سمیع اللہ بٹ ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت تھے۔ ادب کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا۔ مطالعہ کتب کے انتہائی شوقین اور صاحبِ علم شخصیت تھے۔ آپ مولانا مودودیؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے دروس کے خوشہ چیں۔ انہوں نے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کا انٹرویو بھی کیا جو ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ جب جماعت اسلامی لاہور کے قیم تھے تب ادبی پروگرامات رکھا کرتے تھے۔ عبدالرحمٰن بزمی صاحب انگلینڈ سے پاکستان آتے تو ان کا پروگرام لاہور جماعت میں رکھتے تھے جس میں عبدالرحمٰن بزمی اپنی کارگزاریاں، اشعار، واقعات اور تلفظ کے حوالے سے گفتگو رکھتے تھے۔ سمیع اللہ بٹ صاحب بڑی ہی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جب وہ قیم ضلع تھے اُن ہی دنوں مَیں رکنِ جماعت بنا تھا۔ انہوں نے دفتر ضلع کو بہت احسن انداز میں سنبھالا ہوا تھا۔ لیاقت بلوچ صاحب اُن دنوں امیر ضلع تھے، وہ بیرونِ لاہور دوروں پر رہتے تھے، ان کے دور میں بہت زیادہ کام بھی ہوا۔ لیاقت بلوچ صاحب کا دور بہترین مینجمنٹ کا دور تھا، زون تک کا دورہ لیاقت بلوچ صاحب خود کرتے تھے، ان سب کاموں کو سرانجام دینے کے لیے سمیع اللہ بٹ صاحب کی معاونت نے مہمیز کا کام کیا۔ مجھ سے جب بھی ملتے، کہتے: جعفر صاحب کیا حال ہے۔ دفتر ضلع آتے تو سب سے پہلے اخبارات اکٹھے کرکے ان کا مطالعہ کرتے، پھر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے جو سارا دن جاری رہتے تھے۔
1970ء سے 1976ء تک جمعیت کے بہت سرگرم رکن رہے۔ ناظم لاہور بھی رہے۔ لاہور میں کاغذ کا کاروبار شروع کیا اور پھر کاغذ مارکیٹ کے آل پاکستان صدر رہے۔ ثریا عظیم اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر اور حلقۂ علم وادب کے صدر رہے، مگر ان کا اصل میدان قرآن فہمی رہا۔ قرآن فہمی میں انہیں بہت لذت محسوس ہوتی تھی۔ پانچ سال تک وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے دروس میں ان کی رہائش گاہ جاکر باقاعدگی سے شرکت کرتے اور دروس کے باقاعدہ نوٹس لیتے۔ وہ اُن چند خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو بہ یک وقت مولانا مودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے بااعتماد شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔
کم عمر ہونے کے باوجود وہ دونوں عظیم ہستیوں کے درمیان پیغام رسانی اور اعتماد سازی کا کام بھی کرتے رہے۔ وہ بہت قابلِ بھروسا انسان تھے۔ معاملات، تعلقات اور علمی دیانت میں ان جیسا شاید کوئی نہ ہو۔ مولانا مودودیؒ اور مولانا اصلاحیؒ کا براہِ راست شاگرد ہونے کے باوجود کبھی اپنے وسیع مطالعے اور علمی تحقیق کا دوستوں پہ رعب نہ ڈالا۔ بہت سادہ تھے، ہمیشہ خوش گوار مزاج میں ہوتے اور مسکراتے رہتے۔ سمیع اللہ بٹ عبدالحفیظ احمد مرحوم، محمد انور گوندل، سید احسان اللہ وقاص اور لیاقت بلوچ کے قریبی ساتھی تھے۔ وہ ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ بہ قول عبدالشکور صاحب وہ بہت ہی ’’بی بے‘‘ انسان تھے۔
سمیع اللہ بٹ صاحب قرآن سے جڑے ہوئے وہ درویش تھے جو سید مودودیؒ کے سپاہی کی حیثیت سے ساری زندگی دعوت و فکر سے منسلک رہے۔ مطالعے کا شوق بہت زیادہ تھا، کھانے سے زیادہ کھلانے کا شوق تھا انہیں۔ بیماری میں بھی دوستوں سے رابطہ ٹوٹنے نہیں دیتے تھے۔ ایسے بھلے انسان کب روز روز آتے ہیں! بٹ صاحب جیسی شخصیات دنیا میں ایک مشن سے وابستہ رہتی ہیں اور اسی تگ و دو میں اپنے رب کے حضور پیش ہوجاتی ہیں۔ اللہ ان کی آخری منازل آسان فرمائے، ان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا دے اور ہمیں بھی آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ ہم سب سے راضی ہوجائے، آمین یارب العالمین۔