اتوار کے روز وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر، قومی امن و سلامتی کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کردی گئی ہے۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے سرکاری تعطیل کے روز جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پی ٹی ایم کو 1997ء کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 بی کے تحت ملک میں عوامی نظم و سلامتی کے لیے ایک ”بڑا خطرہ“ قرار دیتے ہوئے اسے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے فرسٹ شیڈول میں ایک کالعدم تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی ایم کا قیام جنوبی وزیرستان کے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کے کراچی میں پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے بعد 2014ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس عرصے میں اس تحریک اور اس کے رہنما منظور پشتین کو حکومتی اداروں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے پی ٹی ایم پر بدامنی پھیلانے اور غیر ملکی ایجنسیوں کی ایماء پر کام کرنے کا الزام لگایا، جس کی پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے ہمیشہ سختی سے تردید کی۔ پی ٹی ایم پر پابندی کا حالیہ فیصلہ پی ٹی ایم کی جانب سے 11 اکتوبر کو منعقد ہونے والے پشتون قومی جرگے سے محض چار دن قبل اُس وقت آیا ہے جب پی ٹی ایم کے ورکرز حکومتی رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اس جرگے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
واضح رہے کہ پچھلے ہفتے خیبر قبائلی ضلع میں پولیس نے متعدد چھاپوں کے دوران پی ٹی ایم کے کیمپ کو آگ لگا دی تھی۔ یہ کیمپ 11 اکتوبر کے جرگے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس اقدام کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے ذریعے اس کارروائی کا ملبہ ایک دوسرے پر گرانے کی کوشش کی تھی۔ خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے دعویٰ کیا کہ صوبائی چیف سیکرٹری کو وفاقی وزارتِ داخلہ سے اس حوالے سے کارروائی کے احکامات موصول ہوئے تھے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ محسن نقوی نے پی ٹی ایم کے خلاف پولیس کریک ڈاؤن پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی خیبر پختون خوا پولیس نے کی تھی اور وزارتِ داخلہ کے احکامات پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔
پی ٹی ایم پر پابندی کے حوالے سے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے ایک بیان میں کہا کہ پی ٹی ایم حقوق کی بنیاد پر قائم تحریک ہے جس نے کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیا اور ہمیشہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مقصد کی وکالت کی ہے۔ سابق ایم این اے محسن داوڑ، جو پہلے پی ٹی ایم کا حصہ تھے اور بعد میں نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کی تشکیل کی وجہ سے پی ٹی ایم سے علیحدہ ہوگئے تھے، انہوں نے بھی اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا کہ اس سے لاپتا افراد کے خاندانوں اور انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ریاست پُرامن جدوجہد پر یقین نہیں رکھتی۔ ایکس پر ایک پیغام میں اے این پی کے سابق سینیٹر اور این ڈی ایم کے رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ پُرامن پشتون کانفرنس سے چند دن قبل اس تحریک پر پابندی عائد کرنا مظلوم عوام کے خلاف ایک روایتی نوآبادیاتی عمل ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) نے اپنے بیان میں کہا کہ اس سے صرف جنگ زدہ پشتون عوام کو مزید دور کرنے اور دائیں بازو کی عسکریت پسندی کے فروغ کے لیے جگہ پیدا ہوگی۔
واضح رہے کہ اتوار کے روز پی ٹی ایم پر پابندی کے نوٹیفکیشن کے اجراء سے تین روز قبل ہی پی ٹی ایم کے خلاف ریاستی کریک ڈائون شروع ہوگیا تھا۔ کے پی پولیس نے 11اکتوبر کی عوامی عدالت کے لیے مختص مقام پر دھاوا بول کر وہاں انتظامات کے لیے قائم کیمپ کو اکھاڑ کر آگ لگا دی تھی۔ یہ کیمپ پی ٹی ایم کے کارکنوں نے خیبر کی تحصیل جمرود میں 11 اکتوبر کو ”عوامی عدالت“ کے نام سے ایک جرگہ منعقد کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔ تباہ شدہ کیمپ میں موجود پی ٹی ایم کارکنوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا کہ پشاور اور خیبر کی پولیس نے دو بار کیمپ پر چھاپہ مارا۔ انہوں نے بتایا کہ بدھ کے روز علی الصبح مارے گئے چھاپے کے دوران پولیس نے کیمپ کو اکھاڑ دیا اور سامان لے گئی، جبکہ آنسو گیس کی شدید شیلنگ اور ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے بعض پی ٹی ایم کارکنوں کو حراست میں لیا جو کارروائی کے خلاف مزاحمت کررہے تھے، جب کہ کچھ پی ٹی ایم کارکن معمولی زخمی ہوئے، لیکن آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی ایم کارکنوں نے اسی مقام پر جمع ہوکر کیمپ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی اور مزید کارکنوں اور ہمدردوں سے مدد کی اپیل کی، تاہم پولیس نے یہ کوشش بھی ناکام بنادی۔
پی ٹی ایم ذرائع کے مطابق پولیس کی اس کارروائی کے دوران ان کے کوئی بڑے رہنما گرفتار نہیں ہوئے، وہ جمرود کے مختلف حصوں میں اپنے میزبانوں کے ساتھ محفوظ رہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس جگہ کو خالی نہیں کریں گے جہاں ہم نے 11 اکتوبر سے شروع ہونے والی اپنی تین روزہ عوامی عدالت کا اعلان کیا ہے۔ اس تحریک میں مزید کارکن ہمارے ساتھ شامل ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی پولیس نے جمرود میں بعض گھروں پر چھاپے بھی مارے تاکہ پی ٹی ایم کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا سکے، لیکن فوری طور پر کسی گرفتاری کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ جمرود پولیس نے اس امر کی تصدیق کی کہ وہ اس مشترکہ آپریشن کا حصہ تھی جو ریگی للمہ ٹاؤن شپ کے قریب پی ٹی ایم کے کیمپ کو ختم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا اور جو خیبر کی حدود میں واقع تھا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور پولیس نے وسیع پیمانے پر آنسو گیس کے شیل استعمال کیے جن کا جواب پی ٹی ایم کارکنوں نے پتھراؤ سے دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ پولیس اہلکار اور پی ٹی ایم کے کچھ کارکن زخمی بھی ہوئے جن میں کوئی سیریس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کی منصوبہ بندی پشاور پولیس نے کی تھی جبکہ خیبر پولیس بھی اپنی علاقائی ذمہ داری کی وجہ سے موقع پر موجود تھی۔
خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے بقول پولیس نے جو کہ صوبائی حکومت کے ماتحت ہے، یہ کارروائی چیف سیکرٹری کے براہِ راست حکم سے وفاقی حکومت کی ہدایت پر کی جس سے کے پی حکومت کو بے خبر رکھا گیا۔ محمد علی سیف نے میڈیا کو پی ٹی ایم کے خلاف کارروائی سے متعلق بتایا کہ پولیس نے یہ کارروائی 1997ء کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت کی اور چیف سیکرٹری اور پولیس کے خلاف کارروائی ہمارے دائرئہ اختیار سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی وفاقی قوانین کے تحت کی گئی لہٰذا پی ٹی ایم کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پولیس کی اس کارروائی کے متعلق میڈیا کے توسط سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی وزارتِ داخلہ نے ایک خط میں چیف سیکرٹری کو لکھا تھا کہ پی ٹی ایم کو ایک تنظیم کے طور پر ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف نفرت اور حقارت کو فروغ دینے میں ملوث پایا گیا ہے، جبکہ فرقہ وارانہ اور نسلی جذبات کو بھی استعمال کیا جارہا ہے، اور اس مقصد کے لیے لٹریچر، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سمیت دیگر مواد کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ تنظیم کی کوئی بھی جاری یا مستقبل کی سرگرمی عوامی امن اور ریاست کے اصولوں کے لیے نقصان دہ ہے، پی ٹی ایم کی ایسی سرگرمیوں کے خلاف سخت ضابطہ کاری اور مداخلت کی ضرورت ہے۔ دریں اثنا، احتجاج کرنے والے کوکی خیل قبائلیوں نے بھی پی ٹی ایم کے جرگے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور پولیس کو ان کے خلاف مزید کارروائی کرنے پر متنبہ کیا ہے۔ کوکی خیل کے ایک مقامی راہنما ملک نصیر احمد کوکی خیل نے 11 اکتوبر کے جرگے کے مقام پر پی ٹی ایم کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پورا قبیلہ پی ٹی ایم کے ساتھ پولیس کارروائی کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہوگا کیونکہ وہ کوکی خیل قبیلے کے مہمان ہیں۔
پی ٹی ایم پر حالیہ پابندی اتنی اچانک اور غیر متوقع ہے جس کے لیے خود پی ٹی ایم کی قیادت اور ورکرز بھی شاید ذہناً تیار نہیں تھے۔ یہ پابندی ایسے وقت میں لگی ہے جب ایک جانب پاکستان تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کے ذریعے وفاقی حکومت کا ناطقہ بند کررکھا ہے جس کے باعث اسے اسلام آباد سمیت دو ملحقہ اضلاع اٹک اور راولپنڈی کو فوج کے حوالے کرنا پڑا ہے، جب کہ دوسری جانب یہ پابندی ایک ایسے موقع پر لگائی گئی ہے جب پی ٹی ایم نے 11اکتوبر کو عوامی عدالت کے نام سے ایک بڑے عوامی شو کا نہ صرف اعلان کررکھا تھا بلکہ اس شو کے انعقاد کے لیے کئی ماہ سے تیاریاں بھی زور شور سے جاری تھیں۔ پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کا جواز اس کے ریاست مخالف بیانیے کو قرار دیا گیا ہے، حالانکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو پی ٹی ایم جب سے وجود میں آئی ہے تب سے اس کا احتجاج ہمیشہ پُرامن رہا ہے، اور اس نے کبھی بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے جلسوں اور احتجاجوں میں ریاست دشمن نعرے تواتر سے لگتے رہے ہیں، حتیٰ کہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر ملک توڑنے اور آزاد پختونستان تک کے فرسودہ گڑے مُردے اکھاڑنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ پی ٹی ایم جب سے بنی ہے اس کے متعلق ہمیشہ سے طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہوتی رہی ہیں۔ بعض لوگ اس کے تانے بانے ریاستی اداروں کے ٹی ٹی پی کو سیاسی میدان میں کائونٹر کرنے کی حکمت عملی سے جوڑتے رہے ہیں، کچھ لوگ یہ دُور کی کوڑی بھی لاتے رہے ہیں کہ اسے اے این پی اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی جیسی پرانی اور نظریاتی پختون قوم پرست جماعتوں کو کائونٹر کرنے کے لیے لانچ کیا گیا تھا۔ کچھ لوگ اسے پختون نوجوانوں کو جہادی کلچر سے ہٹانے اور انہیں قوم پرستی اور پختون حقوق کے نام پر انگیج اور راغب کرنے کے پراجیکٹ پر محمول کرتے رہے ہیں۔
محققین کا ایک گروپ اس کے قیام اور پرورش کو بلوچستان میں جاری شورش اور وہاں چلائی جانے والی آزادی کی تحریک کی پختون ڈیٹو کاپی کے طور پر بھی پیش کرتا رہا ہے جس کا مقصد بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت پاکستان کے حصے بخرے کرکے اس کے موجودہ وجود کو خاکم بدہن ختم کرکے اسے تین چار ٹکروں میں بانٹنا ہے۔ پی ٹی ایم پر اس کے قیام کے تھوڑے ہی عرصے بعد سابق افغان حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ گٹھ جوڑ کے سنگین الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ البتہ جب سے افغانستان میں طالبان برسراقتدار آئے ہیں تب سے یہ سوال حل طلب رہا ہے کہ افغانستان سے پختون اور تاجک قوم پرستوں کا بوریا بستر گول ہونے کے بعد اب پی ٹی ایم کا مستقبل اور اس کی اسٹریٹجی کیا ہوگی؟ کیونکہ اس کے جلسوں میں کئی مواقع پر افغانستان کا وہ پرانا پرچم لہرایا جاتا رہا ہے جس پر طالبان پابندی لگا چکے ہیں اور اب افغانستان کا قومی پرچم کلمہ طیبہ والا سفید جھنڈا قرار پاچکا ہے۔ پی ٹی ایم کے مجہول اور گنجلک بیانیے کے حوالے سے یہ باتیں بھی جواب طلب ہیں کہ دس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود پی ٹی ایم اب تک ایک رجسٹرڈ پارٹی کیوں نہیں بن سکی؟ ثانیاً اس عرصے میں اس نے اب تک اپنی تنظیم سازی کیوں مکمل نہیں کی؟ ثالثاً حالیہ 11اکتوبر کی عوامی عدالت صوبائی دارالحکومت پشاور کے بجائے قبائلی سرزمین پر لگانے کی حکمت عملی کے پیچھے آخر کیا عوامل کارفرما تھے؟ پی ٹی ایم پر پابندی کا حیران کن امر یہ ہے کہ دو دن گزرنے کے باوجود تادم تحریر اس پابندی کے خلاف اب تک پی ٹی ایم اور اس کے راہنما منظور پشتین یا کسی بھی دوسرے راہنما اور نہ ہی کسی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت بشمول اے این پی، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی، قومی وطن پارٹی، حتیٰ کہ کسی بلوچ قوم پرست جماعت نے بھی مذمتی یا احتجاجی بیان جاری نہیں کیا، جس سے لگتا ہے کہ اپنے بیانیے کی طرح پابندی کے خلاف بھی یہ جنگ پی ٹی ایم کو اپنے زور بازو پر لڑنی ہوگی۔