سیاست، مفاہمت اور مزاحمت کی کہانی داخلی سیاست میں کون کہاں کھڑا ہے

اس کھیل میں جہاں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سمیت عدالت کے ایک مخصوص گروپ کا باہمی اتفاق ہے، وہیں ان کا بنیادی ٹارگٹ عمران خان کو دیوار سے لگانا بھی ہے۔

پاکستان میں سیاست، جمہوریت، مفاہمت، مزاحمت، آئین و قانون کی حکمرانی کا جو کھیل یا ڈرامہ قومی اسکرین پر چلایا جارہا ہے وہ ظاہرکرتا ہے کہ ہم طاقت کی حکمرانی اور افراد کی سیاسی اجارہ داری کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ جو بھی فریق اپنے اپنے سیاسی کارڈ کو سیاسی یا غیر سیاسی بنیادوں پر کھیل رہا ہے اُس کے پیچھے سیاست اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کا عمل کم اور ذاتیات پر مبنی سیاست کو طاقت دینے کا کھیل زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر سیاست، جمہوریت، آئین، قانون، مفاہمت اور مزاحمت کی سیاست کے تناظر کو بنیاد بناکر مختلف فریقوں کا جائزہ لیں تو اس میں امید کے پہلو کم اور غیر یقینی سیاست کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں۔ بالخصوص بڑی سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ یا ریاستی اداروں کے کنٹرول میں ہائبرڈ پلس سیاسی نظام عملی بنیادوں پر وینٹی لیٹر پر موجود ہے اور سب اس میں سے خود کو بچاکر اقتدار کی سیاست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد کے سیاسی منظرنامے پر شدید سیاسی دھند چھائی ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، حکومت اور حزبِ اختلاف بشمول پی ٹی آئی میں ایک بڑی سرد جنگ کے مناظر قومی سیاست پر غالب نظر آتے ہیں۔

اسلام آباد کی جاری سیاسی لڑائی کے چار مناظر کا جائزہ لینا ہوگا، جن میں اوّل سپریم کورٹ کی جانب سے جس عجلت، سیاسی عزائم اور سیاسی الجھنوں میں آئین کی شق 63-A کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت نے کالعدم قرار دیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے سیاست ہی کارفرما تھی، کیونکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی مدت مکمل کرنے سے پہلے مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری پر عملی طور پر حکومت کے لیے ایک بڑی سیاسی سہولت کاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ عدالت کی جانب سے اس فیصلے کے بعد عملی طور پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے کھیل کا دوبارہ آغاز کردیا گیا ہے، کیونکہ اگر حکومت کو مجوزہ آئینی ترامیم منظور کروانی ہیں تو یہ کام پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا، اور اسی بنیاد پر سپریم کورٹ کی جانب سے اس عدالتی فیصلے کے فریم ورک اور اس کے پیچھے موجود سیاسی عزائم کا انداز لگایا جاسکتا ہے۔ اس پورے کھیل میں موجودہ چیف جسٹس کے کردار پر بہت زیادہ تنقید ہورہی ہے مگر اس کے باوجود وہ جانے سے پہلے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر سمیت ججوں کی ایک بڑی تعداد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر شدید تحفظات رکھتی ہے اور مختلف خطوط کی مدد سے کھل کر ایک دوسرے کی مخالفت میں اپنا بیانیہ بھی پیش کیا جارہا ہے۔ عدالتی فیصلوں میں ہمیں قانون اور آئین سے زیادہ سیاست کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے، اور اسی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقسیم کے کھیل نے پورے عدالتی نظام کی ساکھ پر ہی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ کیونکہ مجوزہ آئینی ترامیم کے پیچھے بھی ایک سوچ عدالتی نظام کو کنٹرول کرنا اور اپنی مرضی کے فیصلے یقینی بنانا ہے۔ اس کھیل میں جہاں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سمیت عدالت کے ایک مخصوص گروپ کا باہمی اتفاق ہے، وہیں ان کا بنیادی ٹارگٹ عمران خان کو دیوار سے لگانا بھی ہے۔

دوئم: اسلام آباد اور دیگر شہروں میں پی ٹی آئی نے مشکل حالات اور ریاستی و حکومتی جبر کی موجودگی میں جس طرح اپنی شاندار مزاحمت دکھائی ہے، یا جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ بھی غیر معمولی ہے۔ پی ٹی آئی اور عمرا ن خان نے اپنے تمام سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین کو اپنی مزاحمت کی سیاست سے لاجواب کردیا ہے۔ یہ جو سیاسی پنڈت پیش گوئیاں کررہے تھے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان مزاحمت کی سیاست میں کچھ نہیں کرسکیں گے، سب غلط ثابت ہوئے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ، حکومت، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا کو باور کروایا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی حقیقت ہے اور اسے غیر سیاسی بنیادوں پر دیوار سے لگانے کی حکمت عملی کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تمام تر مخالفت کے باوجود قومی سیاست میں عمران خان اہمیت اختیار کیے ہوئے ہیں اور پوری قومی سیاست کا بیانیہ ان کی حمایت یا مخالفت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ اسی بنیاد پر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بغیر یا انہیں باہر نکال کر یہ سیاسی اور قانونی بحران حل نہیں ہوسکے گا۔ عمران خان کے پاس بھی دیگر سیاسی راہنماؤں کی طرح سیاسی ڈیل کے بہت سے آپشن تھے مگر وہ ابھی تک ایسی کسی ڈیل کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں جس کا عملی مظاہرہ ہمیں ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے راہنماؤں کی جانب سے دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ اس لیے آپ جتنی بھی عمران خان کی مخالفت کرتے ہوں، لیکن یہ کریڈٹ ان کو دینا ہوگا کہ وہ تن تنہا اس نظام میں اپنی اور اپنی جماعت کی سیاسی بقا کی جنگ لڑنے میں کہیں بھی پسپائی کا شکار نہیں ہوئے، اور اسی نکتے نے ان کو قومی سیاست میں پاپولر بھی بنایا اور ان کی اہمیت کو بھی ختم نہیں کیا جاسکا۔ بعض اہلِ دانش کا خیال ہے کہ عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات چاہتے ہیں اور وہ جمہوریت سے زیادہ طاقت ور حلقو ں کے ساتھ اقتدار کی سیاست کے حامی ہیں۔ ممکن ہے یہ تجزیہ درست ہو، مگر ابھی تک کی ان کی مزاحمت نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی حیران کیا ہوا ہے کہ وہ اپنی شرائط پر ہی مذاکرات چاہتے ہیں! جبکہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے مذاکرات تو چاہتی ہے مگر پی ٹی آئی کی شرائط پر نہیں بلکہ اپنی شرائط پر۔ اس وقت ان دونوں فریقوں میں اسی نکتے پر ایک بڑی سیاسی کشمکش اور نفسیاتی جنگ جاری ہے، دیکھنا ہوگا کہ حتمی مذاکراتی راؤنڈ میں یہ کھیل کس کے حق میں سامنے آتا ہے اور کون سیاسی سمجھوتہ کرتا ہے۔ اسی کھیل میں حکومت کی ایک حکمت عملی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول پیدا کیا جائے یا ان کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرکے خود کو سیاسی طور پر محفوظ رکھا جائے۔ اسی بنیاد پر حکومتی سیاسی کارڈ میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنا شامل ہے۔

سوئم: اسٹیبلشمنٹ اگرچہ پی ٹی آئی کے بارے میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی، اور نہ ہی عمران خان کو کوئی بڑا سیاسی ریلیف دینا چاہتی ہے، مگر اسٹیبلشمنٹ کے لیے خود موجودہ حکومت یا ان کا اپنا بنایا ہوا سیاسی نظام یا سیاسی بندوبست خود ان کے لیے مسائل پیدا کررہا ہے۔کیونکہ یہ نظام اور سیاسی بندوبست ایک طرف سیاسی بوجھ بن گیا ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ پر قومی سطح پر جس طرح تنقید بڑھ رہی ہے یا اس میں شدت کے پہلو دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی مختلف محاذوں پر مسائل کا سامنا ہے۔

چہارم: حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی بن گیا ہے کہ اِس بار انہیں عدالتی نظام سے بھی خاصی مزاحمت کا سامنا ہے، اور حکومت سمجھتی ہے کہ نئے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے آنے کے بعد اس کی اپنی پسپائی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ جس طریقے سے حکومت نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بچانے کی کوشش کی یا انہیں آئینی عدالت کی سربراہی دینے کا کھیل سامنے لایا گیا اس نے عدالتی محاذ پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے نئی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ اگر حکومت نے اپنے ایجنڈے کے تحت عدالت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو حکومت اور عدالتی محاذ پر ایک بڑا تصادم ہوسکتا ہے۔ اس وقت مختلف بار ایسوسی ایشنز ممکنہ مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف ہیں اورکھل کر ان ترامیم کی مخالفت کی جارہی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نئی منصوبہ بندی یا حکمت عملی کے تحت مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے کھیل کے دوسرے راؤنڈ میں کیا کچھ کرتی ہیں۔ اس کھیل میں ابھی نمبر کم ہیں اور حکومت 63-Aکے عدالتی فیصلے کے بعد اپنے نمبر مکمل کرکے آگے کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔ ایک طرف اسے مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت درکار ہے جس کے ملنے کے اشارے مل رہے ہیںتو دوسری طرف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان اسمبلی کی حمایت بھی درکار ہوگی۔ سب سے اہم پہلو مولانا فضل الرحمٰن کا فیصلہ ہوگا کہ وہ اپنا سیاسی وزن کس کی حمایت میں ڈالتے ہیں۔ کیونکہ اگر مولانا فضل الرحمٰن کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو حکومت ترامیم کی منظوری کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کس شکل میں منظور ہوتی ہیں، اور جو کچھ حکومت ان ترامیم کی مدد سے کرنا چاہتی ہے یا اس کے سہولت کار جو کرنا چاہتے ہیں وہ ممکن ہوسکے گا؟ مجوزہ آئینی ترامیم کے پہلے راؤنڈ میں مسلم لیگ ن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، کیا دوسرے راؤنڈ میں بلاول بھٹو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں مولانا فضل الرحمٰن کو رام کرسکیں گے؟ اگرچہ فرنٹ فٹ پر بلاول بھٹو ہیں مگر مولانا فضل الرحمٰن جانتے ہیں کہ اصل کھیل اسٹیبلشمنٹ، آصف زرداری اور شہبازشریف کا ہی ہے۔ دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اب پی ٹی آئی کے بارے میں طاقت کا کھیل یا طاقت کی حکمت عملی کارگر نہیں ہوسکے گی۔ کیونکہ اس حکمت عملی کے تحت پی ٹی آئی کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے اور قومی سیاست میں عمران خان کلیدی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ جس انداز سے حکمران طبقہ پی ٹی آئی کو ایک دہشت گرد جماعت کے طور پر پیش کرکے اس کے لیے سیاسی راستے بند کررہا ہے اس کا قومی سیاست میں حکمران طبقے کے خلاف ایک بڑا ردعمل پیدا ہورہا ہے۔ عمران خان کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر ہی کیا جاسکتا ہے یا کیا جانا چاہیے، اور جتنا غیر سیاسی حکمت عملی یا طاقت کا کھیل اختیار کرنے کی کوشش کی جائے گی، سیاسی تقسیم کا یہ کھیل ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ اس وقت عملی طور پر دیکھیں تو ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں شامل مسلم لیگ ن اور دیگر اتحادی جماعتیں ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی ہے، اور اس جیسا ایجنڈا جماعت اسلامی اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کا ہے جو حکومت کو مشکل وقت دے رہی ہیں۔ یہ لڑائی جو اس وقت بند گلی میں نظر آرہی ہے اس کے لیے سیاسی راستہ اور سیاسی حکمت عملی اختیار کرنا ہی دانش مندی ہوگی۔ کیونکہ جو قومی مسائل ہمیں داخلی، علاقائی یا عالمی سطح پر درپیش ہیں ان کا علاج تلاش کرنا ریاست اور حکمران طبقے کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے قومی سیاست میں سیاسی ایڈونچرز بدستور جاری ہیں اورہم بضد ہیں کہ اپنی سیاسی مہم جوئی کی بنیاد پر وہ سب کچھ کریں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔