بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دورۂ اسلام آباد کی تصدیق کردی ہے، مگر انہوں نے اپنی طرف سے اس سوال کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی کہ یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے منجمد گلیشیر کو پگھلانے کا نقطہ ٔ آغاز ثابت ہوگا یا نہیں؟ ایس جے شنکر نے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام آباد جانے کا مطلب یہ نہیں کہ میں پاک بھارت تعلقات پر بات کرنے جارہا ہوں۔ میں ایس سی او کے ایک اچھے رکن کے طور پر جارہا ہوں‘‘۔ گویا کہ یہ دوٹوک انداز اختیار کرکے ایس جے شنکر نے پاک بھارت تعلقات کی تجدید کا امکان ہی ختم کردیا۔
ڈپلومیسی کی دنیا ہمہ رنگی ہوتی ہے، یہاں بظاہر لفظوں اور محاوروں میں ایک رنگ جھلکتا ہے تو پسِ دیوار کوئی اور ہی رنگ نکھر اور بکھر رہا ہوتا ہے۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی اسی کو کہا جاتا ہے۔ دو ملک بظاہر کشیدگی کے ماحول میں بیان بازی کرتے ہیں مگر کسی نہ کسی سطح پر ان کے درمیان درجہ حرارت کو کم کرنے کی باتیں بھی چل رہی ہوتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ تو ورق ورق پر ٹریک ٹوڈپلومیسی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ بالخصوص 1990ء کی دہائی میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کے متوازی بہتری اور امن کے دور کا آغاز اسی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا۔
آج کے پاک بھارت تعلقات کا المیہ یہ ہے کہ 5 اگست 2019ء کے فیصلے کے بعد عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنی اُفتاد ِ طبع کے مطابق بھارت اور نریندرمودی کے خلاف سخت لائن لی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس معاملے میں نرم خوئی کے قائل ہونے کے باوجود ان سخت فیصلوں کو نہ روک سکے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات اپنی تاریخ کی نچلی سطح پر پہنچ گئے۔ بعد میں امریکہ کے دبائو پر عمران خان کابینہ کے وزیر رزاق دائود اس فیصلے کو ریورس کرنے کی بات کرتے رہے، مگر ان فیصلوں کی ریورسل ممکن نہ ہوسکی۔ اس کے باوجود پردے کے پیچھے دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کچھ اس انداز سے چلتے رہے کہ دونوں جنگ بندی کی تجدید پر متفق ہوگئے۔ کچھ یہی صورتِ حال کرگل کی جنگ کے دوران بھی پیدا ہوئی تھی جب جنگ کے پہلو بہ پہلو بھارت کے غیر سرکاری نمائندے برجیش مشرا پاکستانی حکام کے ساتھ رابطوں میں مصروف تھے۔ پاک بھارت تعلقات کی اس کتھا میں ڈپلومیسی کے پیچھے ٹریک ٹو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
رواں ماہ 15سے18تاریخ تک اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہورہا ہے۔ یہ تنظیم یوریشین ملکوں پر مشتمل ہے، اور سب سے بڑی آبادی والی علاقائی تنظیم ہے جس میں روس، چین، ایران، بھارت، پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ اس طرح یہ اپنی طرز کی منفرد تنظیم ہے جو موجودہ بین الاقوامی منظر میں مغرب اور امریکہ کے اثر رسوخ سے باہر ہے، بلکہ اس کے بیشتر ممالک امریکہ کے اثر رسوخ کو محدود کرنے پر یقین رکھتے ہیں جن میں روس، چین اور ایران نمایاں ہیں۔ بھارت ایک طرف کواڈ کی صورت میں مغربی ملکوں کی چین مخالف کشتی کا سوار ہے تو دوسری طرف اس اہم علاقائی تنظیم کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔ پاکستان بھی امریکہ کے دبائو اور چین کی دوستی کے درمیان پنڈولم کی طرح مدتوں سے جھولتا چلا آرہا ہے۔
ایس جے شنکر کی طرف سے پاک بھارت تعلقات پر بات نہ کرنے کا مؤقف اپنی جگہ، مگر یہ کسی بھارتی اعلیٰ عہدیدار کی نو سال بعد پاکستان آمد ہے، اور یہی ایک اہم بات ہے۔ نو سال پہلے نریندرمودی لاہور میں میاں نوازشریف کی نواسی کی شادی میں اچانک پہنچے تھے۔ اس سے پہلے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج باضابطہ طور پر پاکستان آنے والی بھارت کی آخری اعلیٰ عہدیدار تھیں۔ اس دوران نگران وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری گیارہ سال بعد بھارت جانے والے پاکستان کے پہلے عہدیدار بنے تھے۔ یہ دورہ بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے ہی تھا، لیکن گیارہ سال بعد ہونے والا یہ دورہ بھی تعلقات کی برف پگھلانے کی بنیاد نہ بن سکا تھا۔ کسی حد تک پاکستانی وزیر خارجہ کو سردمہری کا ہی سامنا کرنا پڑا تھا۔
تعلقات کے اس دھارے میں تلخیوں کے کئی دور آتے ہیں جن میں پٹھانکوٹ اور اوڑی کے فوجی کیمپوں پر حملوں اور پلوامہ میں فوجیوں سے بھری بس کی تباہی، اور اس کے بعد بالاکوٹ، ابھی نندن اور آخرکار پانچ اگست جیسے واقعات شامل ہیں۔ یوں اس عرصے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخیوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچتا سوا ئے 2004ء کی جنگ بندی معاہدے کی تجدید کے، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کی لو میں تازہ ہوا کا واحد خوش گوار جھونکا ہے۔ اس جھونکے کی طاقت اس قدر زیادہ تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ایک حد سے اوپر نہ جا سکی۔ کنٹرول لائن اور سرحدوں پر رہنے والے شہریوں نے اس سے سُکھ کا سانس لیا۔ حتیٰ کہ پانچ اگست کا فیصلہ بھی اس رنگ میں بھنگ نہ ڈال سکا اور پاکستان اس تلخ گھونٹ کو پی گیا، البتہ اس نے ڈپلومیٹک ردعمل ضرور دیا۔ یہ وہی فیصلہ تھا جس نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین اور بھارت کے تعلقات کی ترتیب ہی بدل دی اور پہلی بار دونوں فوجیں ایک دوسرے پر خاردار ڈنڈوں، لاتوں اور گھونسوں سے پل پڑیں، جس کے نتیجے میں بھارت کے 20 اور چین کے 4 فوجی مارے گئے تھے۔ اب بھی مذاکرات اور فلیگ میٹنگز کے درجنوں ادوار کے باوجود اس کشیدگی اور حالات کا پرنالہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔
پاکستان ہی پانچ اگست کے بڑے اور سخت گیر ڈپلومیٹک ردعمل اور فیصلوں کی قید میں نہیں بلکہ بھارت کا حال بھی قریب قریب یہی ہے جہاں نریندر مودی نے اپنے ووٹرز اور میڈیا کو یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان خود پیدا کردہ مسائل کا شکار ہے، اس لیے اس مرحلے پر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہی نہیں۔ بھارت پاکستان کو نظرانداز کرکے دنیا سے اپنے تعلقات قائم کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ یہ انانیت کے سوا کچھ نہیں کہ ہمسائے کی اہمیت کو نظرانداز کرکے دُور والوں سے پینگیں بڑھائی جائیں۔ اب مودی کے لیے اس سخت لائن میں تبدیلی مشکل ہوکر رہ گئی ہے۔ پاکستان کے بارے میں اس سوچ کا اظہار ایس جے شنکر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں یہ کہتے ہوئے کیا تھا کہ پاکستان ’’کرما‘‘ یعنی مکافاتِ عمل یا علت وقوع کا شکار ہے۔ ہندو فلسفے میں اس نظریے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ایسے میں ایس جے شنکر کا دورہ ایک نئی ابتدا ہوسکتی ہے۔ بھارت اپنی انانیت کے خول سے باہر بھی آسکتا ہے، کیونکہ اب مودی بھی دواتحادی جماعتوں کی اُدھار کی اینٹوں پر اپنے اقتدار کی عمارت کھڑی کیے ہوئے ہیں اور پاکستان میں بھارت سے تجارت کی تڑپ اور طلب کا پیمانہ کبھی کبھی مختلف حیلوں بہانوں اور شخصیات کی خواہشات کی صورت چھلکتا چلا آرہا ہے۔ ان اشاروں پر تو اُستاد دامن کا یہ شعر ہی صادق آتا ہے:
بھاویں مونہو نہ کہیے پر وچوں وچی
کھوئے تسی وی ہو کھوئے اسی وی آں