آئینی ترامیم کے کھیل میں اصل ایجنڈا پارلیمان یا عدلیہ کی مضبوطی نہیں
پاکستان بنیادی طور پر ایک ذمہ دار ریاست بننے یا حکمرانی کے نظام کو عملی شکل دینے کے بجائے ایک بڑے سیاسی کھیل کا حصہ بن گیا ہے۔ ایسی ریاست جس کی ترجیح سیاست، جمہوریت، اخلاقیات، آئین و قانون اور شہریوں کے مفادات سے زیادہ ذاتیات پر مبنی سیاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاست اور ریاست کے نظام کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی حالیہ بحران کو سیاسی، معاشی یا سیکورٹی کے بحران سے زیادہ ایک بڑے ریاستی بحران کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول بنیادی طور پر ہم قومی سطح پر ایک بڑے ریاستی بحران کا شکار ہیں، اور اس بحران نے عملی طورپر سیاسی، جمہوری، آئینی، قانونی، سیکورٹی اور معاشی بحران کو زیادہ سنگین کیا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج بھی یہاں مسائل کے حل یا مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت کو سیاسی تنہائی میں دیکھا جارہا ہے، اور اس کوشش کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارا بحران کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں طاقت رکھنے والے افراد یا اداروں کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جارہے ہیں، اس طرح مسائل کا حل تلاش کرنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں، کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ہی عقلِ کُل ہیں اور باقی جو لوگ بول یا لکھ رہے ہیں، یا جو متبادل تجاویز پیش کررہے ہیں وہ سب غلط ہیں یا ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں علمی و فکری بحران نے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور ہم اس سے نکلنے کے بجائے مزید مہم جوئی یا قومی سطح پر سیاسی ایڈونچرز کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں جاری سیاسی سرکس یا سیاسی کھیل تماشے کا تعلق ریاستی بحران کے حل سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسلام آباد میں جاری سیاسی چڑھائی کا کھیل ایک دوسرے پر سیاسی سبقت حاصل کرنا، یا سیاسی مخالفین پر اپنی سیاسی برتری قائم کرکے انہیں دیوار سے لگانا رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جو سیاسی تقسیم پہلے سے موجود ہے وہ مزید گہری ہوتی جارہی ہے یا لوگوں کو ایک دوسرے پر جو تھوڑا بہت اعتماد تھا وہ بھی عملی طور پر ختم ہوکر رہ گیا ہے اور لوگ حیران ہیں کہ ریاست یا حکمرانی کا نظام ایسے کیسے چل سکے گا!
اسلام آباد میں جاری سیاسی تماشے کے پانچ پہلوؤں کو پہلے دیکھتے ہیں:
(1) حکومت اور اس کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے یقینی طور پر طے کرلیا ہے کہ ہر صورت میں 25 اکتوبر سے پہلے پہلے ہمیں بزور طاقت لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرکے مجوزہ آئینی ترامیم کا پیکیج منظور کروانا ہے۔ ان ترامیم کی منظوری کو حکومت نے اپنی انا اور سیاسی بقا کا مسئلہ بنالیا ہے، ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم کا مقصد فردِ واحد کی مضبوطی نہیں بلکہ عدالتی نظام کی اصلاحات ہیں، اور دوسری طرف اسے عدالتی نظام کو مفلوج بنانے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ نئے چیف جسٹس کو ایک ایسی عدلیہ کی سربراہی دی جائے جو مفلوج بھی ہو اور اس کے اختیارات بھی محدود ہوں تاکہ موجودہ سیاسی بندوبست یا سیاسی حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ اگرچہ موجودہ چیف جسٹس جارہے ہیں، مگر 25 اکتوبر سے پہلے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا مقصد اُن کے لیے بھی سیاسی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ آگے جاکر انھیں وفاقی آئینی عدالت کی سربراہی دی جائے۔ اس پر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی اپنے اپنے سیاسی کارڈ کھیل رہی ہیں، اور دیکھنا ہوگا کہ اس کھیل کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
(2) پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دینے کی مخالفت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا بڑا اتفاق موجود ہے، اور پی ٹی آئی میں مجموعی سیاسی صورتِ حال اور ریلیف نہ ملنے کی وجہ سے جہاں مایوسی ہے وہیں اُن کا داخلی انتشار بھی بڑھ رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس سے پہلے اسلام آباد میں 15 اکتوبر کو پی ٹی آئی کی احتجاجی کال کھیل کو مزید بگاڑ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ عمران خان سے ملاقاتوں پر اگر پابندی ختم نہیں ہوتی تو ہم اپنا احتجاج کریں گے۔ حکومت دھمکی دے رہی ہے کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس سے قبل اسلام آباد میں کسی احتجاج کی کال دی گئی تو سختی سے نمٹا جائے گا۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل یا ڈھیل کی سیاست بھی کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کو سیاسی راستہ دینے کے بجائے سخت مؤقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔
(3) حکومت اور عدلیہ کی لڑائی بھی عروج پر ہے اور اسلام آباد کے باخبر حلقوں کے مطابق اگر حکومت نے بزور طاقت آئینی ترامیم منظور کروانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعض اہم جج بغاو ت کرسکتے ہیں۔
(4) خیبر پختون خوا میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ہونے والا جرگہ اور وزیراعلیٰ کے پی کے، گورنر اور وزیر داخلہ کا مل بیٹھنا اور وزیراعلیٰ کو بااختیار کرنا بھی بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہے اور لوگ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ کیا کھیل تماشا ہورہا ہے!
(5) اسلام آباد کا سارا سیاسی نظام اور حکومتی کنٹرول کئی حوالوں سے بے بس اور لاچار نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ نام کی حکومت تو موجود ہے مگر اُس کے پاس کوئی اختیار نہیں، اور سارے نظام کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جارہا ہے جس سے اس پورے سیاسی نظام کی ساکھ پر ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ بھی کھڑے ہیں اور ایک دوسرے کی پسِ پردہ مخالفت بھی کررہے ہیں۔ یعنی حقیقی معنوں میں کون کس کے ساتھ کھڑا ہے؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ سب ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اپنا اپنا مفاد حاصل کرسکیں۔ نوازشریف اور بلاول بھٹو کی ملاقات کو بھی اہمیت دی جارہی ہے، اور بلاول بھٹو نوازشریف کی ہی حمایت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور وہ خود کو ایک متبادل حکومت کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ لیکن بلاول بھٹو کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنا سارا وزن اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور ان کے والد کی یہ سیاست کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر کام کرنا ہے اُسے انہوں نے دلی طور پر قبول کرلیا ہے۔ اس لیے آج ہمیں پی ٹی آئی یا مسلم لیگ ن کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کی سطح پر زیادہ سیاسی رومانس دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی میں قربت کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے، مولانا کی یہ کوشش بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان بھی فاصلے کم کیے جائیں۔ کہا جارہا ہے کہ مولانا کو اس کھیل میں بلوچستان کی حکومت کا تحفہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر بھی ایک نئی صف بندی نظر آرہی ہے، وہ بھی اپنے نئے بندوبست کو دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں اور اسی بنیاد پر نئے تانے بانے بھی بُنے جارہے ہیں۔
آئینی ترامیم کی منظوری پر اگرچہ دباؤ حکومت پر ہے کہ اسے ہر صورت ان ترامیم کو منظور کروانا ہے، مگر حکومتی حلقوں کے مطابق مسئلہ ہمارا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا ہے، اور اگر ان ترامیم کو منظور ہونا ہے تو اس میں سہولت کار کا کردار بھی انہوں نے ہی ادا کرنا ہے، یعنی نمبر پورے کرنے کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی ہے اوریہ حکومت کا دردِ سر نہیں۔ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے جس طریقے کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی پر دباؤ ڈالا جارہا ہے یا اُن کو اپنے سیاسی اور کاروباری معاملات میں دباؤ کا سامنا ہے اس نے پورے نظام کی ساکھ کو ہی چیلنج کردیا ہے۔ اس لیے ترامیم ہوتی ہیں یا نہیں، لیکن ہر عمل کو متنازع بنانا اس حکومت کی نااہلی کے زمرے میں آتا ہے۔ ترامیم کو جس عجلت میں منظور کرایا جارہا ہے اس نے حکومت کے سیاسی عزائم کو بری طرح سے بے نقاب کردیا ہے، اور سب کو معلوم ہے کہ آئینی ترامیم کے کھیل میں اصل ایجنڈا پارلیمان یا عدلیہ کی مضبوطی نہیں بلکہ ذاتی مفاد پر مبنی سیاست ہے۔ کیونکہ جب آپ کو ہر صورت میں آئینی ترامیم فوری طور پر منظور کروانی ہیں تو اس سے معاملات حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ یا ٹکراؤ کا سبب بنیں گے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت کے بغیر ان ترامیم کی منظوری مشکل کام لگتا ہے، مگر پیپلزپارٹی کی راہنما شیری رحمٰن کے بقول اگر جے یو آئی نے سپورٹ نہ بھی کی تو ہم نے عددی برتری ممکن بنالی ہے اور ہمارے نمبر پورے ہیں، یعنی جے یو آئی کی عدم حمایت پر بڑے پیمانے پر ارکان کی خریدو فروخت کا کھیل ایک بڑے جمہوری تماشے کے طور پر دیکھنے کو ملے گا۔ خود مولانا بھی وکٹ کے چاروں طرف کھیل رہے ہیں، وہ حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ کھڑے ہیں، اور جب پی ٹی آئی کے ساتھ ملتے ہیں تو اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب کہ سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کے بقول نوّے فیصد یہ طے ہوگیا ہے کہ ترامیم نہیں ہوں گی اور مولانا فضل الرحمٰن کے کردار میں جو ڈبل کھیل ہے اس کو اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ اصل کھیل قومی سطح پر 20 اکتوبر سے 10نومبر تک دیکھنے کو ملے گا، اور اس میں طاقت کے مراکز کے درمیان جاری لڑائی کی جھلک نمایاں ہوگی، اور یہ طے ہوگا کہ یہ نظام کیسے آگے بڑھ سکے گا۔ اگرچہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کے پیکیج اور سعودی سرمایہ کاری کے بعد ہماری معیشت میں بہتری آگئی ہے۔ مگر اس بہتری کا براہِ راست اثر عام آدمی پر کیسے پڑے گا؟ اس سوال کا کسی بھی سطح پر حکومت کے پاس جواب موجود ہی نہیں ہے، اور آئی ایم ایف کے ساتھ جن کڑی شرائط پر قرضہ لیاگیا ہے اوّل تو اس کے بار ے میں بہت کچھ چھپایا جارہا ہے اور دوسری طرف اس کی بھاری قیمت بھی عام آدمی پر ایک بڑے بوجھ کی صورت میں سامنے آئے گی جو لوگوں کے لیے نئی معاشی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ کیونکہ حکومت نے 7 ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی چالیس کے قریب سخت شرائط پر سمجھوتا کیا ہے یا اپنا سرِ تسلیم خم کیا ہے، تو اس کی قیمت کسی نہ کسی کو تو دینی ہے، اور لازمی بات ہے کہ اس کا قرعہ فال عام آدمی کے نام ہی نکلے گا۔