ واریت اور اسلام (سندھی)

-5 فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے رجحانات (اردو)

-6 سیکولر ازم چھا آھی (سندھی)

-7 اسلام چھا آھی (سندھی)

-8 قرآن مجید کی سمجھی پڑھن جا آسان اصول ء طریقہ (سندھی)

اور اَن گنت مضامین، کتابچے وغیرہ اس پر مستزاد ہیں۔

مرحوم پروفیسر سہریانی باب الاسلام سندھ کی اُن متحرک اور فعال ترین شخصیات میں بے حد نمایاں تھے جنہوں نے سنِ شعور تا دم آخر ایک بامقصد اور قابل رشک زندگی بسر کی۔ انہوں نے دعوت اور تبلیغ کے میدان میں جو بے مثال خدمات بذریعہ تحریر اور تقریر سرانجام دی ہیں، ان کی وجہ سے مرحوم کو اِن شاء اللہ روزِ آخرت سرخ روئی نصیب ہوگی۔ سندھ اور اہلِ سندھ کے ساتھ ساتھ وہ سارے ملک اور پوری امتِ مسلمہ کا درد بھی اپنے دل میں رکھتے تھے۔ میں نے کئی مرتبہ فون پر دورانِ گفتگو انہیں ستم رسیدہ فلسطینیوں کے لیے بے قرار اور مضطرب پایا۔ وہ ایک صاحبِ خیر بھی تھے اور مستحق، ضرورت مند، بیمار افراد کی مخفی طور پر مدد کیا کرتے تھے۔ میں خود بھی اس امر کا چشم دید گواہ ہوں۔ پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ مرحوم لگ بھگ 90 برس کے ہونے کے باوصف نہ صرف اپنے صوبے بلکہ ملک بھر میں اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے جس کے لیے انہوں نے اپنی ساری حیاتِ مستعار وقف کر دی تھی، سفر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے سیرت ِنبویؐ اور دینِ اسلام کے حوالے سے منعقدہ بے شمار سیمینارز میں ملک بھر میں نہ صرف شرکت کی بلکہ مقالے بھی پڑھے۔ انہیں علم دوست اصحاب سے ملاقات اور خط کتابت کا بھی شوق تھا۔ وہ اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کے لیے بذریعہ تحریر اور تقریر ایک لحاظ سے تادمِ آخر سرگرم عمل رہے۔وہ اپنے دوست احباب سے اگر ملاقاتوں میں وقفہ حائل ہوجاتا تو بذریعہ فون مسلسل اور مستقل رابطے میں رہا کرتے تھے۔ پروفیسر مرحوم حد درجہ مشفق، مہربان، متواضع، مہمان نواز اور منکسر المزاج شخصیت کے حامل تھے۔ جو شخص بھی ان سے ایک مرتبہ ملاقات کرتا تھا وہ پھر ہمیشہ کے لیے ہی ان کے اخلاق، علم و عمل، نرم خوئی اور اوصافِ حمیدہ کے باعث ان کا گرویدہ ہوجاتا۔

پروفیسر سہریانی مرحوم بنیادی طور پر دعوتِ دین کے میدان کے بے مثال اور منفرد شناور تھے۔ انہیں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے اور اذہان میں راسخ کرنے کا قدرت کی طرف سے ایک شان دار ملکہ حاصل تھا جس کا استعمال وہ بوقتِ ضرورت بڑی عمدگی اور خوب صورتی سے کیا کرتے تھے۔

پروفیسر مرحوم تادم حیات سندھ میں لادینیت کے فروغ کو روکنے کے لیے نہ صرف اپنی جملہ مساعی بروئے کار لاتے رہے بلکہ احباب کو بھی متوجہ کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ سندھی، اردو میں دینی، علمی، ادبی کتب کے ممتاز اشاعتی ادارے مہران اکیڈمی شکارپور، زیر نگرانی پروفیسر قمر میمن کے قیام کے لیے بھی مرحوم مسلسل مرحوم و مغفور مولانا جان محمد عباسی کو توجہ دلاتے رہے۔ خرم مراد مرحوم کی مساعی سے قائم کردہ اس ادارے کے زیر اہتمام تاحال سیکڑوں مفید اور مؤثر کتب چھپ کر پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ پروفیسر سہریانی ساری زندگی فرائیڈے اسپیشل، جسارت اور دیگر تحریکی رسائل کے باقاعدہ خریدار اور قاری بھی رہے۔

پروفیسر حبیب اللہ بجارانی کے مطابق ایک بار جب کندھ کوٹ کے مدرسے دارالفیوض میں مولانا مفتی محمود مرحوم اور مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم کسی پروگرام میں شرکت کے لیے آ ئے تو اُس وقت مقامی گورنمنٹ ڈگری کالج میں تعینات یارانِ کہن پروفیسر محمد یونس قریشی اور پروفیسر سہریانی نے ان کے ہاں جاکر ملاقات کی اور مختلف تاریخی، سیاسی اور دینی حوالوں سے مکالمہ بھی کیا۔ دونوں رہنمائے عظام ان پروفیسر صاحبان کی علمی قابلیت اور استعداد سے بڑے متاثر ہوئے اور ان کے رخصت ہونے کے بعد اپنے مقامی رہنماؤں سے استفسار کیا کہ آ خر اتنے قابل لوگ کون تھے؟ تو انہوں نے جماعت اسلامی سے تعلق کے بارے میں بتایا جس پر مولانا ہزاروی مرحوم نے بے ساختہ کہا ’’اچھا تویہ مودودیے تھے!‘‘

8 اکتوبر کو گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کے وسیع و عریض میدان میں ہر طبقۂ فکر اور عمر کے افراد کی بڑی تعداد میں ان کی نماز جنازہ میں شرکت اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی کہ وہ کتنے ہر دل عزیز اور دل پسند شخصیت کے حامل تھے۔ ان کے نیک اطوار اور صالح فرزند ماہر امراض اطفال ڈاکٹر امان اللہ بلوچ ضلعی صدر الخدمت فائونڈیشن کندھ کوٹ کشمور اِن شاء اللہ اپنے عظیم والد کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کا عزم مصمم رکھتے ہیں۔ مرحوم سندھ کے اُن اسلامی دانش وروں میں نمایاں تھے جنہوں نے سندھ میں فکرِ اسلامی کو درپیش چیلنجز کے توڑ کے لیے کتاب کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اپنے انتقال سے چند روز پہلے تک وہ سندھ کے تعلیمی اداروں، عام افراد اور معروف شخصیات میں دینی اور تحریکی کتب کی تقسیم اور ان کی اشاعت کے لیے کوشاں رہے۔ ان کی ذاتی لائبریری میں دینی، تاریخی، سیرتی، علمی اور ادبی موضوعات پر مبنی کتب کا بڑا ذخیرہ ان کے علم دوست ہونے کا مظہر تھا۔ وہ علم دوست حضرات سے محبت رکھتے تھے اور ان کی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔ ہمہ وقت اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے دور دراز کا سفر کرنے کے لیے بھی بہ خوشی تیار رہتے تھے۔ کندھ کوٹ میں انہوںنے انجمن اصلاح ملت، ایوانِ علم و ادب اور ادارۂ تعمیر ملت قائم کرکے نژادِنو کی تعلیم اور تربیت میں اپنا کردار ادا کیا۔ کندھ کوٹ میں مدرسہ قائم کرکے اس میں مولانا واحد بخش خلجی جیسے جید عالم دین کو مقرر کیا۔ انہوں نے افراد کی ذہن سازی میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ تنظیم فکر و نظر سندھ کے صدر بھی رہے۔ شنید ہے کہ کندھ کوٹ میں ایمبولینس سروس بھی شروع کی تھی۔ جب انہیں سپردِ خاک کیا جارہا تھا تو ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے یہ سوچ رہے تھے، بقول عبیداللہ علیم:

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے