آج کا کالم شروع کرنے سے پہلے ذرا پچھلے کالم کا پیچھا کرلیا جائے۔ کراچی سے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن حفظہ اللہ نے ایک مفصل خط ارسال فرمایا ہے ۔ مختصر اقتباس ملاحظہ ہو: ’’معنی کی اصل ’ع ن ی‘ ہیں۔ ’عَنٰی یَعْنِیْ عَنْیاً اور عِنَایَۃً ، اس سے اسمِ فاعل ’عَانٍ‘اور اسمِ مفعول ’مَعْنُوْیٌ‘ بنتا ہے اور پھر یہ لفظ تعلیل کے بعد’مَعْنًی‘اور ’مَعْنٰی‘ بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی ہیں مراد لیا ہوا، مقصود اور کلمے کا مدلول‘‘۔
لندن سے محترم رضوان احمد فلاحی (فرزندِ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ) رقم طراز ہیں: ’’اُردو اور عربی مجلات دائیں سے بائیں کھولے اور پڑھے جاتے ہیں لیکن ابونثرؔ صاحب نے مجھے بائیں سے کھولنے اور پڑھنے کا عادی بنادیا ہے۔ معنی کے معنی پڑھتے وقت نگاہ اس پر پڑی کہ ’اعتنا‘ اور ’عنایت‘ کا خاندانی شجرہ ’عن‘ سے جا ملتا ہے۔ اردوکی حد تک ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ تاہم عربی کا معاملہ مختلف ہے۔ ’عن‘ حرفِ جار ہے اور محض دو حرفی لفظ ہے، اس کے بالمقابل ’اعتنا‘ اور ’عنایت‘ دونوں اسم ہیں اور ان کے حروفِ مادّہ ہیں ’ع،ن،ی‘۔ ان سے الفاظ’یعنی، معنی، اعتناء اورعنایت‘ وجود میںآئے ہیں۔ جب کہ ان کا حرفِ جار’عن‘ سے کوئی خاندانی رشتہ نہیں ہے‘‘۔
سعودی عرب کے مجلے’’اُردو نیوز‘‘ میں، لسانی تحقیق پر مبنی، وقیع مضامین تحریر کرنے والے جناب عبدالخالق ہمدردؔ نے بھی کالم نگار کی کم علمی سے ہمدردی فرمائی: ’’ماشاء اللہ آپ نے لکھا اور حسب معمول خوب لکھا لیکن ایک مسئلہ تھوڑا مشکل ہے، وہ یہ کہ آپ نے سارے کالم کی عمارت ’عن‘ کے اوپر کھڑی کردی ہے، جب کہ یہ بات درست نہیں، کیوں کہ عن حرف جر ہے اور حرف سے اشتقاق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس سے نئے الفاظ نہیں بن سکتے کیوں کہ حرف کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ کلمہ جو اپنے معنی بیان کرنے میں کسی اور لفظ کا محتاج ہو۔ اصل میں ’معنی‘ عربی کے فعل ’ع ن ی‘ سے مشتق اور مفعول کا صیغہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر ’معنوی‘ بروزن مفعول تھا اور عربی صَرف کے اصول کے مطابق تعلیل کے بعد معنی ہوگیا اور اس میں ’ی‘ مشدد ہے جو واو کے ادغام کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے امید ہے کہ آپ اس پر دوبارہ غور فرمائیں گے تاکہ معنی کے معنی کو صحیح اور درست انداز میں اپنے سائل اور قاری تک پہنچا سکیں۔ اگر عنّ بمعنی ظاہر ہونے سے لیں تو اس میں نون مشدّد ہے اور اس سے اسم مفعول معنون آئے گا، معنی نہیں آ سکتا۔ واللہ اعلم‘‘۔
محترم مفتی منیب الرحمٰن، جناب رضوان احمد فلاحی اورجناب عبدالخالق ہمدردؔکی اس توجہ فرمائی اور ’توجہ دلائی‘ پر ہم تہِ دل سے شکر گزار ہیں اورشُکرِ پروردگارکرتے ہیں کہ خاکسار پر دنیا بھر کے اہلِ علم کی نظر ہے۔ سہو، تسامح یا خطا ہوجائے توفوراً اصلاح ہوجاتی ہے۔ خطا بھی تزکیۂ نفس کا ایک ذریعہ ہے۔ خطا نہ ہو تو دل میں تکبر کا خناس بھر جاتا ہے۔ ہم اپنے شہر اسلام آباد بلکہ اپنے محلے ’اسلام آباد ہومز‘ کے جناب عارف قریشی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی یہی تعلیم فرمائی کہ ’معنی‘ عن سے نہیں ’ع ن ی‘ سے مشتق ہے۔ ہم نے اصلاح کرلی۔ سائل اور قارئین بھی اپنی اپنی اصلاح فرما لیں۔ باقی تسلی رکھیے کہ معنی کے معنی وہی ہیں جو گزشتہ کالم میں بیان کیے گئے ہیں۔ ایک توجہ گرامی قدر سید ایاز محمود صاحب نے بھی دلائی ہے کہ اُردو میں معنی، معنیٰ اور معنے تین تلفظ رائج ہیں، یعنی ’مانی، مانا اور مانے‘۔ جو نہ مانے وہ کافر۔ معاف کیجیے گا، ہمارے برصغیر میں ’کافرسازی‘ کی صنعت زوروں پر ہے۔ شہر در شہر ایسے صنعتی ادارے موجود ہیں جو اپنے اپنے فرقے کے ’کافر ساز‘ مفتی تیار کرتے ہیں۔ تیار ہولینے کے بعد نئے مفتیانِ کرام اپنا کاروباری ادارہ الگ کرلیتے ہیں ۔ بقولِ شاعر:
مفتیانِ کرام کو دنیا شمس و ماہ و نجوم کہتی ہے
جس دُکاں پر یہ مال بِکتا ہے، اُس کو دارالعلوم کہتی ہے
واضح رہے کہ ہم علمائے حق کی نہیں، اُن ’علمائے ناحق‘ کی بات کررہے ہیں جو خاتم النبیینؐ کے اُمتیوں پر کفر کے فتوے لگانے میں خاصے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ فتویٰ لکھنے کے آداب میں شامل ہے کہ فتوے کے آخر میں احتیاطاً ’واللہ اعلم بالصواب‘ لکھا جائے، جس کے معنی ہیں’’ اللہ ہی بہتر جانتا ہے درست کیا ہے‘‘۔ ایک بار ایک فرقے کے مفتی صاحب نے مخالف فرقے کے مفتی جی کے خلاف کفر کا فتویٰ داغتے ہوئے لکھا: ’’… اورجو اُسے کافر نہ مانے وہ بھی کافر، جو اُس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘۔
اِس پر ایک نکتہ داں نکتہ چیں نے یہ نکتہ نکالا کہ فتوے کی رُو سے فتویٰ دینے والا خود بھی کافر ہوگیا ہے، کیوں کہ فتوے کے آخر میں ’واللہ اعلم بالصواب‘ لکھ کر وہ اپنے شک کا کھلم کھلا اظہار کربیٹھا ہے۔ شکر ہے کہ جناب عبدالخالق ہمدردؔ نے محض ’واللہ اعلم‘ لکھنے پر اکتفا کیاہے۔
’عن‘کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے نیچے سے عن نکل بھاگا اور اپنی جگہ ’عنی‘ کو کھڑا کر گیا توآئیے ذرا لپک کر ’عن‘ کو پکڑیں کہ اَماں بھاگتے کہاں ہو، لمحہ بھرکو تو ٹھیرو۔ اُردو میں ’عن‘ کا استعمال زیادہ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کے منہ بولے بھائی ’مِن‘ کا استعمال بہت ہے۔ عن اور مِن دونوں حروفِ جر ہیں اور دونوں کے معنی ’سے‘ یا ’از‘ کے ہیں۔ متنِ احادیث کا آغاز ’عن‘ سے ہوتا ہے۔ یہ بتانے کے لیے کہ یہ حدیث کس کس ’سے‘ ہم تک پہنچی ہے۔ ایک لفظ ’عن قریب‘ اُردو میں بکثرت استعمال ہوتا ہے اورعموماً ملا کر ’عنقریب‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ ’تابعِ فعل‘ ہے، یعنی فقرے میں ’عنقریب‘ کے قریب ہی کوئی ’فعل‘ ضرور لگا ہوگا۔ ’عنقریب‘ کا مطلب ہے قریب ہی، جلد ہی، ابھی تھوڑے دنوں میں، کوئی گھڑی میں یا کوئی دن میں۔ ’عنقریب‘ زیادہ تر قُربِ زمانہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاًذوقؔ کہتے ہیں:
کریں جدائی کا کس کس کی رنج ہم اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں ہم سب سے عنقریب جدا
میم پر زیر لگاکر پڑھا جائے تو’مِن‘ کے معنی ’سے، از،کا یا بمقابلہ‘ ہوں گے۔ اس سے مراد ’ابتدا‘بھی لی جاتی ہے۔ مثلاً: ’مِنَ الظلمات الیٰ النور‘ (اندھیروں سے اُجالے تک)۔ ’از‘ یا ’سے‘ کے معنوں میں عربی کی بہت سی تراکیب اُردو میں بڑی بے تکلفی سے استعمال کی جاتی ہیں۔ مثلاً ’من اللہ‘ یعنی اللہ کی طرف سے یا غیب سے۔ ’نصرٌمن اللہ‘یعنی ’مدد اللہ کی طرف سے‘۔ عدالتِ عظمیٰ کے ایک عزت مآب جج جناب ’اطہر من اللہ‘ ہیں، وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے (اطہر کرکے) عطا کیے گئے ہیں۔ نواب یوسف علی خان ناظمؔ تو یہ دعویٰ فرماتے ہیںکہ
جذبۂ عشق وہ حاصل ہے من اللہ ہمیں
دام میں اپنے پھنسا جس کی ہوئی چاہ ہمیں
’مِن جانب‘کا استعمال خطوط اوردعوت ناموں پر کیا جاتا تھا، آج بھی کیا جاتاہے۔ اس کامعنی ہے ’کی طر ف سے‘یا ‘From’۔ ’مِن جملہ‘ کا مطلب ہے ’سب میں سے، کُل میں سے، تمام میں سے۔ ’جملہ‘ کے معنی ہیں ’کُل، تمام، سب اور میزان‘۔ کلموں کے مجموعے کو بھی اسی وجہ سے جملہ کہا جاتا ہے۔ خیریہ توایک جملۂ معترضہ (بات کے بیچ میں بولا جانے والافقرہ) تھا۔ ’مِن جملہ‘ کے معنی جگرؔسے سیکھیے:
جان کر مِن جملۂ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
’مِن حیث القوم‘ کی ترکیب بھی ہمارے ہاں اکثر سننے اور پڑھنے میں آتی ہے کہ ’ہم مِن حیث القوم بے حس ہوگئے ہیں‘۔ ’مِن حیث القوم‘ کا مطلب ہے ’قوم کی حیثیت سے‘ یا ’قوم کے اعتبار سے‘۔ آج کے کالم میں جس مرکب کا بطورِ خاص ذکر مقصود تھا وہ ہے ’مِن و عن‘۔ اس کا مطلب ہے حرف بہ حرف، جوں کا توں، ہُو بہ ہُو (ہو بہو) یا بے کم و کاست۔ مگر ہمارے اکثر سیاست دان اور بیشتر ماہرین ابلاغیات اپنی روزمرہ نشریات میں مِن کے میم پر زبر لگاکر مَن بولنے لگے ہیں، مَنّ و عَن۔ عربی میں مَن کا مطلب ’کون‘ یا ’جو‘ ہوتا ہے۔ اب من من بھر کے مشاہیر کو چھٹانک بھر کا کالم نگار کیسے سمجھائے کہ جنابِ مَن! اس طرح سے بولا جانے والا ’مَنّ و عن‘ بے معنی ہوجاتا ہے۔