مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات کے بعد اسی رات ہم بارک اللہ خاں صاحب سے ملے اور انھیں مولانا کی گفتگو من و عن سنا دی۔ بات چیت سننے کے بعد بارک اللہ خاں کچھ سوچ میں پڑ گئے۔ اس سلسلۂ جنبانی کے دوران میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے خاں صاحب کو یوں گہری سوچ میںڈوبا ہوا پایا۔ کہنے لگے ’’مجھے آج رات مزید سوچنے دو، کل اس موضوع پر فائنل بات کریں گے۔‘‘ اگلے دن ان سے ہماری ملاقات ظہر کی نماز کے بعد ہوئی۔ خاں صاحب نے تجویز پیش کی کہ جمعیت دو نمائندے (حلقہ احباب میں سے یا اپنے ہم خیال غیر جمعیتی اور غیر طالب علم افراد میں سے) مقرر کرے، اور اسی طرح دو نمائندے خاں صاحب مقرر کریں گے۔ پانچواں آدمی ایسا ہوگا جس پر دونوں فریق متفق ہوجائیں، پھر معاملہ اس پانچ رکنی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ پانچواں آدمی کمیٹی کا سربراہ ہوگا اور آرا برابر ہونے کی صورت میں اس کو فیصلہ کن ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا۔
یہ تجویز اپنی جگہ معقول تھی، مگر ایک جانب فردِ واحد تھا اور دوسری طرف پوری تنظیم تھی۔ بہرحال بغیر کسی لمبی چوڑی بحث کے ہم نے دو منٹ کے لیے آپس میں مشورہ کیا اور خاں صاحب کی تجویز منظور کرلی۔ اپنے مقابلے پر مخالفین کے متحد ہوجانے کے بعد، اور وہ بھی دائیں بازو کے بظاہر اسلام پسند امیدوار پر، اب ہم ہر قیمت پر خاں صاحب کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ جو بھی کمیٹی بنے گی اُس کا فیصلہ درست ہی ہوگا۔ خاں صاحب سے گلے مل کر ہم لوگ اپنے دفتر سعید منزل چلے گئے اور اُس روز جاری کی گئی خبروں اور بیانات کی تفصیل معلوم کی۔
خاں صاحب نے دو نام تجویزکیے: پروفیسر عثمان غنی، اور (آقا) بیدار ملک۔ عثمان غنی میرے سگے تایا زاد ہیں [یہ مضمون مرحوم کی زندگی میں لکھا گیا تھا۔ اب تو وہ جنت مقیم ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے۔] آپ جمعیت کی طرف سے 1960-61ء میں انجمن طلبہ جامعہ پنجاب کے صدر تھے، جب کہ بیدار ملک جمعیت کے سابق رکن تھے۔ عثمان غنی لاہور جمعیت کے کئی سال رکن اور غالباً ایک بار ناظم بھی رہ چکے تھے۔ جمعیت کی طرف سے جو دو نام پیش کیے گئے وہ تھے: محمد اسماعیل چودھری ایڈووکیٹ اور رانا نذرالرحمٰن خان۔ یہ دونوں حضرات بھی جمعیت کے سابقین میںسے تھے۔ جماعت اسلامی کے بزرگ رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ اور امیر جماعت اسلامی لاہور چودھری غلام جیلانی بی اے مدیر ’’ہفت روزہ ایشیا‘‘ متفقہ طور پر ثالث یا سربراہ کمیٹی چنے گئے۔ کمیٹی کا اجلاس بعد نماز عشا چودھری اسماعیل کی رہائش گاہ مزنگ روڈ پر منعقد ہونا طے پایا۔
پروگرام کے مطابق فریقین اور ارکانِ کمیٹی جائے مقررہ پر بروقت پہنچ گئے۔ بند کمرے میں کمیٹی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل خاں صاحب اور جمعیت کے نمائندے نے ایک عہدنامے پر دستخط کیے کہ کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی انھیں قابلِ قبول ہوگا۔ بند کمرے میں دیر تک اجلاس جاری رہا۔ فریقین شدت سے ڈرائنگ روم میں انتظار کررہے تھے کہ کیا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ باہر موسم شدید سرد تھا جب کہ اندر بھی سردی کا احساس ہورہا تھا۔ چار پانچ گھنٹوں کے بعد آدھی رات کے قریب سربراہ کمیٹی کی قیادت میں ارکان باہر آئے اور لکھا ہوا فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔ فیصلہ سننے سے قبل عجیب کیفیت تھی، لوگ سانس روکے فیصلہ سننے کے لیے گوش بر آواز تھے۔ چودھری جیلانی صاحب نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق کمیٹی نے طے کیا تھا کہ بارک اللہ خاں اسلامی جمعیت طلبہ کے نامزد نمائندے کے حق میں الیکشن سے دست بردار ہوجائیں اور جمعیت کی انتخابی مہم میں حصہ لیں۔
فیصلہ سننے کے بعد خاں صاحب کے چہرے پر میں نے مایوسی کے آثار دیکھے، مگر ایک ہی لمحے میں خاں صاحب نے اس کیفیت پر قابو پا لیا اور بڑے تپاک سے اٹھ کر مجھ سے گلے ملے اور اعلان کیا کہ انھیں کمیٹی کا فیصلہ دل و جان سے منظور ہے۔ اس لمحے خاں صاحب کی عظمت دوبالا ہوگئی تھی اور بعد میں انتخابی مہم میں بھی انھوں نے ثابت کردیا کہ وہ فیصلہ انھیں دل و جان سے قبول تھا۔ خاں صاحب نے بڑی تن دہی سے ہمارے ساتھ اس مہم میں حصہ لیا۔ ایک دن بعد اخبارات میں اس فیصلے کی خبر چھپی تو ہمارے مخالف فریق کو خاصی تشویش اور فکر لاحق ہوگئی، جب کہ ہمارے حلقوں کے اندر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اللہ تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ بھی ریکارڈ پر آ جائے کہ جمعیت اور خاں صاحب کے مقرر کردہ نمائندوں نے اپنے اپنے امیدوار کے حق میں دلائل دیے اور ووٹ ڈالے تھے۔ فیصلہ صدر کمیٹی چودھری غلام جیلانی صاحب کے کاسٹنگ ووٹ سے ہوا۔ یہ راز بھی خاں صاحب اور جمعیت کے نمائندے کے استفسار کے جواب میں سامنے آیا۔ چودھری غلام جیلانی صاحب نے تو راز کھولنے سے بالکل انکار کردیا، مگر زیادہ اصرار کے ساتھ پوچھنے پر چودھری اسماعیل صاحب نے صدر صاحب اور ارکان سے اجازت لے کر بتادیا کہ فیصلہ صدر کمیٹی کے کاسٹنگ ووٹ سے ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ فریقین کے مقرر کردہ نمائندوں کو اپنے اپنے امیدواروں کے حق ہی میں رائے دینی تھی۔
انتخابی مہم بڑی دلچسپ بھی تھی اور اعصاب شکن بھی۔ کم و بیش ایک ماہ کی مہم کے بعد انتخابات ہوئے، جمعیت نے اگرچہ کسی بھی دوسری پوسٹ کے لیے جمعیت کی تنظیم میں سے اپنے نمائندے کھڑے نہیں کیے تھے، تاہم بعد میں گفت و شنید کے نتیجے میں ہمارا پورا پینل بن گیا جس کے مطابق سیکرٹری کے لیے حفیظ خان، نائب صدارت کے لیے تنویر عباس تابش اور خواتین کمیٹی کے لیے سائرہ کریم کی حمایت کا فیصلہ ہوا تھا۔ باقی سیٹوں ڈپٹی سیکرٹری کے لیے بھی مختلف امیدواروں کے بارے میں ترجیحی ترتیب طے ہوئی، مگر اب ان کے بارے میں مجھے تفصیلات یاد نہیں۔ غالباً ڈپٹی سیکرٹری کے لیے جس امیدوار کو پینل میں رکھا گیا، اس کا نام عثمان غنی تھا۔ اس مہم کے دوران پیش آنے والے یادگار واقعات میں سے چند واقعات کا تذکرہ قارئین کی دلچسپی کے لیے کرنا چاہتا ہوں۔
جامعہ پنجاب اور دیگر تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مخالفین جمعیت کے خلاف تو کچھ نہ کچھ کہہ سکتے تھے، کیوںکہ مدمقابل امیدواروں پر تنقید بلکہ تنقیص بھی یہاں کا ایک معمول تھا، البتہ مولانا مودودیؒ کی ذات کو نشانۂ تضحیک بنانا ازحد غیر مہذب اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت تھی۔ ہمارے مخالفین بدزبانی کی حدوں میں داخل ہوکر سید مودودیؒ کی ذات پر بہت گندے اور رکیک حملے کرتے تھے۔ اُن کے ان غیراخلاقی حملوں میں سے ایک یہ نعرہ ہوتا تھا ’’مودودی ٹھاہ! مودودیے ٹھاہ‘‘۔ جمعیت کے کارکنان کو ’’مودودیے‘‘ کہہ کر چڑایا جاتا تھا۔ اس کے جواب میں جمعیت کے کارکنان کا نعرہ ہوتا تھا ’’سرخے ٹھاہ! اشتراکی غنڈے ٹھاہ، بھٹو کے پجاری ٹھاہ!‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے مخالفین نے یہ نعرہ بھی ایجاد کیا: ’’ایک مودودی سو یہودی!‘‘ ’’سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ ہے‘‘۔ ایک دن میں نے اپنی تقریر میں کہا ’’ایک مودودی، دنیا بھر کے یہودی، پھر بھی غالب ہے مودودی‘‘۔ چند دن ہمارے حلقے میں یہ فقرے نعرے بن کر گونجے تو پھر سرخوں نے یہ نعرہ ترک کردیا۔ ان کے دوسرے نعرے کے جواب میں ’’سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے!‘‘ ’’سبز ہے، چادرِ بتولؓ سے، گنبدِ رسولؐ سے، سبز ہے سبز ہے، ایشیا سبز ہے!‘‘ جمعیت کے نعروں کی گونج مخالفین سے کہیں زیادہ بلند ہوتی تھی، حتیٰ کہ جب وہ ’’سرخ سرخ ہے ایشیا‘‘ پر پہنچتے تو جمعیت کے ساتھیوں کی زبان سے آواز گونجتی ’’سبز ہے‘‘۔ اس سے یہ نعرہ یوں ریکارڈ ہوتا ’’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سبز ہے‘‘۔
اس الیکشن میں جہانگیر بدر اور ان کے ساتھیوں کو امید تھی کہ ہیلی کالج، لا کالج جہاں کا وہ خود طالب علم ہے، اور نیو کیمپس سے جہاں کے سارے لیڈر اس کی پشت پر ہیں، وہ بھاری اکثریت سے جیتیں گے۔ ان کا یہ زعم غلط ثابت ہوا۔ لا کالج میں ہم نے اس دفعہ پہلی بار اتنی بھاری اکثریت حاصل کی کہ اس سے قبل اس کالج سے جمعیت کو اس قدر اکثریت یونین کی پوری تاریخ میں کبھی حاصل نہ ہوئی تھی۔ نیوکیمپس میں بھی نیوکیمپس کے نام نہاد لیڈروں کی ملی بھگت کے باوجود مجموعی طور پر ہم نے زیادہ ووٹ لیے۔ البتہ ہیلی کالج میں ہمیں بہت ہی کم ووٹ ملے، حالاں کہ اس سے قبل ہیلی کالج ہی ہمیں جتوایا کرتا تھا۔ ہیلی کالج ہاسٹل میں مقیم طلبہ کی تعداد کچھ زیادہ نہ تھی۔ یوں سمجھیں کہ وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے، مگر ان بورڈرز کی اکثریت بہرحال ہمارے ساتھ تھی کیوںکہ وہ میری کامیابی سے اتنے خوش تھے کہ نتائج کا اعلان ہونے کے بعد ہیلی کالج کے دونوں ہاسٹلوں میں رات بھر چراغاں کیا جاتا رہا۔ پاوا پارٹی کا کالج میں تو بڑا زور تھا، مگر ہاسٹل میں اس سال ان کی دال نہیں گلی تھی۔
ہر مہم کے دوران ہمارے ساتھی جان مار کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔ اس انتخابی مہم میں مجھے محسوس ہوا کہ پہلے والی تمام مہمات کے مقابلے میں اس مہم میں ارکان و کارکنان کا جوش و جذبہ سوا تھا۔ ایک بزرگ مجھے بہت یاد آتے تھے اور بعض اوقات میں اُن کے الفاظ استعمال کرکے اپنے ساتھیوں کے حوصلے مزید بڑھانے کی کوشش کیا کرتا تھا، یہ بزرگ بہاولپور سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا نام چودھری ثنا اللہ تھا۔ میں لاہور جمعیت کا ناظم تھا اور وولنر ہاسٹل اورینٹل کالج، اولڈ کیمپس میں مقیم تھا۔ بہت سے لوگ جن میں کئی بزرگ بھی ہوتے تھے، مجھ سے ملنے کے لیے میرے پاس تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک روز ہاسٹل میں میرے پاس ایک بزرگ آئے اور اپنا تعارف کروایا ’’میرا نام ثنا اللہ ہے اور میں بہاولپور سے آیا ہوں۔ میرا بیٹا محمد اکرم آپ کا کلاس فیلو ہے، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے عرض کیا ’’اکرم صاحب میرے بہت اچھے دوست ہیں، مگر وہ چوں کہ ہاسٹل میں نہیں رہتے اس لیے معلوم نہیں کہ اس وقت کہاں ہوں گے‘‘۔ پھر پوچھنے لگے ’’آپ جمعیت کے ناظم ہیں؟‘‘ میں نے ہاں میں جواب دیا، تو پھر ان کے اگلے سوال یہ تھے ’’جمعیت کے ارکان کتنے ہیں؟ رفقا کتنے ہیں؟ کارکن اور حامی کتنے ہیں؟‘‘ میں نے سب کا جواب دیا تو آخر میں انھوں نے پوچھا کہ ’’ان میں دیوانے کتنے ہیں؟‘‘ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے کہا ’’دیوانے تو کم ہی ہیں اور وہ ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں‘‘۔ فرمانے لگے ’’دیوانوں کی تعداد بڑھائو، دیوانوں کے بغیر مشکل گھاٹیاں سر نہیں ہوسکتیں‘‘۔ واقعتاً چودھری صاحب کی اس بات میں بڑا وزن تھا۔ اس الیکشن میں مَیں نے دیکھا کہ کارکنان میں وہ دیوانگی نظر آرہی تھی جس کی طرف بزرگ موصوف نے اشارہ کیا تھا۔ چودھری صاحب کے بیٹے محمد اکرم میرے کلاس فیلو تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے میرے ساتھ ایم اے عربی کرنے کے بعد انھوں نے پی ایچ ڈی اور نامعلوم کیا کیا ڈگریاں حاصل کیں۔ ایک کامیاب استاد کے طور پر انھوں نے سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں اور آج کل بھی مختلف یونیورسٹیوں میں اپنے تحقیقی و علمی فرائض ادا کررہے ہیں۔
الیکشن کے موضوع پر ہم بات کر رہے تھے۔ طے شدہ شیڈول کے مطابق الیکشن 26 جنوری 1970ء کو ہوا تھا۔ الیکشن کے دوران ایک ہی گھنٹے کے بعد معلوم ہوا کہ بیلٹ پیپروں میں سیکرٹری شپ کے امیدواروں کے ناموں میں گڑبڑ ہے۔ یہ گڑبڑ دانستہ طور پر کی گئی تھی۔ پتا نہیں گڑبڑ کرنے والوں کے پیش نظر کیا تھا! ہوا یوں کہ جہانگیر بدر کے گروپ میں سیکرٹری کے امیدوار جمیل اختر کا نام بعض بیلٹ پیپروں میں چھپا ہوا نہیں تھا۔ اگر سارے ہی بیلٹ پیپروں میں یہ صورت ہوتی تو معاملہ دوسرا تھا، مگر یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ آدھے پولنگ اسٹیشنوں پر تو جو پیپر آئے ان میں یہ نام موجود تھا اور دیگر شعبوں پر غائب تھا۔ جوں ہی یہ راز کھلا میں نے دوستوں سے کہا یہ سازش ہے، لیکن آئو ابھی سے مخالف گروپ اور انتظامیہ سے بات کرلیں۔ چناں چہ فوراً اس موضوع پر بات کی گئی۔ انتظامیہ اور حزبِ مخالف دونوں نے اتفاق کیا کہ باقی پوسٹوں کا انتخاب مکمل کرلیا جائے۔ سیکرٹری کا انتخاب الگ سے بعد میں ہوجائے گا۔
(جاری ہے)