پینے کے پانی کی بڑھتی قلت :دنیا بھر میں میٹھے پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کا آپشن اپنایا جارہا ہے

پانی رے پانی…. ہر طرف ایک ہی بات کا رونا ہے، یہ کہ پانی کم ہے اور مزید کم ہوتا جارہا ہے۔ روئے ارض پر پانی کم نہیں مگر مسئلہ پانی کی قلت سے زیادہ اِس تک رسائی کا ہے، یعنی اِس کی معقول اور متواتر فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اور اِس سے بھی بڑا مسئلہ ہے پانی کے معیار کا۔ لوگوں کو اول تو پینے کے لیے کم پانی میسر ہے، اور جو کچھ میسر ہے اُس کا معیار بھی خاصا گرا ہوا ہے۔ پس ماندہ ممالک میں لوگ پینے کے پانی کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں اور جو کچھ اُنہیں مل پاتا ہے وہ بھی اِتنا معیاری نہیں ہوتا کہ زندگی کا معیار بلند کرسکے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگ پینے کے پانی تک رسائی کے لیے شدید الجھنوں کا شکار ہیں۔ پس ماندہ معاشروں میں تو یہ مسئلہ زندگی اور موت کا معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔ کئی ممالک میں لوگ پینے کے صاف پانی کو اس قدر ترسے ہوئے رہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہنگامہ آرائی بھی برپا ہوتی رہتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پینے کے صاف پانی کی رسد ایک خاص سطح پر برقرار رکھنے کے لیے دیگر بہت سے اقدامات کی طرح پانی کی ری سائیکلنگ بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ ری سائیکلنگ یعنی استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانا۔ بعض ممالک نے سمندر کے پانی کو کھیتی باڑی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے قابل بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ بعض خطوں میں بورنگ کے ذریعے نکالے جانے والے کھاری پانی کو پینے کے قابل بنانے پر بھی دھیان دیا جارہا ہے۔ سمندری نمکین پانی ہو یا زمین سے نکالا ہوا کھاری پانی، اُسے قابلِ استعمال تو بنایا جاسکتا ہے مگر پھر بھی اُس میں وہ بات نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ تازہ پانی جو یا تو زمین سے نکلتا ہے یا پھر گلیشیرز کے پگھلنے سے ندی نالوں اور آبشاروں یا چشموں کی شکل میں بہتا ہوا ہم تک پہنچتا ہے وہ واقعی اِتنا جان دار ہوتا ہے کہ اُس کے پینے سے فرحت بھی محسوس ہوتی ہے اور توانائی بھی بحال ہوتی ہے۔ پینے کے قابل بنائے جانے والے پانی میں یہ خصوصیت بہت کم درجے میں پائی جاتی ہے۔

سنگاپور کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو پینے کے صاف یعنی قدرتی میٹھے پانی کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ سنگاپور سٹی اسٹیٹ ہے یعنی ایک جزیرے پر مشتمل شہری ریاست۔ اس کا پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ دیگر بہت سے معاملات کی طرح سنگاپور میں پینے کے پانی کی فراہمی کا نظام بھی انتہائی نوعیت کی نگرانی کا حامل ہے۔ لوگوں کو صاف پانی حساب کتاب سے فراہم کیا جاتا ہے اور پانی کا ضیاع کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاتا۔

سنگاپور میں صاف یا میٹھے پانے کی قلت پر قابو پانے کا ایک اچھا طریقہ یہ سوچا گیا ہے کہ پانی ری سائیکل کیا جائے یعنی دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے۔ سنگاپور کی حکومت نے اس حوالے سے بھرپور سرمایہ کاری ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے ایسا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے پانی کی بھرپور فراہمی بھی یقینی بنائی گئی ہے اور پانی کا معیار بھی بلند ہے۔

دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پر قابو پانے کے لیے کئی طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ بعض ممالک کم وسائل کے باعث کچھ زیادہ تو نہیں کرسکتے مگر ہاں، صاف پانی کے استعمال میں کفایت پر زور دیتے ہیں اور پانی کا ضیاع روکنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

عالمی بینک کہتا ہے کہ دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کی متواتر اور معقول فراہمی یقینی بنانے کے لیے اسمارٹ سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام بہتر بناکر پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ گندے پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بھی بنایا جاسکتا ہے۔ سنگاپور میں گندے پانی کو دوبارہ پینے کے قابل بنانے پر غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے۔ اس کا واٹر فلٹریشن پلانٹ جدید ترین ٹیکنالوجیز کا حامل ہے۔ چینگی واٹر ریکلیمیشن پلانٹ یومیہ 90 کروڑ لیٹر پانی صاف کرسکتا ہے۔ اِتنا پانی 350 اولمپک سوئمنگ پُولز میں ہوتا ہے۔

سنگاپور میں زمین بہت کم ہے۔ اس کا محدود رقبہ باہری سطح پر زمین کے زیادہ استعمال کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے بیشتر حصے زیرِزمین ہیں۔ یہ سسٹم زیرِزمین 25 منزلوں تک ہے۔ اِس سسٹم میں سرنگیں، پائپ لائنز، ٹینک، فلٹریشن اکوپمنٹ اور بنیادی ڈھانچے کے دیگر اجزا ہیں۔

جن سرنگوں سے گندا پانی گھومتا پھرتا اس فلٹریشن پلانٹ تک پہنچتا ہے اُن کی مجموعی طوالت 48 کلومیٹر ہے۔ زیرِزمین نیٹ ورک میں پانی کو فلٹر کرکے زمین کی سطح پر پہنچایا جاتا ہے۔ وہاں ہائی ٹیک فلٹریشن پلانٹ کے ذریعے بیکٹیریا، وائرس اور دیگر گند صاف کی جاتی ہے۔ اس کے بعد الٹرا وائلٹ ٹریٹمنٹ کے ذریعے پانی کو تمام ہی مضر اجزا سے پاک کردیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو پانی میسر ہوتا ہے اُسے NEWater کہا جاتا ہے۔ یہ اس قدر صاف ہوتا ہے کہ پیا بھی جاسکتا ہے اور پودوں کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ یہ پانی سر دھونے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

فلٹریشن پلانٹ کے ذریعے صاف کیا ہوا پانی سنگاپور کے صنعتی ادارے بھی بے فکری سے استعمال کرتے ہیں۔ سنگاپور میں مائیکرو چپ بنانے کا شعبہ بھی غیر معمولی معاشی اہمیت رکھتا ہے۔ اس شعبے کو پانی بڑے پیمانے پر درکار ہوتا ہے۔

صاف کیا ہوا یعنی ری سائیکلڈ پانی سنگاپور کی بیشتر بڑی عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے کے نظام (چِلرز) میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گرمی دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے مگر سنگاپور میں حدت دُگنی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں بڑی عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے کے نظام کو چالو رکھنا ایک انتہائی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔

صاف کیے ہوئے پانی کی معقول مقدار شہریوں کو پینے کے لیے فراہم کرنے کی غرض سے محفوظ کیے ہوئے پانی کے ذخائر میں ملائی جاتی ہے کیونکہ شدید گرمی سے اچھا خاصا پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ شدید خشک موسم میں آبی ذخائر سے پانی کے بخارات بن کر اُڑنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔

پینے کے پانی کا عالمگیر بحران
سنگاپور جزیرہ ہے، یعنی پانی سے گھرا ہوا ہے مگر پھر بھی اُسے پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے۔ سمندر کے پانی کو قابلِ استعمال بنایا تو جاسکتا ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ اُسے پینے کے لیے ترجیحاً استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

سنگاپور کے تازہ یا میٹھے پانی کے حصول کے قدرتی ذرائع محدود ہیں۔ حکومت سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنانے پر بھی کام کرتی ہے اور پڑوسی ممالک (ملائشیا وغیرہ) سے میٹھا پانی درآمد بھی کرتی ہے۔

جن ممالک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اُن میں سنگاپور بھی صفِ اول میں ہے۔ موسم کا پیٹرن تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمگیر حدت کے نتیجے میں پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ انتہائی نوعیت کے موسمی حالات بہت سے خطوں میں پانی کی قلت کا گراف تیزی سے بلند کررہے ہیں۔ دنیا کی آبادی 2050ء تک 9 ارب 90 کروڑ ہوجائے گی۔ تب عالمگیر سطح پر پانی کا بحران مزید شدت اختیار کرچکا ہوگا۔

غیرمعمولی مجموعی اور انفرادی آمدنی والے ممالک نے پانی کی فراہمی کے معاملے کو 90 فیصد کی حد تک کنٹرول کررکھا ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے شمالی امریکہ اور یورپ 98 فیصد، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا 79 فیصد، متوسط سے زیادہ آمدنی والے ممالک 77 فیصد، لاطینی امریکہ اور کیریبین (جزائرِ غرب الہند) 75 فیصد، مجموعی طور پر پوری دنیا 74 فیصد، وسطی اور جنوبی ایشیا 62 فیصد، متوسط سے کم آمدنی والے خطے 58 فیصد، افریقا میں صحرائے صحارا کے زیریں ممالک 30 فیصد اور انتہائی کم آمدنی والے ممالک یا خطے 29 فیصد کی حد تک کامیاب ہیں۔

اس وقت دنیا کی کم و بیش 25 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک آسانی سے رسائی میسر نہیں۔ عالمی ادارئہ صحت اور بچوں کی بہبود سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے۔ ذرا سوچیے کہ ہر چار میں سے ایک فرد کو پینے کا صاف پانی یا تو میسر نہیں یا پھر آسانی سے میسر نہیں، اس کے نتیجے میں صحتِ عامہ کو پہنچنے والے نقصان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دنیا بھر میں پانی کی دستیابی سے متعلق انتہائی ناہمواری پائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں نل کے ذریعے یعنی بہت آسانی سے صاف پانی تک 98 فیصد آبادی کو رسائی حاصل ہے۔ افریقی خطے میں پینے کے صاف پانی تک رسائی پانے والوں کا تناسب 30 فیصد ہے جو انتہائی افسوس ناک اور پریشان کن ہے۔ انتہائی کم آمدنی والے یعنی انتہائی پس ماندہ ممالک میں کم و بیش 6 فیصد آبادی کو حکومت یا مقامی انتظامیہ کی طرف سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کوئی انتظام و انصرام میسر نہیں۔ یہ لوگ پینے کے پانی کے لیے جھرنوں، دریاؤں اور تالابوں پر انحصار کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے پائیدار ترقی سے متعلق جو اہداف مقرر کیے ہیں ان میں چھٹا ہدف یہ ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں تمام افراد کو پینے کے صاف پانی تک آسان رسائی دی جائے۔ اس حوالے سے کام ہوا ہے مگر مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے مسئلے کا کوئی ایک جامع حل نہیں۔

سنگاپور نے جو حل تلاش کیا ہے وہ اگرچہ بہت معیاری ہے مگر بہت سے ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک ایسے ہائی ٹیک فلٹریشن اور ٹریٹمنٹ پلانٹس قائم کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اُنہیں اس حوالے سے اسمارٹ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ کم خرچ میں بہتر نتائج کا حصول یقینی بنایا جاسکے۔ پانی کی ری سائیکلنگ بھی ممکن تو ہے مگر چونکہ اِس کا خرچ بہت زیادہ ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ پانی کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کا شعور بیدار کیا جائے۔ پانی کا اسمارٹ استعمال اِسے ضایع ہونے سے بچا سکتا ہے۔