شہدا کے خون سے یہ بے وفائی کیوں؟

پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی کوریج کے لیے آئی ہوئی بھارتی خاتون صحافی برکھادت نے وزیراعظم محمد شہبازشریف کے برادرِ بزرگ، مسلم لیگ (ن) کے صدر، سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی، وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز سے لاہور میں ملاقات کی۔ میاں نوازشریف نے بھارتی صحافی خاتون سے اس خصوصی ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا استقبال کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ہم دوریوں کو کم کرنے کے لیے مل بیٹھنے کا کوئی موقع حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، میں ہمیشہ بھارت کے ساتھ بہتر اور خوشگوار تعلقات کا حامی رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کا یہ اچھا موقع ہے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا، اگر وزیراعظم نریندر مودی خود شنگھائی تعاون کے اجلاس میں شرکت کرتے۔‘‘ تین بار کے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی اس گفتگو کا ایک ایک لفظ صداقت اور اخلاص پر مبنی ہے اور وطنِ عزیز کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اپنی 1997ء کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں انہوں نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کو پاکستان مدعو کیا، خود واہگہ کی سرحد پر ان کا شاندار استقبال کیا اور ہر قیمت پر بھارت سے دوستی کا عزم کیا۔ اس دوستی کو پاکستان کے مفاد کے منافی قرار دینے والوں پر انہوں نے اس قدر تشدد کیا کہ شیطان بھی کانوں کو ہاتھ لگانے لگا۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخری دور میں بھی انہوں نے گجرات کے قصاب، عالمی دہشت گرد، بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو جس نے ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر ببانگِ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ میں پاکستان توڑنے کا مجرم ہوں، جس پر مجھے فخر ہے… میاں صاحب نے اسی نریندر مودی اور اس کے بھاری بھرکم وفد کا ویزوں اور دیگر سرحدی و سفارتی ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی ذاتی جاگیر جاتی عمرہ رائے ونڈ میں اپنی نواسی اور مریم نواز کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب میں استقبال کرکے پورے ملک کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اس لیے اب اگر وہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر غاصبانہ قابض بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں تو کسی کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
دوسری جانب نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اگر بھارت چاہے گا تو اس سے تجارت پر بات چیت کریں گے۔ جناب ڈار صاحب شاید بھول گئے کہ بھارت سے تجارت پاکستان نے خود بند کرنے کا اعلان کیا تھا، سبب جس کا یہ تھا کہ بھارت نے کشمیر سے متعلق اپنے آئین کی اہم ترین دفعہ 370 اور 35 الف ختم کرکے کشمیر کے مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کردیا تھا جو کشمیری مسلمانوں اور پاکستان کے لیے قطعی ناقابلِ قبول صورتِ حال تھی، چنانچہ پاکستان نے دیگر کئی اقدامات کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ تجارت ختم کرنے اور اُس وقت تک بحال نہ کرنے کا اعلان کیا تھا جب تک بھارت کشمیر کی سابق حیثیت بحال نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا جوہری تبدیلی واقع ہوگئی ہے کہ کوئی اور نہیں پاکستان کے وزیر خارجہ بھارت سے تجارت کی بحالی کے لیے بے تابی کا مظاہرہ کررہے ہیں، جب کہ ابھی چند ہفتے پیشتر ہی وزیراعظم محمد شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے ساتھ ہی کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی ایک جھلک بھی عالمی برادری کو دکھائی تھی۔ وزیراعظم اور نائب وزیراعظم کے طرزعمل میں اس قدر بعدالمشرقین کیوں ہے؟
بھارت نے یہ تازہ پیش رفت مقبوضہ کشمیر میں ضرور کی ہے کہ سات لاکھ سے زائد فوج کی سنگینوں کے سائے میں صوبائی انتخابات کا ڈھونگ رچایا ہے، اور یہ کام اس ماحول میں تکمیل کو پہنچا ہے کہ تین سو سے زائد حریت قائدین جیلوں میں صعوبتیں جھیل رہے ہیں جب کہ ہزاروں نوجوان گھروں سے اٹھاکر صعوبت خانوں کی زینت بنائے جا چکے ہیں، لاکھوں بچے یتیم اور ہزاروں عورتیں بیوہ ہوچکی ہیں۔ اس سب کے باوجود کشمیر کے عوام بھارتی تسلط قبول کرنے پر تیار نہیں، چنانچہ انہوں نے موجودہ انتخابی ڈھونگ کو بھی مسترد کردیا ہے اور کُل جماعتی حریت کانفرنس نے اس ضمن میں اپنے اعلامیے میں واضح کیا ہے کہ انتخابات کا ڈھونگ کسی بھی صورت حقِ خودارادیت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا، اس لیے کانفرنس اسے کلی طور پر مسترد کرتی ہے۔ چھ برس کے صدارتی راج کے بعد بھی سنگینوں کے سائے میں مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا جو کھیل رچایا گیا ہے کشمیری عوام نے ہمیشہ کی طرح اسے قبول نہیں کیا، جب کہ اس انتخابی ناٹک کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اُن کے مطابق بھی وزیراعظم نریندر مودی کو ذلت سے بھرپور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب کہ شیخ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے جو کامیابی حاصل کی ہے اور جس کے کانگریس کے ساتھ مل کر ریاست میں حکومت بنانے کے امکانات نمایاں ہیں، اس نے بھی انتخابات کے دوران عوام سے اس وعدے پر ووٹ حاصل کیے ہیں کہ کامیاب ہوکر مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 الف بحال کرائے گی۔ اگرچہ اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے انتخابی کامیابی کے بعد عمر عبداللہ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے جس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں انہوں نے یہی دعویٰ کیا ہے کہ میں نے مودی جی سے کشمیر کی سابق ریاستی حیثیت اور آئین کی دفعات 370 اور 35 الف بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عمر عبداللہ کا مطالبہ اور دعویٰ اپنی جگہ، حقیقت مگر یہی ہے کہ ان دفعات کی بحالی اب اس قدر آسان نہیں کہ ملاقاتوں اور مطالبات سے یہ کام ہوجائے۔ مقبوضہ کشمیر کی یہ صورتِ حال اور حقائق تو ایک طرف، مگر اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران کشمیر کے معاملے کو طاقِ نسیاں پہ رکھ کے بھارت سے تعلقات اور دوستی کے لیے بے تاب کیوں ہیں؟ کیا یہ وطنِ عزیز کی شہ رگ کے لیے جانیں دینے والے ہزاروں شہدا کے خون سے بے وفائی اور غداری نہیں؟
(حامد ریاض ڈوگر)