ہماری مذہبیات اور مدارس سے مغرب کو صرف یہ تکلیف نہیں رہی کہ یہاں سے جہاد کی تعلیم ملتی ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب پورے تصورِ زندگی اور اس کی کلیّت کو ہمارے سامنے لاتا ہے
مسلمانوں کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو‘ ان کی اجتماعی زندگی میں گونجنے والے کم و بیش نعرے اور ان کی کائنات میں پروان چڑھنے والی بیشتر خبریں اور رجحانات مغرب کے ایجنڈے کے عین مطابق ہیں۔ مثلاً اگر ہمیں لگ رہا ہے کہ ہمارے تمام ذرائع ابلاغ موسیقی، فلم، ڈرامے اور گلوکاروں اور اداکاروں کے فروغ کے لیے وقف ہوگئے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یا اگر ہمارے بالائی طبقات میں اچانک کلچر کی قلت کا احساس بڑھ رہا ہے اور اس کے جواب میں ہماری جامعات میں فائن آرٹس کے شعبے دھڑا دھڑ کھل رہے ہیں تو ہمیں آگاہ ہوجانا چاہیے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟
اس سلسلے میں اگر آپ نے اب تک ٹنوں کتابیں یا اخبارات پڑھ ڈالے ہیں اور اب تک آپ کو کچھ معلوم نہیںہوسکا تو اس میں قصور آپ کا ہے۔ ورنہ اکبر الٰہ آبادی اور اقبال نے صرف چار مصرعوں میں یہ راز کھول رکھا ہے۔ اکبر کا مشہور شعر ہے:
توپ کھسکی پروفیسر آئے
جب بسولہ ہٹا تو رندا ہے
یعنی مغرب کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ وہ پہلے عسکری طاقت سے قوموں کو فتح کرتا ہے اور پھر فتح کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دانشوروں اور پروفیسروں کی فوج مفتوح قوم پر چھوڑ دیتا ہے۔ بسولہ بڑھئی کا وہ آلہ ہے جس سے لکڑی کو گہرا کھودا جاتا ہے، اور رندا وہ اوزار ہے جس سے لکڑی کو ہموار اور چکنا کیا جاتا ہے۔ بات مکمل ہے۔ مگر پروفیسر آئیں گے تو وہ کچھ پڑھائیں گے بھی، چنانچہ ان کے لیے نصاب تو تیارکرنا ہے۔ یہاں اقبال نے دو مصرعوں میں بات ختم کردی ہے۔ فرماتے ہیں:
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علمِ نباتات
لیجیے تین مضامین ترجیحاً سامنے آگئے یعنی:
1۔ Music، 2۔ Painting، 3۔ Botany
لیکن موسیقی، مصوری اور نباتات ہی کیوں؟ بھئی سرکٹوں اور مُردہ دلوں کو محسوس نہیں ہونے دینا ہے کہ وہ سر کٹے ہیں اور ان میں کوئی ہنر باقی نہیں رہا۔ Fine Arts سے یہ تقاضا پورا ہوجاتا ہے۔ اور علمِ نباتات کی تعلیم کا مقصد؟ ارے بھئی غلاموں کو پیٹ تو بہرحال بھرنا ہے۔ وہ خود اپنا پیٹ نہیں بھریں گے تو آقائوں کو مسٹنڈوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ چنانچہ نباتات انہیں پڑھا دیا گیا تو وہ پھر کم از کم اپنا پیٹ بھرنے کے لائق رہیں گے، اور کچھ نہیں تو زراعت وغیرہ انہیں آجائے گی۔ آپ اُگائیں گے آپ کھائیں گے۔ مگر یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔
اقبال نے ایک مصرع میں فنون اور علوم کے تصور کو یکجا کردیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ موسیقی، گلوکاری، اداکاری اور مصوری فنون کے دائرے میں آتے ہیں۔ اب اگر غلاموں کو صرف فنون سکھائے جائیں تو وہ کہیں گے کہ اچھا تو ہمارے ساتھ یہ ہورہا ہے! چنانچہ انہیں ایک دو علوم بھی پڑھانے ہوں گے تاکہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی تعلیم میں ایک توازن ہے۔ ہم نظری علوم بھی پڑھ رہے ہیں اور اطلاقی علوم بھی۔ لیکن ان تمام چیزوں کا علم اصطلاح میں Passive knowledge ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے، مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید کو ’’آکاش وانی‘‘ ہوگئی کہ تلوار سے جہاد کا زمانہ گزر گیا اور اب قلم سے جہاد کا دور ہے۔ جو بات بارہ سو سال میں کسی کو نہیں سوجھی وہ بھلا مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید کو کیسے سوجھی! اصل بات یہ تھی کہ غلاموں کو عسکری علم سیکھنے کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟ یہ تو آزاد لوگوں کی ضرورت ہے آقائوں کی جانب سے۔ اور اگر آپ آزاد ہیں اور آقا نہیں اور پھر بھی عسکری علوم سیکھ رہے ہیں تو پھر آپ یقیناً سماج دشمن عناصر ہیں، باغی اور دہشت گرد ہیں۔
آپ دیکھ رہے ہیں نا 11 ستمبر کے بعد ایک بار پھر جہاد کے حوالے سے غلام احمد قادیانی اور سرسید کے افکار کا احیاء ہورہا ہے۔ غامدیانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ ہمیں بتا رہے ہیں کہ جہاد کی’’صحیح‘‘ تعبیرات اور شرائط کیا ہیں۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ 11 ستمبر سے پہلے ہم اپنے کالجوں میں طلبہ و طالبات کو مزاحیہ حد تک معمولی این سی سی کی تربیت فراہم کرتے تھے، ہمارے حکمرانوں نے اسے بھی بند کردیا۔ اس فیصلے میں جتنی حب الوطنی اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ حالات یہی رہے تو ہمارے Kacool میں صرف Cool باقی رہ جائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے دفاعی بجٹ کی جگہ بسنتی بجٹ اور نباتاتی بجٹ کا تصور ابھرے گا۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں نباتاتی بجٹ کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ہوگا یا نہیں، اس لیے کہ کارپوریٹ زراعت کا زمانہ ہے اور جنرل پرویز وفاقی کابینہ سے اس سلسلے میں اصولی منظوری لے چکے تھے۔ چنانچہ ہماری زراعت بھی ہمارے ہاتھ میں رہے گی اور اس پر ملٹی نیشنلائزڈ کا قبضہ نہیں ہوجائے گا‘ اس بارے میں یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ تو کیا ہمیں موسیقی و صورت گری پر اکتفا کرنا پڑے گا؟ لیکن غلاموں کی تو رقص و موسیقی اور صورت گری بھی غلامانہ ہوتی ہے۔ بھلا کالے پانی میں کسی کو کیا راگ سوجھے گا! گوانتا ناموبے میں کوئی کیا رقص کرے گا؟ اور ابوغُریب میں کوئی کیا Painting بنائے گا؟
ہماری مذہبیات اور مدارس سے مغرب کو صرف یہ تکلیف نہیں رہی کہ یہاں سے جہاد کی تعلیم ملتی ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب پورے تصورِ زندگی اور اس کی کلیّت کو ہمارے سامنے لاتا ہے جس سے موسیقی و صورت گری و علم نباتات کا بے ہودہ تصور مضحکہ خیز بن جاتا ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنت کی سائنس اور مخلوط میراتھن کی ٹیکنالوجی کس تیزی سے ایجاد کی گئی ہے اور کس تیزی سے اسے فروغ حاصل ہوا ہے۔ اداکار اور کھلاڑی تو خیر بہت عرصے سے ہمارے قومی ہیرو بنے ہوئے ہیں اور اب ٹھیک ’’وقت‘‘ پر ہیجڑوں اور طوائفوں کی امیج سازی شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے ٹی وی کی اسکرین رفتہ رفتہ ان کے کرداروں سے بھرنے لگی ہے۔ ڈراموں، فلموں اور ٹاک شوز میں ان کے جلوے نظر آرہے ہیں۔ اور کیوں نہ آئیں، آخر وہ بھی ’’قوم‘‘ کا حصہ ہیں۔ بات اقبال سے شروع ہوئی تھی تو اقبال ہی پر ختم ہونی چاہیے۔ فرماتے ہیں:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان
غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ان اشعار کی ایسی پیروڈی ذہن میں آرہی ہے کہ خدا کی پناہ۔