کھلاڑیوں کو نہیں بورڈ کو آرام کی ضرورت ہے
پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز جاری ہے۔ پہلے ٹیسٹ میں انگلینڈ نے پاکستان کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر بدترین شکست دی اور سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ اپنے نام کرلیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 556 رنز اسکور کیے، جس میں کپتان شان مسعود کے 151 اور عبداللہ شفیق اور سلمان آغا کی سنچریاں شامل تھیں جبکہ سعود شکیل نے بھی عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے 82رنز اسکور کیے۔ انگلینڈ نے بھی جواب میں شاندار بلے بازی کرتے ہوئے 823 رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا اور اس کی محض 7 وکٹیں گری تھیں کہ اس نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کردیا۔ انگلینڈ کی جانب سے ہیری بروک نے317 اور جوروٹ نے 262 رنز کی شاندار اننگز کھیلیں، ان کے علاوہ بین ڈکٹ نے بھی84رنز اسکور کیے۔ اس طرح انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف 277رنز کی برتری حاصل کرلی۔
پاکستان نے دوسری باری کا آغاز 277کے خسارے سے کیا۔ وکٹ بیٹنگ کے لیے بہت آسان تھی، اس لیے امید کی جارہی تھی کہ پہلی باری کی طرح پاکستان اس بار بھی شاندار کھیلے گا، اور اگر ہم یہ ٹیسٹ نہ جیت سکے تو کم از کم ڈرا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن توقع کے برعکس دوسری باری میں پاکستان کی بیٹنگ بری طرح لڑکھڑا گئی اور دوسری اننگز کی پہلی ہی گیند سے تباہی کا آغاز ہوگیا جب عبداللہ شفیق کرس ووکس کی گیند پر بولڈ ہوگئے۔ اس کے بعد ٹیم سنبھل نہ سکی اور یکے بعد دیگرے پاکستانی بلے باز آؤٹ ہوتے رہے، صرف 82رنز پر پاکستان کی 6وکٹیں گر چکی تھیں۔ اس مرحلے پر سلمان آغا اور عامر جمال نے کچھ مزاحمت کی اور نصف سنچریاں اسکور کیں تو اسکور220رنز تک پہنچ پایا۔اس طرح پاکستان پہلے ٹیسٹ میچ میں ایک اننگ اور 47رنز سے شکست کھاگیا۔ اس میچ میں بابر اعظم اور محمد رضوان بھی بری طرح ناکام رہے۔
پہلے ٹیسٹ میں بدترین شکست کے بعد قومی ٹیم کو میڈیا سمیت تمام حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر نویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پاس یہ آخری موقع تھا کہ وہ انگلینڈ کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر شکست دے دیتی تو ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلتی۔ لیکن پاکستان بنگلہ دیش سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر شکست کے بعد انگلینڈ سے بھی اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہار چکا ہے، اس طرح اب پاکستان کا ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کا خواب بکھ گیا ہے۔
پہلے ٹیسٹ میں شکست کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ کے لیے اپنے اسکواڈ کا اعلان کردیا جس میں سابق کپتان بابراعظم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور سابق کپتان سرفراز احمد شامل نہیں ہیں۔ ان کھلاڑیوں کو شامل نہ کرنے پر بورڈ نے جو وضاحت دی ہے وہ بھی قابلِ غور ہے، بورڈ کے بقول ان کھلاڑیوں کو ابھی آرام کی ضرورت ہے، یہ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اور اپنی کارکردگی بہتر بناکر دوبارہ قومی ٹیم میں شامل ہوسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان اور انگلینڈ سیریز کے درمیان پاکستان کرکٹ بورڈ کو ان کھلاڑیوں کو آرام دینے کا خیال کیوں آیا ہے؟ یاد رہے کہ پہلے ٹیسٹ میں شکست کے بعد فوری طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے سلیکشن کمیٹی کو بھی بدل دیا ہے اور نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے اپنے ایک عالمی شہرت یافتہ ایمپائر علیم ڈار کو بھی سلیکشن کمیٹی کا رکن نامزد کردیا ہے۔ علیم ڈار پر تنقید کی جارہی ہے کہ وہ ایک بڑے ایمپائر تھے اور اب ان کی بطور سلیکٹر تقرری کا کیا جواز بنتا ہے، یا وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ان کو سلیکشن کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے؟ نہ صرف علیم ڈار بلکہ عاقب جاوید جو اس وقت سری لنکا کے بولنگ کوچ ہیں، وہ بھی سلیکشن کمیٹی کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ اسد شفیق اور اظہر علی جو خود ابھی لیگ کھیل رہے ہیں ان کو بھی سلیکشن کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ نئی چار رکنی سلیکشن کمیٹی ہمارے سامنے ہے، ان لوگوں کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ نئی سلیکشن کمیٹی کے اعلان کے چار روز بعد دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میچوں کے لیے ٹیم کا اعلان کیا جاتا ہے اور چار اہم سینئر کھلاڑیوں کو ٹیم سے نکال دیا جاتا ہے۔ اگر نئے اسکواڈ پر نظر ڈالیں تو اس میں کپتان شان مسعود، نائب کپتان سعود شکیل، عامر جمال، عبداللہ شفیق، حسیبب اللہ، کامران غلام، مہران ممتاز، میر حمزہ، محمد علی، محمد ہریرہ، محمد رضوان، نعمان علی، صائم ایوب، ساجد خان، سلمان علی آغا اور زاہد محمود شامل ہیں۔ نئے اسکواڈ میں اُن تین چار کھلاڑیوں کو بھی شامل کیاگیا ہے جن کی بہت عرصے سے بات ہورہی تھی کہ انہیں موقع دیا جائے۔ لیکن جو طریقہ ان کھلاڑیوں کو شامل کرنے اور بڑے ناموں کو ٹیم سے باہر نکالنے کا اختیار کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کرکٹ بورڈ اورچیئرمین محسن نقوی خود بھی سیاست اور اقرباپروری کا شکار ہوگئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نکالے گئے کھلاڑیوں کو مسلسل میچز کھلا رہا تھا اور اگر اب ان پر برا وقت آیا اور کارکردگی متاثر ہوئی تو ان کو جس انداز سے ٹیم سے نکالاگیا اس پر یقینی طور پر بورڈ پر خاصی تنقید ہورہی ہے۔ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ نئے لڑکوں کو پہلے سے موجود سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیتا تو ہم یقینی طور پر ان بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ ان متبادل کھلاڑیوں کو بھی اچھے انداز میں تیار کرسکتے تھے۔ لیکن اچانک چار بڑے کھلاڑیوں کو ٹیم سے نکالنے کی وجہ جہاں ان کی کارکردگی ہے وہیں ٹیم اور بورڈ میں موجود گروپ بندی اور پسند و ناپسند کی سیاست کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔ پاکستان نے نئے اسکواڈ میں تین نئے اسپنر ڈالے ہیں جن میں زاہد محمود، ساجد خان اور مہران ممتاز شامل ہیں، جبکہ ابرار احمد ڈینگی کی وجہ سے ابھی تک اسپتال ہی میں ہیں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا ٹیسٹ میچ اُسی پچ پر کھیلا جارہا ہے جس پر پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تھا۔ پہلے ٹیسٹ میچ میں وکٹ فلیٹ تھی جس کی وجہ سے زیادہ رنز دیکھنے کو ملے۔ اب وہی وکٹ دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ پاکستان دوسرے ٹیسٹ میچ میں تین اسپیشلسٹ اسپنرز کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ جو نئی ٹیم کھیل رہی ہے کیا یہ اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرسکے گی؟ اس کا عملی جواب تو دوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میچ کے اختتام پر ہی ملے گا۔ بابراعظم ابھی وائٹ بال ٹیم کے کپتان ہیں اور اب لوگوں کو انتظار ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے دوبارہ ٹیم میں واپسی کو یقینی بنائیں۔ ماضی میں بہت سے کھلاڑیوں کو یہ کہہ کر ٹیم سے باہر کیاگیا تھا کہ ان کو آرام کی ضرورت ہے لیکن پھر وہ ٹیم میں دوبارہ واپس نہیں آسکے۔کیا بابراعظم، نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی ٹیسٹ کرکٹ میں واپس آسکیں گے؟ اس کا جواب وہ اپنی کارکردگی سے ہی دے سکیں گے۔ ویسے کہا جارہا ہے کہ صرف کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ موجودہ بورڈ کو بھی آرام کی ضرورت ہے۔