جدید مغربی تہذیب انسان کو جسمانی وجود سے آگے پہچانتی ہی نہیں
ہمیں 34 سال میں صحافت نہیں آئی تو ’’ڈاکٹری‘‘ کیا آئے گی! اور جسے ڈاکٹری نہ آتی ہو اسے Anatomy تو ہرگز نہیں آسکتی۔ اس پر یہ گمان کہ اسلام اور جدید مغرب کے تصورِاسلام کا روحانی اور نفسیاتی خاکہ بنانا چاہیے۔ یہ تو محال اور جنون والی بات ہوئی۔ اس پر یہ خوف الگ کہ یہاں بھی تہذیبی تصادم نکل آیا تو کیا ہوگا؟ آخر ایسی بھی کیا مغرب کی ایجنٹی؟
ویسے کوئی کرنا چاہے تو یہ کام زیادہ مشکل بھی نہیں۔ کرنے والے کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ کسی متقی مسلمان اور جدید مغربی انسان کی تصاویر ایک ساتھ شائع کردے اور تصاویر کے نیچے وضاحت کردے کہ ان کے بیرونی اور اندرونی اعضاء ایک جیسے ہوتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان میں کوئی فرق نہیں۔ مزید یہ کہ ان کی مماثلتیں وسیع تر انسانیت کا حصہ ہیں۔ آخر تمام انسانوں کی دو آنکھیں، دو کان، ایک ناک، ایک دل اور ایک جگر ہوتا ہے، انسان مسلمان ہو یا اس کا تعلق جدید مغرب سے ہو عام طور پر اس کی دو ہی آنتیں ہوتی ہیں جن میں سے ایک بڑی اور دوسری چھوٹی ہوتی ہے۔ لیجیے جسمانی خاکہ تیار۔ مگر روحانی اور نفسیاتی خاکہ؟ اس سلسلے میں مذکورہ تصاویر کے نیگیٹو کافی کام آسکتے ہیں۔
البتہ ٹھوس معنوں میں بات کی جائے تو جدید مغربی تہذیب انسان کو جسمانی وجود سے آگے پہچانتی ہی نہیں۔ خلیے ہوں یا عضویاتی یا عصبی نظام… سب کچھ جسمانی یا مادّی ہے۔ جدید مغربی تہذیب دماغ اور ذہن میں فرق کرتی ہے لیکن اس کا Mind بھی جسمانی حقیقت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید مغربی تہذیب میں انسان اوّل و آخر ایک منزلہ عمارت ہے۔
اس کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے دائرے میں وہ تین منزلہ عمارت کے مشابہ ہے، یعنی -1 جسم، -2 نفس، -3 روح
لیکن ٹھیریے، مغرب میں نفسیات کا علم اتنا ترقی کر گیا ہے کہ اس کے سامنے کسی علم کی کیا بساط ہے؟ حضرتِ فرائیڈ ہی کو لے لیجیے۔ اس کی نفسیات میں ہمیں تین بنیادی تصورات ملتے ہیں:
(1) Id
(2) Ego
(3) Super Ego
لیجیے یہاں بھی تین منزلہ عمارت برآمد ہوگئی۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ فرائیڈ کے یہاں Id جبلتِ محض ہے۔ Ego اسی جبلت کی انفرادی تنظیم یا انفرادی سماجی انا، اور Super Ego معاشرتی انا۔ اس طرح موخرالذکر دو منزلیں بھی دراصل پہلی ہی منزل کی توسیع ہیں۔ لیکن فرائیڈ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی فکر ان تصورات سے آگے گئی ہے۔ مثلاً اس کے یہاں Death Instinct یا جبلتِ مرگ کا تصور بھی ملتا ہے۔ ٹھیک ہے، لیکن یہاں بھی جبلت کا تصور اس کی جان نہیں چھوڑتا۔
ژونگ صاحب فرائیڈ کے شاگردِ رشید تھے۔ ان کے حوالے سے روحانیت کا خاصا غوغا برپا ہوا۔ ان کے یہاں آر کی ٹائپ کا تصور ملتا ہے۔ لیکن ژونگ کی آخری زمانے کی تحریروں میں صاف لکھا ہے کہ اس تصور کو روحانی نہ سمجھا جائے، اس کی جڑیں بھی جبلت ہی میں پیوست ہیں۔ رائخ اور ایڈلر کو تو یہاں رہنے ہی دیجیے، اس لیے کہ رائخ کے یہاں جسمانیت اور گہری ہوگئی ہے، اور ایڈلر فرائیڈ کے اثر سے نکلنے کے چکر میں روزمرہ کی نفسیات میں جا گھسا اور اس سے کبھی باہر نہ نکل سکا۔
فرائیڈ کے یہاں خواب اور ان کی تعبیرات بھی ہیں، مگر فرائیڈ کے خواب اور ان کی تعبیرات جنسی دائرے سے بہ مشکل ہی باہر نکلتی ہیں۔
اس کے مقابلے پر ہمارے علما اور صوفیائے کرام نے قرآن و سنت سے نفس کی جو وسیع اور عمیق کائنات اخذ کرکے دکھائی ہے، اس کے مطابق نفس کے سات درجے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح زمین اور آسمان کے سات سات طبق ہیں۔ نفس کے سات درجے یہ ہیں:
-1 نفسِ امارہ، -2 نفسِ لوامہ، -3 نفسِ مطمئنہ، -4 نفسِ ملہمہ (الہام یافتہ)، -5 نفسِ راضیہ، -6 نفسِ مرضیہ، -7 نفسِ مطلق۔
یہ ایک اعتبار سے انسانی وجود کے مرتبے ہیں اور اسلامی تہذیب کے دائرے میں انسانی نفس سات منزلہ عمارت ہے۔ اس لیے مولانا رومؒ نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ انسانی جسم (کی کمزوری) کا حال یہ ہے کہ اسے ایک مچھر بھی ہلا دیتا ہے۔ لیکن انسانی قلب سات آسمانوں پر محیط ہے۔ بہتر تویہ ہے کہ نفس کے ان درجوں کی تھوڑی بہت وضاحت بھی کی جائے، مگر یہ معاملہ پھر کبھی۔ البتہ یہاں یہ کہنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ جدید مغربی نفسیات کا نفس اماریت سے بہ مشکل آگے بڑھتا ہے اور اس میں لوامیت کی ایک آدھ ہلکی سی جھلک ہی آپاتی ہے، اور اسے بھی جدید مغربی نفسیات ’’کچلائو‘‘ یا Supression کا نام دے دیتی ہے۔
اسلام کے دائرے میں انسان کے روحانی مراتب ایک حدیثِ قدسی میں بیان ہوگئے ہیں۔ علما اور صوفیہ کے مطابق یہ مراتب بھی سات ہیں:
-1 انسانی سینے میں گوشت کا لوتھڑا
-2 گوشت کے لوتھڑے میں ’’قلب‘‘
-3 قلب میں ’’روح‘‘
-4 روح میں ’’فواد‘‘
-5 فواد میں ’’خِفا‘‘
-6 خِفا میں ’’اخفا‘‘
-7 اِخفا میں ’’انائے حقیقی‘‘
افسوس کہ بے چاری مغربی تہذیب میں روح کا تصور ہی سرے سے موجود نہیں، مگر اس کے باوجود کیوں نا اسلام کے انسان کو جدید مغربی انسان کے ساتھ محوِ رقص دکھا دیا جائے۔
انسان کے جسمانی وجود کی بات ہوتی ہے تو حواسِ خمسہ یا پانچ حواسوں کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پانچ حواس یہ ہیں:
-1 حسِ باصرہ… یعنی دیکھنے کی صلاحیت
-2 حس سامعہ… یعنی سننے کی قوت
-3 حسِ شامہ… یعنی سونگھنے کی اہلیت
-4 حسِ لامسہ… یعنی چھونے کی استعداد
-5 حسِ ذائقہ… یعنی چکھ کر محسوس کرنے کی قدرت
ان حواس کے ذیل میں اسلامی اور جدید مغربی تہذیب میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں تہذیبیں پانچوں حواسوں کی قائل ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب صرف انہی حواس سے حاصل ہونے والے علم پر انحصار کرتی ہے، جب کہ اسلامی تہذیب میں یہ علم صرف عالمِ شہادت تک محدود ہے جو اسلامی علم کی درجہ بندی میں علم کا پست ترین درجہ ہے، اس سے اوپر کئی اور درجے ہیں مثلاً عالمِ مثال، اعیان کا عالمِ ارواح۔ مغربی تہذیب میں افلاطون کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ وائٹ ہیٹر نے لکھا ہے کہ افلاطون کے بعد مغربی فلسفہ افلاطون کے Foot Note کے سوا کچھ نہیں۔ مگر اس افلاطون کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنے مکتوبات میں فرمایا ہے کہ افلاطون گمراہ ہوگیا کیوں کہ وہ عالمِ مثال سے آگے نہ جا سکا۔
جدید مغربی تہذیب میں ایک اور حس کا ذکر ملتا ہے۔ اسے عرفِ عام میں Common Sense کہتے ہیں۔ لیکن جدید مغربی تہذیب اس کے فہم سے تقریباً قاصر ہے، اور اس میں اِس حس کا بہت ہی خام تصور ہے، اور تصور کے مطابق یہ پانچوں حواس سے الگ کوئی حس ہے، لیکن اس حس کا اصل کام کیا ہے؟ کوئی یہ نہیں بتاتا۔ اسلامی تہذیب میں علم کی درجہ بندی کی جو کوششیں ہوئی ہیں ان میں فارابی کی درجہ بندی یا Classification کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فارابی نے common Sense کو ’’حسِ مشترکہ‘‘ کا نام دیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ حس تمام حواسِ خمسہ باہم مربوط کرکے ان پر قابو رکھتی ہے،گویا یہ حس تمام حواس میں شامل بھی ہے اور ان سے بلند بھی ہے، یہی اس کی اہمیت ہے، لیکن جدید مغربی تہذیب کو اس کا اندازہ بھی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تہذیب جن حواس کو جانتی ہے، جن پر اس کے علم کی اساس ہے، ان حواس کا بھی نہایت ہی ناقص علم اس کے پاس ہے۔
جدید مغربی تہذیب باطنی حواس کے تصور سے یکسر محروم تو نہیں ہے، لیکن اوّل تو وہ انہیں باطنی حواس ہی نہیں مانتی بلکہ ذہن کے مختلف افعال تصور کرتی ہے۔ پھر ان حواس کی فہرست بھی اس کے پاس مکمل نہیں۔ مثال کے طور پر فارابی کے یہاں بھی پانچ باطنی حواس کا ذکر ملتا ہے:
-1 القوت المصوریہ یا The Faculty of representation
-2 القوت الوہم یا The Faculty of estimation
-3 القوت الحافظہ یا The Faculty of memory
-4 القوت المخیلۂ انسانیہ یا The Faculty of Compositive Human Imagination
-5 القوت المخیلۂ حیوانیہ یا The Faculty of Compositive Animal Imagination
جدید مغربی تہذیب میں تخیل اور تصور کی انسانی اہلیت اور حافظے کا تصور موجود ہے۔ لیکن ’’وہم‘‘ کی باطنی حس کا بھی کوئی وجود ہے؟ جدید مغربی تہذیب کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ بلکہ اب تو بے چارے جدید مسلمانوں کو بھی معلوم نہیں کہ وہم ایک باطنی حس ہے۔ باطنی حواس کی یہ تقسیم بھی فارابی ہی کی ہے۔ ورنہ بعد کے مسلم مفکرین اور صوفیہ نے اس فہرست میں مزید اضافے کیے ہیں لیکن وہم کی حس کیا کرتی ہے، اس سے متعلق وہ بھی خاموش ہیں۔ میرؔ کا ایک شعر یاد آگیا:
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
اس شعر کے معنی پر گفتگو کے لیے تو الگ سے کالم لکھنا پڑے گا، چنانچہ یہاں فارابی کی مختصر بات سن لینی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’حسِ وہم‘‘ غیر مرئی چیزوں کو مرئی اشیاء کے ساتھ مربوط کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ لیجیے اسلامی تہذیب کے دائرے میں ’’توہم‘‘ بھی اتنابڑا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔
اب آپ میرؔ کا شعر دوبارہ پڑھ کر دیکھیے۔
ہمارے اس شاعر نے دو مصرعوں میں کیا کچھ سمیٹا ہے۔
افسوس کہ اس گفتگو میں بھی ثابت ہو گیا کہ اسلامی تہذیب کے مقابلے پر جدید مغربی تہذیب کتنی عسرت زدہ ہے اور ان کے درمیان کیسی کیسی عدم مطابقتیں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جدید مغربی تہذیب کے ظاہری اور پوشیدہ دلالوں سے اسلام، اسلامی فکر اور امتِ مسلمہ کو محفوظ رکھے، آمین۔