ہمارے بچوں کا مستقبل

تربیت میں غفلت تباہی کا راستہ
ترقی یافتہ معاشرے بچوں کی معیاری تربیت پر بھرپور توجہ دیتے ہیں، ہم کیوں نہیں؟

ہم ایک زمانے سے یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ دنیا جس راہ پر گامزن ہوگی ہم اُس سے دور رہیں گے یا پھر اُسے راہ تسلیم ہی نہیں کریں گے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ ہمارے لیے نہیں، ہمارے کسی کام کا نہیں۔ اور یہ بھی کہ ہم جس طور جی رہے ہیں بس وہی جینے کا بہترین طور ہے، پھر چاہے اس طور جینے میں ہمارے بیڑے ہی کیوں نہ غرق ہوتے رہیں۔

کسی بھی ہوش مند معاشرے کا ایک انتہائی بنیادی وصف ہوتا ہے حال سے اچھی طرح آگہی۔ جس زمانے میں ہم جی رہے ہیں وہ یعنی حال ہمارے لیے سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے والے معاشرے معدودے چند ہیں۔ جن معاشروں میں اپنے موجودہ زمانے کو سمجھنے کا شعور نہیں ہوتا اُن کا جو حال ہوتا ہے وہ ہم سے مخفی نہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے معاشرے کسی بھی شعبے میں اپنا آپ منوانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوپاتے۔ حال کی تمام پیچیدگیوں کو سمجھنے اور اُن سے نپٹنے کی صورت ہی میں مستقبل کو مستحکم اور تابناک بنانا ممکن ہوپاتا ہے۔

ایسا تو ہر دور میں ہوا ہے کہ چند ریاستیں یا چند معاشرے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے تھے اور باقی دنیا پس ماندہ رہ جاتی تھی۔ یہ معاملہ محنت اور قسمت دونوں کا ہے۔ ہاں، محنت کا کردار زیادہ ہے۔ وہی معاشرے، ممالک اور خطے اپنا آپ منوانے میں زیادہ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے وقت کی نزاکت کو سمجھا ہے، خود کو بہتر زندگی کے لیے تیار کیا ہے اور موجودہ زمانے کی معقول تفہیم کے ذریعے مستقبل کو زیادہ محفوظ اور تابناک بنانے پر بھرپور توجہ مرکوز کی ہے۔

آج بھی ایسا ہی تو معاملہ ہے۔ چند ممالک نے انتہائی درجے کی ترقی یقینی اور ممکن بنائی ہے۔ مغربی دنیا باقی دنیا سے بہت مختلف اور بہت مستحکم و خوش حال ہے۔ مشرق میں بھی چند ممالک نے فطری علوم و فنون کے حوالے سے پیش رفت یقینی بناکر اپنے لیے ایک ایسی زندگی کی راہ ہموار کی ہے جس میں ہر طرف خوش حالی اور معاشی استحکام ہے۔ اخلاقی، روحانی اور نفسی سطح پر جو پیچیدگیاں ہیں وہ اپنی جگہ۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مغربی دنیا نے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ معاشی استحکام اور مادّی ترقی کی راہ خوب ہموار کی ہے؟

کسی بھی معاشرے کی بنیادیں اُسی وقت مستحکم ہو پاتی ہیں جب اُس کے افراد کی بنیادیں مستحکم ہوتی ہیں۔ اور اِن میں بھی بالخصوص بچوں کی۔ بچے کسی بھی معاشرے کا حقیقی مستقبل ہوتے ہیں۔ اُن کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربیت ہی طے کرتی ہے کہ وہ کس طرف جائیں گے، یعنی معاشرے کو کس طرف لے جائیں گے۔

پاکستان کا شمار پس ماندہ معاشروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان سے زیادہ پس ماندہ معاشرے بھی موجود ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بہت سے معاملات میں اُنہیں بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے یعنی وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ جب معاشروں کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب قانون کی عمل داری نہیں ہوتی، زمین سے محبت نہیں ہوتی، مستقبل کے بارے میں سوچنے کی توفیق عطا نہیں ہوتی تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مجموعی طور پر قومی سوچ اب تک پروان نہیں چڑھی۔ یہ تو ہوا اجتماعی مزاج کا معاملہ۔ انفرادی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ لوگ اپنے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ جو لوگ اپنے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں وہ اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں کیونکر سنجیدہ ہوسکتے ہیں؟ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجود نئی نسل اور آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچنے سے گریز کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے کیونکہ ہم وہ نتیجہ بھگت رہے ہیں۔

ہمارے ہاں ابتدا ہی سے بچوں کی معقول تعلیم و تربیت پر متوجہ رہنے والوں کی کمی رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ جو معاشرے کی سوچ ہے وہ والدین پر انفرادی حیثیت میں اثرانداز ہوتی ہے۔ معاشرے کا عمومی رویہ ایڈہاک اِزم ہے یعنی کسی نہ کسی طور کام چلالو، بعد میں دیکھی جائے گی۔ یہ ’’بعد‘‘ کبھی نہیں آتا کیونکہ یہ صرف ہمارے ذہن کا واہمہ ہے۔ ہماری یہ سوچ انتہائی بے بنیاد ہے کہ یہ وقت گزر جائے تو دیکھی جائے گی۔ ہم اپنے بہت سے کام مستقبل پر ٹالتے رہتے ہیں اور وہ مستقبل آنے کا نام نہیں لیتا کیونکہ مستقبل تو ہر آن واقع ہورہا ہوتا ہے۔

کسی بھی کامیاب معاشرے کا پوری دیانت اور غیر جانب داری سے تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اُس نے سب سے زیادہ توجہ نئی نسل یعنی بچوں کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرنے پر مرکوز کی۔ یہ کام بہت چھوٹی عمر سے کرنا ہوتا ہے۔ بچہ جیسے ہی ہوش سنبھالتا ہے، اُسے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ دنیا اچھی ہے نہ بُری۔ اِس میں جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے لیے ہے اور ہمیں اِس سے جتنا لینا ہے اُس سے زیادہ دینا ہے۔ معاشرے کو پروان چڑھانے کے حوالے سے بچوں کو اُن کی مستقبل کی ذمہ داری کا بہت چھوٹی عمر سے احساس دلانا اُن کی زندگی میں استحکام پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

کسی بھی کامیاب معاشرے کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ سب سے زیادہ توجہ ابتدائی تعلیم پر مرکوز رکھتا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بچوں کے ذہن موم کی طرح ہوتے ہیں۔ اُنہیں جس سانچے میں ڈھالیے، ڈھل جاتے ہیں۔ اگر بچوں کو چار پانچ سال کی عمر میں باور کرادیا جائے کہ اُن میں فلاں فلاں ہنر میں مہارت حاصل کرنے کی صلاحیت یا رجحان پایا جاتا ہے تو اُن کے لیے کیریئر کی ایک راہ متعین ہوجاتی ہے اور پھر وہ زندگی بھر اُس راہ پر دل جمعی سے گامزن رہتے ہیں۔

امریکہ، یورپ، چین، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، ملائشیا وغیرہ کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیجیے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ وہ اپنی نئی نسل کو بہت چھوٹی عمر سے تیار کرتے ہیں۔ بچوں کے رجحانات کا اندازہ لگاکر اُنہیں معقول و موزوں معاشی جدوجہد کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ منظم سوچ کے تحت ہوتا ہے۔ اس معاملے میں یورپ نے خاصے قابلِ تقلید معیارات متعارف کرائے ہیں۔ نئی نسل کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کی اِس خطے کی سوچ انتہائی مستحکم ہے۔ یورپ کے تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ معاشروں میں بچوں کی تعلیم اور تربیت دونوں ہی پر اس قدر توجہ دی جاتی ہے کہ باقی دنیا اُسے دیکھ کر حیران رہے بغیر نہیں رہتی۔ اس معاملے میں خالص پروفیشنل اِزم انتہائی اہم ہے اور اُس کا معیار دیکھ کر باقی دنیا صرف سوچتی ہی رہ جاتی ہے کہ کیا بچوں کے معاملے میں اِتنی منظم سوچ بھی اپنائی جاسکتی ہے؟

پاکستان جیسے معاشروں کا ایک بنیادی المیہ یہ بھی ہے کہ جس چیز کی جتنی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اُسے اُتنا ہی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ سنجیدہ ہونا ایسے معاشروں کی بنیادی ضرورت ہے مگر اُتنی ہی غیر سنجیدگی اپنائی اور دکھائی جاتی ہے۔ یہی حال بچوں کی تربیت کا بھی ہے۔ بچوں کو اسکول میں داخل کرواکر سمجھا جاتا ہے کہ حق ادا ہوگیا، فرض نبھادیا۔ کیا واقعی اتنا کرنے سے حق ادا ہوجاتا ہے؟ کیا بچوں کی معقول تعلیم و تربیت محض اسکول کا معاملہ ہے؟ کیا اس اہم معاملے کو صرف اساتذہ پر چھوڑا جاسکتا ہے؟ اور کیا بچے صرف اساتذہ سے سیکھ سکتے ہیں، اوروں سے نہیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا اور ایسا نہیں ہے۔

ویسے تو بچوں کی معقول تعلیم و تربیت ہر دور میں والدین کی بنیادی ذمہ داری رہی ہے مگر اب معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ ہوچکا ہے۔ فی زمانہ والدین اس اہم معاملے سے خود کو الگ رکھ ہی نہیں سکتے۔ اُنہیں فرنٹ پر رہتے ہوئے یہ لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔ معاشرہ بچوں کو کچھ کا کچھ بنانے پر تُلا رہتا ہے۔ ٹیکنالوجیز نے معاملات کو الجھادیا ہے۔ ٹیکنالوجیز کو نظرانداز اور مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اُن سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے آپ کو خرابیوں سے بچانے پر مستعد رہنا لازم ہے۔

بچے ایسے ذہن کے مالک ہوتے ہیں جو ماحول میں پائی جانے والی ہر چیز کو قبول کرنے پر آمادہ رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے معاملے کو بگاڑ دیا ہے۔ اب بچے سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ اُن کی نفسی ساخت کا حصہ بنتا جاتا ہے۔ اگر تربیت پر معقول حد تک توجہ نہ دی جائے تو بچے ایسا بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں جو اُن کی ذہنی یا نفسی ساخت کو بگاڑتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ اُن کے مستقبل کو تابناک بنانے کے عمل میں رکاوٹ بنتا ہے۔

جس طور ہم اپنے کیریئر پر متوجہ رہتے ہیں، پروفیشنل اِزم کو نفسی ساخت کا حصہ بنائے رکھتے ہیں بالکل اُسی طور ہمیں بچوں کی موزوں اور معقول تعلیم و تربیت پر بھی متوجہ رہنا ہے۔ بچوں کے فطری رجحانات کا اندازہ چار پانچ سال کی عمر میں ہوجانا چاہیے تاکہ اُن کے لیے کیریئر کی راہ منتخب کرنا کسی بھی مرحلے میں پیچیدہ امر نہ رہے۔

بچے اسکول میں جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اُن کے لیے اگرچہ بہت اہم ہوتا ہے مگر ہر اعتبار سے کافی نہیں ہوتا۔ اسکول تعلیم دیتا ہے، تربیت کا اہتمام والدین اور گھر کے بزرگوں کو کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں برتی جانے والی کوتاہی بچوں کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوتی ہے۔ زندگی قدم قدم پر مشکلات کھڑی کرتی ہے۔ ماحول انسان کو آزماتا رہتا ہے۔ ایسے میں وہی لوگ ثابت قدم رہ پاتے ہیں جن کی تعلیم بھی اچھی ہوئی ہو اور تربیت بھی۔ بچوں کو ایسا بہت کچھ والدین اور خاندان کے بزرگ سکھاتے ہیں جو اسکول میں سکھایا ہی نہیں جاسکا۔ سوال محض اخلاقی اقدار اور اوصاف نہیں بلکہ بھرپور اعتماد اور ثابت قدمی کا بھی ہے۔ وہی بچے کچھ کر پاتے ہیں جو ہر طرح کی صورتِ حال میں ثابت قدم رہنے کی بھرپور تربیت پائے ہوئے ہوتے ہیں۔ بچوں میں مثالی نوعیت کا اعتماد پیدا کرنا والدین کا کام ہے یا پھر خاندان کے بزرگوں کا۔

یہ نکتہ ہر وقت ذہن نشین رہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں بچوں کو مستقبل کے لیے تیار نہ کرنے کی گنجائش صفر ہے۔ ہر بچے کا بنیادی حق ہے کہ اُس کے والدین اور معاشرہ دونوں اُس کے مستحکم، محفوظ اور تابناک مستقبل کے بارے میں سوچیں، منصوبہ سازی کریں، اُس میں قابلِ رشک نوعیت کا اعتماد پیدا کریں اور اُسے وہ سب کچھ سکھائیں جو کسی بھی شعبے میں کیریئر شروع کرنے اور پروان چڑھانے کے لیے لازم ہو۔ اس معاملے میں لاپروائی کی گنجائش ہے نہ تساہل کی۔ اور ہاں، تاخیر بھی نہیں چل سکتی۔