ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ ،اسرائیل کا جوابی حملہ کسی وقت بھی متوقع

بیروت پر وحشیانہ حملے کے جواب میں یکم اکتوبر کو ایرانی میزائلوں کی یلغار سے تل ابیب کے ساتھ واشنگٹن بھی پریشان ہے۔ صدر بائیڈن اور نیتن یاہو دونوں نے ایرانی حملے کو ناکام و غیر مؤثر قراردیا، لیکن اب جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ضرب بڑی کاری تھی۔ آپریشن وعدہ صادق دوم کے نام سے ہونے والی اس کارروائی میں 181 فتاح اور خیبر شکن منجنیقی (Ballistic) میزائل داغے گئے۔ جدید میزائل شکن نظام سے لیس اردن، برطانیہ اور امریکی فضائیہ نے بہت سے میزائلوں کو اسرائیلی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کردیا، اوراردن سے بچ نکلنے والے میزائلوں کا راستہ روکنے کے لیے اسرائیلی حدود میں تعینات امریکی ساختہ آئرن ڈوم اور ایرو (Arrow)دفاعی نظام بھی مستعد تھے۔

لیکن امریکہ، برطانیہ، اردن اور اسرائیل کے فضائی دفاع کو روندتے ہوئے چند ایرانی میزائل صحرائے النقب (Negev Desert) میں واقع انتہائی حساس اڈے نیواتم (Nevatim) تک پہنچ گئے۔ امریکی ساختہ F-35 بمبار اسی اڈے سے اڑان بھرتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے پہلے کہا کہ ایرانی میزائل اڈے کے باہر گرے جس سے بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا، لیکن دو دن بعد جو تفصیلات سامنے آئیں اُن سے انکشاف ہوا کہ حملہ آور میزائلوں نے F-35کے ہینگر اور رن وے کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی اب بھی مُصر ہیں کہ حملے کے وقت ہینگر میں کوئی طیارہ موجود نہ تھا لیکن سیٹلائٹ تصاویر پر اٹھنے والا دھواں بتارہا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ نیواتم کے علاوہ سیٹلائٹ تصویروں پر دارالحکومت تل ابیب سے بارہ میل جنوب رہووتے (Rehovot)ضلع میں تل نوف (Tal Nof) کے فوجی ہوائی اڈے سے بھی دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔

تل نوف پر F-15 طیاروں کی مرمت و دیکھ بھال (Repair and Maintenance) کا کام ہوتا ہے۔ رہووتے ہی کے قریب ہدہشیران (Hod Hasharon)اڈے اور گدیرا (Gedera)عسکری ہائی اسکول پر بھی میزائل گرنے کی اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق ہد ہشیران میں ایک سو گھر متاثر ہوئے۔ اسی کے ساتھ ایرانی میزائلوں نے تل ابیب کے مضافات میں واقع خفیہ ایجنسی موساد کے مرکز اور فوج کے جاسوس ڈویژن المعروف Unit 8200کے ہیڈکوارٹر کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ موساد ہیڈکوارٹر کی دیوار کے ساتھ زمین پر 50 فٹ چوڑے گڑھے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمارت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ دفاعی نظام سے گرائے جانے والے میزائل کے ملبے کی زد میں آکرغربِ اردن کے شہر اریحا (Jericho)کا ایک 38 سالہ فلسطینی اسکول ٹیچر اپنی جان سے گیا۔

اسرائیل نے ایرانی حملے کا عبرت ناک انتقام لینے کا اعلان کیا ہے۔ قوم سے اپنے جذباتی خطاب میں وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ایران نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی اُسے بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ غربِِ اردن، غزہ، لبنان، یمن، شام اور ایران ’’برائی کا محور‘‘ ہیں۔ نیکی کی عالمی قوتوں کو برائی کے محور کے خلاف اسرائیل کی پشت پناہی کرنی چاہیے۔

آج کل وہاں عبرانی سالِ نو روش ہشنا (Rosh Hashanah) کی تعطیات ہیں اس لیے جوابی کارروائی یوم کپر کے بعد متوقع ہے۔ استغفار و احتساب کا یہ دوروزہ تہوار 11 اکتوبر کو منایا جائے گا۔ اسرائیلی جنگجو زور دے رہے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرکے اس خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا وقت آچکا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کی بھی خواہش ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے جوہری اثاثے پھونک دیے جائیں، لیکن امریکی قیادت کو یہ خوف بھی ہے کہ کہیں اس سے میدانِ جنگ مزید وسیع نہ ہوجائے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ’یک طرفہ ضبط‘ کا وقت گزرگیا، اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ 4 اکتوبر کو خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے انھوں نے اسرائیل کے ’پشت پناہوں‘ کو متنبہ کیا کہ ایران کے خلاف کارروائی میں اگر کسی ملک، گروہ یا قوت نے اسرائیل کا ساتھ دیا تو جوابی قدم میں اسرائیل کے سہولت کار بھی تہران کا ہدف ہوں گے۔

صدر بائیڈن نے اسرائیل کو شروع میں مشورہ دیا تھا کہ جوہری تنصیبات کے بجائے ایرانی تیل اور گیس کے میدانوں اور ٹینکرز کو نشانہ بنایا جائے۔ ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر لنڈسے گراہم کا بھی یہی خیال ہے کہ تیل صاف کرنے کے کارخانوں اور برآمدی بندرگاہوں کو تباہ کرکے تہران پر کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے۔ برا ہو حرص و ہوس کا کہ بڑی تیل کمپنیوں کے ساتھ خلیجی ممالک بھی یہی خواہش کررہے ہیں تاکہ ایرانی تیل کے غائب ہونے سے پیدا ہونے والے خلا کو منہ مانگے داموں پورا کیا جائے۔ ایرانی پیداوار کا تخمینہ 40 لاکھ بیرل یومیہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے لیے اپنی پیداوار میں پندرہ لاکھ بیرل یومیہ اضافہ کچھ مشکل نہیں۔ ایرانی مال کے بازار سے غائب ہونے پر تیل کی قیمت میں کم از کم 20 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

4 اکتوبر کو قصر مرمریں میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ تیل کی تنصیبات پر حملہ مناسب نہیں ہوگا اور اسرائیل کو اس کے متبادل ہدف کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کیلئے مرکزی امریکی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا تل ابیب پہنچ چکے ہیں۔

صدر بائیڈن امن کے بارے میں کتنے سنجیدہ اور مخلص ہیں، اس سے قطع نظر اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیل نے امریکی صدر کو کسی بڑے قدم سے پہلے اعتماد میں لینا تو دور کی بات انھیں مطلع کرنا بھی ترک کردیا ہے۔ دودن پہلے وال اسٹریٹ جرنل میں سینئر صحافی محترمہ لارا سلائگمین (Lara Seligman) اور ہفت روزہ ٹائم کی نمائندہ محترمہ ویرا برگنگرن (Vera Bergengren)کے شائع ہونے والے مضمون کے مطابق یروشلم پر واشنگٹن کے اثر رسوخ کا اب خاتمہ ہوچکا ہے اور اسرائیل اپنے دشمنوں کے خلاف امریکی رائے اور مؤقف کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے کارروائی کررہا ہے۔ فاضل کالم نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی اقدامات کے خلاف جارحانہ مؤقف اختیار کرنے سے ڈیموکریٹک پارٹی کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ سیاست کے جبر نے صدر بائیڈن کو مدد لینے والے اتحادی کے سامنے کاٹھ کا اُلّو بنادیا ہے۔

رہی بات زمینی صورتِ حال کی، تو وحشیانہ بمباری کے باوجود اسرائیلی افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ کارروائی کا آغاز گزشتہ ہفتے جنوبی لبنان کے شہر العدیسۃ پر چڑھائی سے ہوا جسے مزاحمت کاروں نے پسپا کردیا۔ لبنانیوں نے ایک درجن اسرائیلی سپاہیوں کی ہلاکت اور کئی ٹینک تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ اسرائیل نے اپنے دوافسران سمیت 8 فوجیوں کی موت کا اعتراف کیا ہے۔

شدید بمباری کے بعد اسرائیلیوں نے دوسرے دن جنوبی لبنان کے کوہ عامل کے دامن میں مارون الراس کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی لیکن شدید لڑائی کے بعد انھیں وہاں سے بھی پسپا ہونا پڑا۔ عسکری نامہ نگاروں نے علاقے سے ٹینک اور بکتر گاڑیاں اسرائیل کی طرف واپس آتی دیکھیں۔ مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ دشمن کے 17 سپاہی مارے گئے۔ اسرائیل نے اس جھڑپ میں اپنے ایک فوجی کے مارے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ اسی کے ساتھ مقامی کمانڈر نے کمک طلب کرلی اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 98th بکتربند ڈویژن کو میدانِ جنگ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آپریشن کے آغاز پر اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ اس محدود و مختصر آپریشن کے لیے چند سو فوجی کافی ہوں گے، لیکن اب لبنان کے محاذ پر دو ڈویژن یا 20 ہزار فوجی جھونک دیے گئے ہیں۔ زمین پر ناکامی سے تلملا کر اسرائیلی فوج نے بیروت کے رہائشی علاقوں پر شدید بمباری کرکے دل کا بوجھ کم کیا۔ موسلادھار بارش کی طرح برستے بموں سے اب تک 1400 لبنانی شہری جاں بحق، 30ہزار زخمی اور دس لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔

لبنان سے راکٹ حملے بھی جاری ہیں۔ 2 اکتوبر کو تل ابیب کا ساحلی علاقہ بت یام ڈرون حملے کا نشانہ بنا، اور نئے عبرانی سال پر غسلِ آفتابی سے لطف اندوز ہونے والوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ اسی دن صحت افزا پہاڑی مقام صفد پر چالیس راکٹ داغے گئے۔ 4 اکتوبر کو عراق سے مقبوضہ گولان پر ڈرون حملہ ہوا جس میں 2 اسرائیلی سپاہی ہلاک اور 24 شدید زخمی ہوگئے۔ گزشتہ اتوار ساحلی شہر حیفہ پر حملے کے دوران فضائی دفاعی نظام پراسرار طور پر مفلوج ہوگیا اور لبنانی راکٹوں نے اسرائیل کے اس تیسرے بڑے شہر میں تباہی مچادی۔ اسی دوران سرحدی شہر کریات شمعونہ بھی نشانہ بنا۔

ایران کے میزائل حملے اور لبنان و غزہ میں مزاحمت سے جھنجھلاکر اسرائیل سفارتی جارحیت پر اترآیا ہے۔ وزارتِ خارجہ نے اقوام متحدہ کے معتمدِ عام انتونیو گوتریس کو ’’ناپسندیدہ شخص‘‘ قراردے دیا، یعنی وہ تاحکم ثانی اسرائیل نہیں آسکتے۔ اس بات کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہاکہ میزائل حملے کے بعد مسٹر گوتریس نے ایران کا بطور جارح نام نہیں لیا جو صریح ناانصافی ہے۔ جناب گوتریس پرتگال کے شہری ہیں۔

لبنان کے ساتھ غزہ اور غربِ اردن پر بھی بمباری جاری ہے۔ جامعات، مساجد اور مدارس کے بعد اب خیمے اور چادریں گھیر کر بنائے گئے اسکول اسرائیلیوں کا ہدف ہیں، جس کا مقصد بچے کھچے اساتذہ کو ٹھکانے لگانا ہے۔ 3 اکتوبر کو شمالی غربِ اردن میں طولکرم پر شدید بمباری کی گئی جس سے معصوم بچوں سمیت 18 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 6 اکتوبر کو غزہ کی جبالیہ خیمہ بستی پر بمباری میں الجزیرہ کا19 سالہ صحافی حسن حماد جاں بحق ہوگیا۔ حماد کو اسرائیلی فوج ایک عرصے سے متنبہ کررہی تھی کہ وہ واقعات کی فلم بندی سے اجتناب کرے۔ غزہ میں اب تک قلم کے 175مزدور دنیا کو سچ بتانے کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہوئے مارے جاچکے ہیں۔

ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا کہ پیجر ٹائم بم پر گفتگو اب بھی جاری ہے۔ اس ہفتے امریکہ کے سابق وزیر دفاع اور سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پانیٹا (Leon Panetta) نے لبنان میں پیجر ٹائم بم واردات کو دہشت گردی قرار دیا۔ امریکی CBS ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو میں انھوں میں کہا ’’اس بات میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ یہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے‘‘۔ دوسری طرف برطانیہ کے بعد فرانس نے بھی اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند کردی ہے۔ 5 اکتوبر کو قومی ریڈیو France Interپرباتیں کرتے ہوئے صدر ایمانوئل میکراں نے کہاکہ غزہ اور لبنان میں خونریزی فوری طور پر بند ہونی چاہیے۔ اس تنازعے کا سفارتی و سیاسی حل وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، چنانچہ فرانس غزہ میں استعمال ہونے والے اسلحے کی فراہمی تاحکم ثانی معطل کررہا ہے۔

اور اب آخر میں یہودیوں کی مردم شماری کا ذکر۔ 2 اکتوبر کو نئے عبرانی سال پر جو اعداد وشمار شایع ہوئے ہیں ان کے مطابق دنیا میں یہودیوں کی کُل تعداد ایک کروڑ 58 لاکھ ہے۔ ایک سال کے دوران آبادی میں ایک لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا۔ اسرائیلی یہودیوں کی تعداد 73 لاکھ ہے، جبکہ 63لاکھ امریکہ میں آباد ہیں۔ 4لاکھ 38 ہزار 500 فرانس، اور 4لاکھ یہودی کینیڈا میں رہتے ہیں۔ ویسے تو ہندوستان، پاکستان اور ایران سمیت ساری دنیا میں یہودی آباد ہیں، لیکن اسرائیل، امریکہ، فرانس اور کینیڈا کے بعد ان کی بڑی تعداد برطانیہ، ارجنٹینا، جرمنی، روس، آسٹریلیا، برازیل، جنوبی افریقہ، ہنگری، میکسیکو اور ہالینڈ میں رہائش پذیر ہے۔ ہندوستانی ریاست منی پور میں یہودی کئی صدیوں سے آباد ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انتہا پسندوں نے وہاں ان کی عبادت گاہ کو آگ لگادی تھی جو دنیا کے قدیم ترین معبدوں (Synagogue) میں سے ایک ہے۔

حملے کے خوف، ہیجان اور غیر متوقع صورتِ حال کے پیش نظر ایک چوتھائی اسرائیلی ملک چھوڑنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق 24 فیصد افراد نے بیرون ملک رہائش کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ 21 فیصد شہری اسرائیل کے باہر ملازمت ڈھونڈ رہے ہیں، جبکہ دہری شہریت والے اپنے غیر ملکی پاسپورٹ کی تجدید کرا رہے ہیں۔ دلچسپ بات کہ اسرائیل چھوڑنے کے خواہش مندوں میں 36 فیصد سیاسی اعتبار سے حزب اختلاف کے حامی ہیں۔ (حوالہ: Ken Broadcasting Israel)
………٭٭٭………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔