اسلام آباد:شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس

پی ڈی ایم ٹو کی حکومت قائم ہوئے سات ماہ ہوچکے ہیں، اور اس دوران ملک میں یا سفارتی محاذ پر بیرونِ ملک کوئی قابلِ ذکر اچھی خبر اس حکومت کے کریڈٹ پر موجود نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی وفاق میں یہ چوتھی حکومت ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو جب بھی وفاق میں اقتدار ملا، کام کرنے کی صلاحیت رکھنے اور پروگریسو ہونے کے باوجود ہر بار یہ ملک کو ایک نئے بحران میں چھوڑ کرگئی ہے۔ نوازشریف ایک مکمل کنٹرول کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ہر حکومت کو کلے سے باندھ کر رکھنا چاہتی ہے، اس لیے مسلم لیگ(ن) نوازشریف کے ذریعے اسٹیبلشنٹ کے ساتھ نباہ نہیں کرسکی۔ اب مسلم لیگ(ن) وفاق میں شہبازشریف کو میدان میں اتارکر ایک نئے تجربے سے گزر رہی ہے، یہ تجربہ ’’یک طرفہ محبت‘‘ کے باعث اب تک کامیاب نظر آتا ہے، تاہم حقائق بہت تلخ ہیں۔ مسلم لیگ(ن) چار بار وفاق میں حکومت میں رہی ہے، لیکن یہ وزیر خزانہ کے معاملے میں بانجھ ثابت ہوئی ہے کہ ملک کو قابل وزیر خزانہ نہیں دے سکی، اور یہی وجہ ہے کہ قومی معیشت آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکی۔ سرتاج عزیز اور اسحاق ڈار کے بعد وزیر خزانہ اورنگ زیب بھی معیشت کی سمت درست نہیں کرسکے، بہتری کی باتیں محض گپ شپ ہیں، ملک پر قرض بڑھ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں دو اہم واقعات ہوئے، سعودی عرب کے ساتھ 2 ارب ڈالر مالیت کے 27 معاہدے ہوئے ہیں اور شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس ہوئی ہے۔ عالمی سطح کی کانفرنس کہیں بھی ہو، اگر پاکستان اور بھارت اس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں تو دونوں میں کشمیر پر لازمی بات چیت ہوتی ہے۔ اِس بار اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہوا، اور بھارت کے وزیر خارجہ شریک ہوئے، لیکن بھارت کے وزیر خارجہ کی اس تنظیم میں شرکت کے علاوہ سائڈ لائن کوئی مصروفیت نہیں رہی، اور نہ ان سے کشمیر پر ہماری باضابطہ بات چیت ہوئی، وزارتِ خارجہ نے بھی بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ سائڈ لائن ملاقات کی کوئی سفارتی کوشش نہیں کی۔ 5 اگست2019ء کے واقعے کے بعد بھارت مقبوضہ کشمیر میں عالمی قوانین اور سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قرارداد کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے، مگر ہماری وزارتِ امورِ خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، حکومت پوری طرح واک اوور پر رہی اور کشمیر سے لاتعلق رویہ اختیار کیے رکھا۔ اس وقت بھارت اپنی تاریخ کی بدترین سفارتی تنہائی سے گزر رہا ہے، وہ بنگلہ دیش، مالدیپ، سری لنکا، نیپال، حتیٰ کہ قطر سے بے دخل اور کینیڈا میں بے نقاب ہوچکا ہے، مقبوضہ کشمیر میں اسے شکست ہوئی ہے۔ مودی ماضی کے مقابلے میں آج بھارت میں سیاسی شکست کھاکر کمزور وکٹ پر ہے، اس کی گردن سے سریا نکل چکا ہے، وہ اس لیے ہی شنگھائی کانفرنس میں آیا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا ہوا ہے اور ہم اس کے باوجود اُس کے ساتھ کشمیر پر پانچ اگست کے فیصلے کی واپسی کے لیے بات چیت سے گریزاں ہیں۔ اپنی اس کمزوری کے باوجود حکومت بغلیں بجا رہی ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا کریڈٹ لے رہی ہے۔ ایک بات اور اہم ہے کہ اس تنظیم کا حریف گروپ ’’آسیان‘‘ ہے جس کی سرپرستی امریکہ کررہا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ شنگھائی تعاون تنظیم زیادہ پھلے پھولے۔ بھارت آسیان کی طرف دیکھ رہا ہے، اُس کا جھکائو اسی کی طرف ہے۔

وفاق میں حکومت کوئی بھی ہوتی، وہ ضرور شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا کریڈٹ لیتی، البتہ کچھ اعتراضات ایسے بھی ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔ کیا پاکستانی میڈیا کی کانفرنس تک رسائی محدود کرکے حکومت اس کی بہترین تشہیر کر پائی ہے؟ اس حکومت کو اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کی عادت سی ہوگئی ہے، اور اسی لیے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کے بجائے یہ بیوروکریسی پر بہت زیادہ انحصار کررہی ہے، جبکہ بیوروکریسی کسی کی نہیںہوتی، یہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والی مخلوق ہے، لہٰذا یہ کام حکومت کا ہوتا ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی بڑی سرگرمی ہو، اور خاص طور پر جب اس سرگرمی کا تعلق بیرونِ ملک اثرات سے بھی ہو تو بہترین نتائج کے لیے اسے لگام اپنے ہاتھ میں رکھنی ہوتی ہے، حکومت اس محاذ پر کمزور اور بلاشبہ ناکام ثابت ہوئی ہے، اور اس کانفرنس کے منتظمین کی صلاحیتوں سے متعلق ملکی میڈیا میں صرف ایک سطر کی خبر ہی حکومت کی چولیں ہلا سکتی ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کوئی حکومت مقامی میڈیا کو تحفظات کا شکار کرکے ملک کے اندر اور بیرونِ ملک اپنا اچھا تاثر پیدا نہیں کرسکتی۔ وزارتِ امورِ خارجہ صرف اس بات کا جواب دے کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی عالمی کانفرنس جس میں پاکستان اور بھارت بھی شریک ہوں، اور پاکستان نے اس کانفرنس میں کشمیر پر بات نہ کی ہو؟ بھارتی وزیر خارجہ سے کشمیر پر بات نہ کرکے ایسا معلوم ہورہا ہے اور یہ تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے کہ حکومت کشمیر پر بھارت کے پانچ اگست کے فیصلے کو تسلیم کرچکی ہے۔ پاکستان نے 2024ء کے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی ہے، بلاشبہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا 23واں دو روزہ سربراہی اجلاس اگرچہ خطے اور پورے کرۂ ارض کے لیے اس اعتبار سے اہم ہے کہ جب دنیا کی کُل آبادی کے 40 فیصد حصے اور 34 ٹریلین جی ڈی پی کے حامل ممالک کی قیادتیں یکجا ہوتی ہیں تو وہ یقینی طور پر ایسی تجاویز، سفارشات اور ورکنگ پیپرز سے لیس ہوکر آتی ہیں جن پر غور و فکر اور اتفاق سے متعلقہ ملکوں، خطے اور دنیا میں بہتری و ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ پاکستان میں عرصے بعد 15اور 16اکتوبر 2024ء کو منعقد ہونے والے اس ایونٹ کی میزبانی کئی جہتوں سے اسلام آباد کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس فورم کی تخلیق کے ابتدائی دو بڑے مقاصد تھے:

(1) علاقائی سطح کے مسائل خود حل کرنا۔

(2) دہشت گردی اور دہشت گردوں کا مل کر خاتمہ کرنا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے تنظیم کے عزائم میں ممبر ملکوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا بھی شامل ہے۔

11ستمبر 2024ء کو اس باب میں ایس سی او کے اکنامک اور ٹریڈ وزرا کی ایک ابتدائی نشست بھی ہوئی۔ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم ’’سارک‘‘ کے مقاصد میں بھی علاقائی ملکوں کی معیشت بہتر بنانے کے عزائم شامل تھے تاہم سارک کے بوجوہ متحرک نہ ہوسکنے کے باعث اس باب میں قابل ذکر پیش رفت ممکن نہ ہوسکی۔ چینی وزیراعظم کے دورے کے موقع پر نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی سافٹ لانچنگ متوقع ہے جبکہ کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور آزاد پتن ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے متعلق پیش رفت کا بھی امکان ہے۔ گوادر کول پاور پلانٹ سے متعلق بھی حکومت فنانشل کلوز معاہدے کی خواہاں ہے، لیکن اس کانفرنس کی دوسری کامیابیوں کے مقابلے میں کشمیر پر بات چیت نہ ہونا ایک بڑی ناکامی ہے۔ پاکستان جس خطے میں موجود ہے وہ آج افغانستان، اور اسرائیل کی وجہ سے ایران پر دبائو کے باعث آتش فشاں کے دہانے پر ہے، جو کسی بھی وقت لاوا اُگل سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے تھی کہ ہم اپنے اس خطے میں پائے جانے والے اُن تمام مسائل پر بات کرتے جن کے ساتھ ہمارے معاملات براہِ راست اور بالواسطہ جڑے ہوئے ہیں۔ شہبازشریف حکومت نے ایک منفرد موقع کھو دیا ہے۔ پاکستان کو اپنی سفارتی حیثیت کو ازسرِنو متعین کرنے اور اپنی جغرافیائی اور سفارتی حیثیت کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے فوری چیلنجز میں سے ایک چیلنج افغانستان ہے جہاں امریکی انخلاء کے بعد صورتِ حال اس خطے کے لیے نیک شگونی کا باعث نہیں ہے۔ پاکستان کو مشکل سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے، سرحد پار دہشت گردی کا مسئلہ غیر معمولی حد تک بڑھ رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی میزبانی نے پاکستان کو ان خدشات سے نمٹنے کے لیے درکار کثیرالجہتی موقع فراہم کیا تھا، حکومت نے افغانستان کے معاملے پر خاموشی اختیار کرکے یہ موقع کھو دیا ہے۔ مشرقی محاذ پر بھارت کے ساتھ تعلقات طویل عرصے سے دشمنی کی لپیٹ میں ہیں، خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر۔ ہندوستانی وزیر خارجہ جے شنکر جسمانی طور پر سربراہی اجلاس میں شریک ہوئے ہیں، اگرچہ پاک بھارت معاملہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تاہم سربراہی اجلاس نے پاکستان کو پُرامن حل اور کشیدگی میں کمی کی وکالت کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ پاکستان تنازع کشمیر کو اجاگر کرے جو نہ صرف دوطرفہ ہے، بلکہ علاقائی سلامتی کے مضمرات کا حامل ہے، جس کے لیے وسیع تر بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے۔ ممکنہ طور پر کثیرالجہتی سفارت کاری کے ذریعے کشیدگی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات سے ہٹ کر، ایس سی او سربراہی اجلاس پاکستان کو اپنی وسیع خارجہ پالیسی کو دوبارہ ترتیب دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا مشرق کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان زیادہ متوازن خارجہ پالیسی کی طرف بڑھتے ہوئے، چین اور روس جیسے SCO پاور ہاؤسز کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کر سکتا ہے۔ چین چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) میں پاکستان کا پارٹنر ہے، وہ بلاشبہ پاکستان کی اقتصادی اور سیکیورٹی حکمت عملیوں میں کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا۔ جنوبی ایشیا میں روس کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مسلسل جائزہ لینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر پاکستان، روس ایل این جی پائپ لائن معاہدے کے حالیہ مذاکرات کے تناظر میں۔ اس طرح کی شراکتیں پاکستان کی توانائی کی سلامتی کے لیے گیم بدل سکتی ہیں، خاص طور پر جب یہ اقتصادی بحالی کے راستے پر ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اہم رکن ایران کے ساتھ پاکستان کی مصروفیت ایک اور راستہ ہے جہاں سے ملک اپنی خارجہ پالیسی کو تقویت دے سکتا ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے پاکستان کے پاس مسلم امہ کی حمایت حاصل کرنے کا موقع ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کے حوالے سے، بہتر یہی تھا کہ ایک فعال مؤقف اس کانفرنس میں پیش کیا جاتا۔ لیکن حکومت اس میں ناکام نظر آئی ہے۔ یہ کانفرنس علاقائی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور اثرات سمیٹنے کا موقع تھا، لیکن حکومت نے ملک میں مقامی میڈیا کو نظرانداز کرکے اور اپوزیشن کے ساتھ بے مقصد محاذ آرائی کرکے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔