اسرائیل غیر محفوظ ہوچکا ہے؟

طویل جنگ سے تنگ آکر اسرائیلی عوام بڑی تیزی سے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں

اکتوبر 2023ء سے اکتوبر 2024ء تک دنیا میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔ مشرقِ وسطیٰ اب عالمی امن کے لیے فلیش پوائنٹ بن چکا ہے کہ جہاں جاری اسرائیلی سفاکی نے چنگیز و ہلاکو کو بھی شاید پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس اور لبنان میں مزاحمتی گروپ حزب اللہ کے قائدین کو اسرائیل نے قتل کردیا، اس کے باوجود صورتِ حال اسرائیل کے قابو سے باہر ہے، جس کا اعتراف اب برسرِعام اسرائیلی میڈیا کررہا ہے۔ اسرائیل کا صفِ اوّل کا اخبار دی یروشلم پوسٹ اپنی 14 اکتوبر 2024ء کی اشاعت میں اعتراف کرتا ہے اور اس خبر کو صفحہ اوّل کی شہ سرخی بناتا ہے کہ صرف ایک دن میں حزب اللہ کے حملوں میں 67 اسرائیلی فوجی زخمی ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے فوجی بیس پر ڈرون کی مدد سے حملہ کیا جس میں ڈرون نے تباہی مچادی اور فوجی بیس میں موجود 67 فوجی زخمی ہوئے جن میں سے کئی فوجیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ تاہم متبادل میڈیا ذرائع اس حملے میں ہلاکتوں کی تصدیق کررہے ہیں۔ ڈرون نے نہ صرف آئرن ڈوم کو ناکارہ بنایا بلکہ ہدف پر حملہ کرکے اسرائیل کے ٹیکنالوجی کے دعووں کی دوبارہ قلعی کھول دی۔ اس سے قبل اسرائیل مبینہ طور پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو قتل کرکے خطے میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بہت حد تک نہ صرف بحال کرچکا تھا بلکہ اس نے ٹیکنالوجی میں اپنی برتری، اور ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کو اسمارٹ آپریشن کا نام بھی دیا تھا۔ تاہم ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائلوں کے آئرن ڈوم کے باوجود موساد کے ہیڈ کوارٹر کے قریب پہنچنے نے اسرائیل میں شدید خطرے کے الارم بجا دیے ہیں کہ جس کو اسرائیل کی اسٹیبلشمنٹ بخوبی محسوس کررہی ہے۔ اب دوبارہ آئرن ڈوم کو ناکارہ بناکر اسرائیل کے فوجی بیس پر حملہ اس بات کا مظہر ہے کہ اسرائیل خود اپنی سرحدوں میں انتہائی غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اس حملے کی شدت اس قدر تھی کہ اسرائیلی میڈیا بھی اس ناکامی پر چیخ پڑا، اور خود اسرائیلی آرمی چیف کہ جس کی ہلاکت کی اطلاع اس حملے کے بعد میڈیا کی جانب سے دی گئی تھی، کو خود سامنے آکر اس بات کی وضاحت دینا پڑی کہ وہ زندہ ہے، اور اس نے فوجیوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ آئرن ڈوم یعنی کسی حملے کو ناکام بنانے کے خودکار نظام میں خرابی کو دور کرلیا گیا ہے۔ تاہم پے در پے اسرائیل میں میزائلوں کا پہنچنا اور اب فوجی چھاؤنیوں تک ان میزائلوں و ڈرونز کا کامیاب حملے کرنا اسرائیلی عوام اور فوج کے حوصلوں کو پست کرنے کا باعث بن رہا ہے، اور گزشتہ ایک سال کے عرصے میں غزہ میں بدترین انسانی نسل کُشی کے باوجود نسل کُشی کرنے والے کس بدترین صورتِ حال کا شکار ہیں اس کا اندازہ صرف ایک رپورٹ سے کیا جاسکتا ہے جوکہ اسرائیلی باشندوں کے ملک چھوڑ جانے کے بارے میں ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس طویل جنگ سے تنگ آکر اسرائیلی عوام بڑی تیزی سے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں اسرائیل سے نہ صرف افرادی قوت بلکہ پیسے، تعلیم اور پروفیشنل اسکلز کا بھی انخلا ہورہا ہے۔ یہ ہجرت صرف اُن علاقوں سے نہیں ہورہی جوکہ بارڈر کے قریب اور نسبتاً غیر محفوظ ہیں، بلکہ اُن علاقوں سے بھی یکساں طور پر ہے جوکہ بارڈر سے دور اور قدرے محفوظ ہیں۔ سال 2024ء کے پہلے سات ماہ کے دوران 40600 افراد اسرائیل چھوڑ گئے جوکہ ایک ماہ میں اسرائیل چھوڑ جانے والوں کی اوسط 2200 فی ماہ سالِ گزشتہ سے زیادہ ہے۔ اسرائیل کے سینٹرل بیورو برائے شماریات کے مطابق اسرائیل سے ہجرت کرجانے والوں کی تعداد سالِ گزشتہ 2023ء کے سات ماہ سے 59 فیصد زیادہ ہے، جس میں سب سے زیادہ تعداد اُن نوجوانوں کی ہے جن کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان ہے، ان کی شرح 40 فیصد رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوجوان نسل کا اسرائیل سے انخلا نہ صرف اسرائیل میں آبادی میں کمی بلکہ کام کرنے کی عمر والی افرادی قوت میں بھی شدید کمی کا باعث بنے گا۔

اس ضمن میں ایک اور رپورٹ بھی قابلِ ذکر ہے اور اسرائیل کی فوجی و سماجی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ جنگ کس طرح اسرائیل کے قومی اعصاب و نفسیات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ They left a Partner Behind نامی تنظیم جوکہ اسرائیل میں اکیلے رہ جانے والے افراد کے لیے کام کررہی ہے، اس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل میں اکیلے رہ جانے والے افراد یعنی جنگ میں کسی ایک مرد یا عورت کی ہلاکت کے بعد رہ جانے والوں کی تعداد میں گزشتہ سال اکتوبر کے بعد بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سال کے عرصے میں 307 نئے افراد اس تنظیم میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ تنظیم گزشتہ 27 سال سے کام کررہی ہے اور اس کا بنیادی مقصد کسی فرد کی موت کے بعد تنہا رہ جانے والوں کو نفسیاتی و ذہنی صحت کے حوالے سے تعاون فراہم کرنا ہے۔ اس تنظیم کے قیام کے بعد سے ہر سال 12 افراد اوسطاً اس تنظیم میں شامل ہوتے ہیں لیکن اِس سال میں اس میں تین سو سے زائد افراد کا اضافہ نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ اسرائیل میں جانی نقصان کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ تنظیم کی سروے رپورٹ کے مطابق دس میں سے نو یعنی نوّے فیصد افراد نے کہا ہے کہ ان کو اس صدمے سے باہر آنے کے لیے نفسیاتی معالجے کی ضرورت ہے۔ 67 فیصد نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کو اُن کے اس جنگ میں مر جانے والے پارٹنر کے لیے سرکاری طور پر اطلاع دینی چاہیے۔

اس تنظیم کی رپورٹ اور اسرائیل سے آبادی کی ہجرت کی رپورٹس کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ 77 سال سے جنگ میں گھرے ہوئے اہلِ فلسطین نے نہ تو کبھی ہجرت کو ترجیح دی اور نہ ہی بدترین مظالم و انسانیت سوز تشدد و نسل کُشی کے بعد انہوں نے کسی نفسیاتی معالج کے لیے آہیں بلند کیں۔ انہوں نے پورے پورے خاندانوں کو ایک ہی جنازے میں سپردِ خاک کردیا اور پھر بھی زبان پر الحمدللہ کے سوا کوئی کلمہ نہیں۔ دنیا کے بہترین وسائل، جنگی ساز و سامان، آسائش و ٹیکنالوجی رکھنے والے کم ترین سطح پر موجود افراد کے مقابلے پر ہر محاذ پر مات کھا رہے ہیں چاہے وہ عسکری محاذ ہو یا نفسیاتی و سماجی محاذ… بے سر و سامان اہلِ فلسطین اپنی بے مثال عزیمت سے جنگی جنون میں مبتلا اسرائیل کو خود اندر سے کھو کھلا کررہے ہیں۔ اس عظیم الشان طاقت، بین الاقوامی سپورٹ، اور ٹیکنالوجی کے باوجود بھی اگر کسی ملک کے عوام کا اعتماد اس ریاست پر سے اٹھ رہا ہے اور وہ تیزی سے ہجرت کررہے ہیں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اہلِ فلسطین یہ معرکہ جیت چکے ہیں۔ شاید اس کا باضابطہ اعلان کچھ تاخیر سے ہو لیکن اب یہ ایک نوشتہ دیوار ہے، کیونکہ اعصاب کی جنگ ہارنے والی قوم کبھی کوئی جنگ نہیں جیت سکتی، اور اعصاب کی اس جنگ میں اہلِ فلسطین ہی فاتح ہیں۔