جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ہمت باندھی اور مہنگی بجلی، آئی پی پیز اور ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف عوامی تحریک کو منظم کیا
بجلی کے ہوش ربا نرخوں کے خلاف اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کی تحریک کا ایک مرحلہ کامیاب ہوا، حکومت نے 5 نجی بجلی گھروں کے ساتھ معاہدے ختم کردیے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے۔ نجی بجلی گھروں کے معاہدے واقعی شیطانی معاہدے تھے، لیکن اصل میں تو حکومت کی زیر ملکیت بجلی گھروں کا معاملہ ہے۔ یہ معاملہ حل کرنے میں جو رکاوٹیں ہیں اُن میں ایک بڑی رکاوٹ ان بجلی گھروں کے حصص ہیں جو مختلف شرائط پر فروخت کیے گئے ہیں۔ دوسری بڑی رکاوٹ چینی کمپنیاں ہیں جن کا مؤقف ہے کہ ہمارے ساتھ حکومتِ پاکستان کے معاہدے ریاستی ضمانت ہیں۔ ان معاہدوں پر نظرثانی یا انہیں ختم کرنے میں خوف یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ طویل مدتی نتائج شدید ہوسکتے ہیں۔ جو پیغام بھیجا جارہا ہے وہ واضح ہے کہ ہم ابتدائی طور پر سرمایہ کاروں کو سرخ قالین کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن جب چیلنجز پیدا ہوتے ہیں تو انہیں یک طرفہ طور پر سزا دی جاتی ہے، جس میں کاؤنٹر پارٹی کا کوئی جواب دہ نہیں ہوتا۔ پاور سیکٹر کا عدم استحکام بڑی حد تک حکومتی اداروں اور ریگولیٹر نیپرا کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہے۔ 2016ء تک ظاہر تھا کہ ملک کے شمال میں طلب کو پورا کرنے کے لیے جنوب میں 9,000 میگاواٹ کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے باوجود اس بجلی کو لوڈ سینٹرز تک پہنچانے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچہ ابھی تک غائب ہے۔ صارفین اب پبلک سیکٹر کے اداروں جیسے NTDC، PPIB، CPPA-G، اور نیپرا کی غفلت کی قیمت چکا رہے ہیں۔2016ء میں یہ بھی معلوم ہوا کہ درآمد شدہ کوئلہ (3,300MW)، جوہری (2,400MW)، تھر کول (2,640MW)، اور فیز 2 ونڈ پروجیکٹس (660MW) شمالی لوڈ کے فرق کو پورا کرنے کے لیے 5-6 سال کے اندر آن لائن ہوں گے۔ منطقی اقدام یہ ہوتا کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کو اMپ گریڈ کیا جاتا تاکہ شمال کو سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے باوجود یہ کام زیر التوا ہے۔ دو HVDC (ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ) لائنوں مٹیاری-لاہور اور مٹیاری-فیصل آباد کے منصوبے تیار کیے گئے تھے لیکن مؤخر الذکر کو روک دیا گیا تھا۔ آئی پی پیز کے ساتھ اس بات پر کوئی مشاورت نہیں تھی کہ پیدا ہونے والی بجلی کا انتظام کیسے کیا جائے۔ رحیم یار خان اور اٹک کے درمیان واقع جغرافیائی خطے کے درمیان NTDC سسٹم پر 60-70 فیصد طلب کے ساتھ پلانٹس کو حکمت عملی کے مطابق واقع ہونا چاہیے تھا، لیکن منصوبہ بندی ناکام رہی۔1980ء کی دہائی میں منصوبہ بندی بہت بہتر تھی، جس میں اسٹرے ٹیجک طریقے سے اَپ گریڈنگ کی ضرورت ہے، جو ابھی ہونا باقی ہے۔ اگلا بڑا چیلنج ڈسٹری بیوشن کے نقصانات میں ہے، جو سیاسی ہیں۔ سیاست دان تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کا استحصال کرتے ہیں، من پسند ملازمین کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور چوری کی حفاظت کرتے ہیں، اور سیاسی اشرافیہDISCOs پر کنٹرول برقرار رکھنے سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
چینی وزیراعظم کے دورے کے دوران چینی قرضوں کی دوبارہ تشکیل کی ابتدائی کوششوں کو بات چیت کا حصہ سمجھا جانا تھا۔ تاہم کراچی ایئرپورٹ پر چینی انجینئرز پر حالیہ حملے کے بعد اس ایجنڈے کو روک دیا گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں ممکنہ طور پر (سی پی ای سی کو چھوڑ کر) دیگر آئی پی پیز کے ساتھ مزید زبردستی مذاکرات شامل ہوں گے، اس طرح ممکنہ طور پر سالانہ 200-250 بلین روپے (2-2.5 روپے فی یونٹ) کی بچت ہوگی۔ تاہم یہ بچتیں صارفین کی پریشانیوں کو کم کرنے میں بہت کم حصہ ڈالیں گی جبکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچائیں گی۔ بار بار کی گئی قلیل مدتی اصلاحات، جوابدہی کی کمی، اور سرمایہ کاروں کو نظرانداز کرنا نہ صرف اس شعبے کو پریشان کرے گا بلکہ وہ مستقبل میں اصلاحات کی کسی بھی کوشش کو متاثر کردیں گے۔ اگر ہم اس راستے پر چلتے رہے تو پاکستان کا توانائی کا منظرنامہ صرف غیر پائیدار نہیں رہے گا بلکہ غیر محفوظ ہوجائے گا۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور ہم اس بات پر متفق ہیں کہ بجلی کی قیمتیں کم ہونی چاہئیں۔ آئی پی پیز سے دو چار ماہ سے بات چیت کا آغاز کیا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 5 پاور پلانٹ بند کردیں تو 65 پیسے کا فرق پڑے گا۔ ٹیکس اسٹرکچر دیکھا جارہا ہے، پاور سیکٹر کے لوکل ڈیٹ کو ری پروفائل کرنے کی ضرورت ہے۔ 35 روپے میں سے 19 روپے یونٹ کیپسٹی چارجز ہیں، یہ شرح 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔ چند ماہ میں بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی۔ دوسری جانب سابق نگران وزیر گوہر اعجاز نے انکشاف کیا ہے کہ پانچ پلانٹ جو بجلی بنا ہی نہیں رہے تھے انھیں باقاعدگی سے پیسے دیے جا رہے تھے۔ معاہدے ہوئے بجلی بنائو یا نہ بنائو، پیسے دیں گے۔ بجلی بنانے کے پانچ ہزار کروڑ وصول کیے جبکہ بجلی نہ بنانے کے 26 ہزار کروڑ روپے وصول ہورہے ہیں۔ مہنگی بجلی کے باعث صنعت کار اور دوسرا کاروباری طبقہ ہی پریشان نہیں ہے، عام آدمی کے لیے بھی بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی وبالِ جان بنی ہوئی ہے جس کا اتحادی حکومت کو بخوبی ادراک ہے۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جو پاور پلانٹس بجلی پیدا ہی نہیں کررہے انھیں اربوں کھربوں روپے کس مد میں دیے جارہے ہیں؟ اس سے تو یہی تاثر پختہ ہوا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں میں قومی مفاد کے بجائے اپنا کمیشن کھرا کرکے ان پاور کمپنیوں کو بھرپور فائدہ پہنچایا گیا جس کا خمیازہ غریب عوام بھاری بلوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
گوہر اعجاز نگران وزیر رہ چکے ہیں، ان کی جانب سے کیا گیا انکشاف پوری قوم کے لیے حیرت انگیز ہی نہیں، دکھ کا باعث بھی بنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جن پاور کمپنیوں کو بنا بجلی بنائے کروڑوں روپے ادا کیے گئے ہیں ان کی واپسی کا تقاضا کیا جائے اور اس رقم کو بلوں میں ایڈجسٹ کرکے عوام کو ریلیف دیا جائے۔ آئی پی پیز اور حکومت اس بات پر متفق ہیں کہ بجلی کی قیمتیں کم ہونی چاہئیں جس کے لیے دونوں کے درمیان بات چیت کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی کے نرخ کم سے کم سطح پر لائے جائیں، بالخصوص بجلی کے بلوں میں لگائے گئے ناجائز اور ناروا ٹیکسز ختم کرکے عوام کے کندھوں سے یہ بوجھ اتارا جائے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ پانچ نجی پاور کمپنیوں (آئی پی پیز) سے کیے گئے معاہدے ان کی باہمی رضامندی سے ختم کردیے گئے ہیں۔ ان آئی پی پیز نے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھا۔ یہ معاہدے ختم ہونے سے سرکاری خزانے کو 411 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر دورِ حکومت میں حکومتی بے تدبیریوں اور ناقص پالیسیوں کے باعث عوام کے غربت، مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے دس سال بعد ہی بیل آئوٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا انہی حکومتی بے تدبیریوں کا شاخسانہ ہے، جبکہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بعد آج تک ہماری معیشت سنبھل نہیں پائی، اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے کرتے عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا گیا ہے جو نانِ جویں کے علاوہ سازگار ماحول میں سانس لینے کو بھی ترس رہے ہیں۔ آج ہم توانائی کے جس سنگین بحران کا سامنا کررہے ہیں، اس کی کبھی نوبت ہی نہ آتی اور ہم اپنے ہائیڈل پراجیکٹس سے اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کرنے کے علاوہ وافر بجلی برآمد بھی کررہے ہوتے، مگر اس معاملے میں ہمارے منصوبہ سازوں کی بے تدبیریوں کے علاوہ پاکستان کی ترقی کے مخالف اندرونی اور بیرونی عناصر نے بھی علاقائی بنیادوں پر منافرت کی سیاست کو ہوا دی اور بطور خاص ایک بڑے ڈیم کی تعیمر ناممکن بنا دی۔ پاکستان کی ترقی کے سفر کو روکنا بھارت کے تو ایجنڈے میں شامل تھا مگر اس کی ایماء پر ہمارے مفاد پرست سیاست دانوں نے بھی ہائیڈل بجلی کی پیداوار کے آگے رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اس مفاد پرستانہ حکمتِ عملی کا نتیجہ مہنگی تھرمل بجلی کے نجی پلانٹس کی صورت میں برآمد ہوا جس کے لیے بے نظیر بھٹو سے نوازشریف تک اور پھر عمران خان کے دور میں بھی اپنوں کو نوازنے کے لیے تھرمل پاور کمپنیوں کے ساتھ بے سروپا، بے سود اور انتہائی مہنگے معاہدے کیے گئے جو ملک کی معیشت کو بھی آکاس بیل کی طرح چمٹ گئے اور مہنگی بجلی کے ذریعے عوام کا بھرکس نکالنے میں بھی ان آئی پی پیز نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ہمت باندھی اور مہنگی بجلی، آئی پی پیز اور ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف عوامی تحریک کو منظم کیا اور اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز کردیا۔ اسی دھرنے کے نتیجے میں وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے دو سو سے پانچ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ریلیف پیکیج وضع کیے گئے۔ اگرچہ یہ پیکیج اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھے تاہم اس سے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملنے کا احساس تو ہوا۔ اسی تحریک کے باعث آئی پی پیز کا ایشو بھی سامنے آیا جس کی تفصیلات نگران حکومت کے وزیر توانائی گوہر اعجاز نے پیش کیں تو آئی پی پیز کی لوٹ مار کے اصل حقائق جان کر عوام حیرت زدہ ہی نہیں، مشتعل بھی ہوئے کہ کس طرح حکمران طبقات کی جانب سے قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، جبکہ آئی پی پیز کو دی گئی اربوں ڈالر کی رقوم سے اب تک تین چار بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹس قائم ہوسکتے تھے جو عوام کو سستی بجلی فراہم کررہے ہوتے۔ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے باعث ہی آئی پی پیز کے مالکان حکومت کے ساتھ اپنے معاہدوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئے، اور آج پانچ آئی پی پیز کی جانب سے معاہدے ختم کیے گئے ہیں۔
حکومت اگر عوام کو بجلی کی مد میں ریلیف دینا چاہتی ہے تو سرکاری ملازمین اور دوسرے مراعات یافتہ طبقات کو دی جانے والی بجلی اور پیٹرول کی مفت سہولت بھی واپس لے لی جائے جس کا اب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی جانب سے تقاضا بھی شروع کردیا گیا ہے۔