ڈاکٹر عابد شیروانی (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ) معروف اقبال شناس اور شارح کلامِ اقبال ؒہیں۔ کلامِ اقبال ؒ کی شرح کے حوالے سے ان کی تیسری کتاب ’’ابلیس سے جفا‘‘ ہمارے پیشِ نظر ہے۔ اس سے قبل ان کی دو کتابیں ’’اسپین… اقبال کا دوسرا خواب‘‘ اور ’’محمدﷺ سے وفا‘‘ شائع ہوچکی ہیں۔ اوّل الذکرکتاب علامہ اقبالؒ کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کی ایک مفصل علمی اور تحقیقی نوعیت کی شرح ہے۔ جب کہ مؤخر الذکر کتاب علامہ محمد اقبالؒ کی دو مشہور نظموں ’’شکوہ‘‘ اور’’جوابِ شکوہ‘‘ کے تقابلی مطالعے اور شرح پر مشتمل ہے۔
پیشِ نظر کتاب ’’ابلیس سے جفا‘‘ شاعرِ مشرق، حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کی آخری طویل اور فکر انگیز نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کی شرح ہے۔ یہ نظم اقبال نے اپنے انتقال سے دو سال قبل1936ء میں لکھی تھی۔ اسے اردو ادب کی شاہکار نظموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نظم میں اقبالؒ نے تمثیلی انداز میں ابلیس اور اس کے مشیروں کی زبان سے عصرِ حاضر کو درپیش مسائل کے حوالے سے اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ابلیسی نظام کو اگر کوئی نظام اور دستورِ حیات شکست دے سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ کے مطابق ابلیسی نظام کی اخلاقیات اور معاشرت میں تو اتنا دم خم نہیں کہ وہ اپنے بل پر برقرار رہ سکیں، لیکن سائنسی ترقی اور مشینی ایجادات کی بالادستی کی وجہ سے یورپی تہذیب و تمدن کی حفاظت ہورہی ہے، ابلیس کے لشکر مادی اسباب سے لیس ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمان سچے مومن بن کر پامردی کا مظاہرہ کریں اور باطل سے ٹکرا جائیں۔ جب کہ ابلیس کا مکمل انحصار یورپ کی مشینوں پر ہے، جس کی بنیاد پر اسے اعتماد ہے کہ اس کی تہذیب کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
فاضل شارح نے کتاب کی ابتدا میں اس نظم کے مضامین پر گفتگو کرنے سے پہلے قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ’’ابلیس‘‘ کا ایک اجمالی تعارف پیش کیا ہے تاکہ ابلیس کے کردار کا ایک خاکہ پیشِ نظر رہے۔ علاوہ ازیں نظم کی وجہِ تسمیہ اور نظم کے اسلوب پربھی روشنی ڈالی ہے۔ مزید برآں قارئین کی سہولت کے لیے ایک ایک شعر کی تشریح سے قبل اس کا عنوان، مشکل الفاظ کے معنیٰ اور نثری ترجمہ درج کرنے کے بعد آسان اور عام فہم تشریح کی ہے۔
ڈاکٹر شیروانی رقم طراز ہیں:
’’چونکہ یہ نظم علامہ اقبالؒ نے اپنی عمر کے آخری دور میں کہی ہے اس لیے اُس نے تمثیلی شاعری کو اپناکر اپنی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور علم کا نچوڑ اپنے قارئین تک پہنچانا چاہا ہے۔ جس کی بدولت امتِ مسلمہ کے دردمند افراد ابلیسی نقطۂ نظر سے اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے پس منظر میں کارفرما شیطانی کھیل کو سمجھ سکتے ہیں اور موجودہ دور میں شیطان کے ہتھکنڈوں سے آگاہ ہوکر اُس کی چالوں سے بچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ‘‘
مذکورہ نظم کے درجِ ذیل شعر:
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں
کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اس شعر کو اکثر شارحین نے منسوب کیا ہے عالمی جنگِ اوّل سے، جو1915ء تا 1919ء چار سال تین ماہ لڑی گئی، جس میں ایک کروڑ 84 لاکھ افراد قتل ہوئے اور 2 کروڑ 36 لاکھ انسان زخمی ہوئے۔ اُس وقت کے مستقبل قریب میں ہونے والی ورلڈ وار 2 سے جس میں 8 کروڑ 50 لاکھ افراد موت کا نوالہ بنے۔ یہ جنگ علامہ صاحب کی وفات کے بعد 1939ء سے 1945ء تک 6 سال لڑی گئی۔ جب کہ اس ضمن میں قرینِ قیاس یہ ہے کہ وہ احادیثِ نبویہ جن میں یہ خبر نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ دی گئی ہے کہ قربِ قیامت سے قبل دینِ اسلام کا غلبہ ہوکر رہے گا اور ایسی ہی کچھ احادیث ابلیس کے پیشِ نظر ہیں اور وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ قربِ قیامت کی علامات ظاہر ہورہی ہیں جس سے پہلے اسلام کا غلبہ ہوگا تو اسے مشاورت بلانی پڑی کہ وہ حالات جو مستقبل میں رونما ہونے والے ہیں، ان کی کیسے پیش بندی کی جائے۔ اور ان کی روک تھام کرنے اور زیادہ سے زیادہ جہادیوں کو انقلابی راستے سے ہٹاکر جہنم کے راستے پر لے جانے کی مزید ترکیبیں سوچی جائیں۔‘‘
اسی نظم کے درجِ ذیل شعر:
مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے
کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’ابلیس نے جہاں مذہبی مزاج کے مسلمانوں کو دنیا کی امارت و خلافت اور حکومت و سیاست سے دور رکھنے کی یہ چال چلی کہ انھیں ذکرو فکر کی ان محفلوں میں مشغول کردو، جہاں ذکر کے نام پر قرآنی تعلیمات کا گزر نہ ہو بلکہ اذکار بھی وہ متعین کیے جائیں جو سنتِ رسولﷺ سے ثابت نہ ہوں۔ قرآن سے دوری انھیں بے عملی اور دنیا سے بے زاری کی طرف لے جائے گی جس کی وجہ سے یہ حکومت و سیاست کے معاملات میں مخل نہ ہوں گے اور شیطانی دماغوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔‘‘
کلامِ اقبال کی تفہیم کے سلسلے میں کی جانے والی یہ کوشش لائق ِ تحسین ہے۔ امید ہے اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔