جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی اپیل پر ملک بھر میں اسرائیل کے خلاف برسر پیکار فلسطین کے عوام، حریت پسندوں، غازیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا گیا، ایوانِ صدر میں کُل جماعتی کانفرنس ہوئی، اس کانفرنس کا بنیادی خیال حافظ نعیم الرحمٰن نے پیش کیا تھا۔ یہ بہت ہی اہم پیش رفت ہے کہ اب ہر سال یہ دن فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے طور منایا جاسکتا ہے۔ ملک بھر میں فلسطینی عوام کے لیے مظاہروں، ریلیوں اور ایوان صدر میں کُل جماعتی کانفرنس کے انعقاد نے ہر سال 7 اکتوبر کو یوم یکجہتیِ فلسطین منانے کی بنیاد ڈال دی ہے، جس کا کریڈٹ جماعت اسلامی اور اس کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کو ہی جائے گا۔
ایوانِ صدر میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی صدارت صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف نے کی۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر نوازشریف بھی شریک ہوئے، ان کے علاوہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، احسن اقبال، شیری رحمٰن، حافظ نعیم الرحمٰن، مولانا فضل الرحمٰن، ایمل ولی خان اور یوسف رضاگیلانی، خالد حسین، چودھری سالک حسین، خالد مقبول صدیقی، علیم خان اوردیگر راہنما بھی اے پی سی میں شریک ہوئے۔ تحریک انصاف کا کوئی نمائندہ کانفرنس میں شریک نہیں تھا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے ایوانِ صدر میں فلسطین پر ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت پر زور دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جائے، اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی اسرائیلی جارحیت پر کھل کر بات کی جائے، حماس کو نہ صرف فلسطینی عوام کی نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے بلکہ اس کا اسلام آباد میں دفتر بھی قائم کیا جائے، حکومتِ پاکستان کی جانب سے دوریاستی حل کا نہیں بلکہ صرف اور صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مؤقف اختیار کیا جائے، ایک اسلامی نظریاتی اور نیوکلیئر ریاست ہونے کے ناتے پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے کہ فلسطین و کشمیر پر مؤثر اور جان دار کردار ادا کرے۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف حکمت عملی کی تشکیل کے لیے خصوصی طور پر سعودی عرب اور ایران سے رابطے کرنا ہوں گے۔ بھارت اسرائیل کی حمایت کرتا ہے، اسے تنہا کرنے کی ضرورت ہے۔ نائب امیر لیاقت بلوچ اور ڈائریکٹر امورِ خارجہ جماعت اسلامی آصف لقمان قاضی بھی امیر جماعت کے ہمراہ تھے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ پر 85ہزار ٹن بارود پھینکا گیا، 80 سے 90فیصد شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، لگ بھگ دس ہزار لوگ ملبے تلے دفن ہیں، 43 ہزار شہادتیں ہوئیں جن میں 30 ہزار بچے اور خواتین شامل ہیں، اسرائیل نے سیکڑوں صحافیوں، ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو قتل کیا، جنیوا کنونشن کے مطابق غزہ میں نسل کُشی ہورہی ہے، ہمیں بطور ریاست ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے، دوریاستی حل کی تجاویز پاکستان اور اس کے بانی قائداعظم محمد علی جناحؒ کے تاریخی اور دیرینہ مؤقف سے روگردانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کے بعد ایران، لبنان اور یمن پر بھی حملہ آور ہے اور اسے امریکہ مسلسل اسلحہ فراہم کررہا ہے، گزشتہ پانچ برسوں میں واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کو 310بلین ڈالر کی براہِ راست مدد فراہم کی گئی، اسرائیل کا 80 فیصد اسلحہ امریکہ کا فراہم کردہ ہے جو ہمارے بچوں کے قتل کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ صہیونی ریاست اس لیے بے لگام ہے کیوں کہ اسے امریکہ اور برطانیہ کی سپورٹ حاصل ہے اور عرب اور اسلامی ممالک خاموش ہیں۔ اگر آج فلسطینی بچے شہید ہورہے ہیں تو حکمران جان لیں کہ یہ سلسلہ کل اُن کے بچوں تک بھی پہنچ جائے گا، یہ سلسلہ روکنا ہوگا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ معیشت کا مسئلہ ہے۔ ہمارا مؤقف ہے کہ آج معیشت اُس دور سے کمزور نہیں جب بانیِ پاکستان نے اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد قرار دے کر کہا تھا کہ اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ امریکہ کے دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں، اللہ پر بھروسا کرکے مظلوموں کی مدد کا اعلان کریں، معیشت کے راستے خودبخود کھل جائیں گے۔ حماس کے مجاہدین نے مادی وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی 7اکتوبر کو اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی کو شکست دے دی اور رازداری سے آپریشن کی تاریخ رقم کی۔ انھوں نے کہا کہ سازش کے تحت اس وقت شیعہ سنی فرقہ واریت پھیلانے کی کوششیں ہورہی ہیں، ہمیں جان لینا چاہیے کہ اسرائیلی میزائل شیعہ سنی کی تفریق کیے بغیر سب کو نشانہ بنا رہے ہیں، اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت اس کی مثال ہے۔ امیر جماعت نے کہا کہ امت کے لیڈران متحد ہوکر غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں، فلسطینی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ مجوزہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں آرمی چیفس کو بھی مدعو کیا جائے اور ان کے ساتھ پلاننگ کی جائے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا راستہ کیسے روکنا ہے۔ ہمیں سفارت کاری کو مؤثر کرنے کی ضرورت ہے، فرینڈز آف فلسطین سے بات کی جائے، جان دار مؤقف اپنانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی مالی امداد وقت کی ضرورت ہے، زخمیوں کی دیکھ بھال کے اقدامات کرنا ہوں گے، جماعت اسلامی الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت یہ سب کچھ کررہی ہے، چاہتے ہیں حکومتی سطح پر بھی مؤثر اقدامات ہوں، فلسطینی طلبہ کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے وہ دن دیکھے ہیں جب بھٹو صاحب کے دور میں یہاں پی ایل او کے دفتر ہوا کرتے تھے اور یاسرعرفات آتے جاتے رہتے تھے، میں خود یاسرعرفات سے بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ملاقات کرچکا ہوں۔ فلسطین اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے جس کے نتیجے میں 41 ہزار 800 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ صحت اور تعلیم کے انفرا اسٹرکچر اور عوامی املاک کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد اب اسرائیل نے اپنی اس سفاکانہ مہم میں مزید پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان، شام اور یمن کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانہ شروع کردیا ہے۔ اپنے ان اقدامات سے اسرائیل نہ صرف خطے کے امن، استحکام اور سیکورٹی کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اس کے اقدامات سے عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں اشتعال انگیزی میں اضافے پر شدید تشویش ہے اور وہ فلسطین اور لبنان کے خلاف اسرائیلی سفاکی اور جارحیت کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں جاری اس قتل عام سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے، اور ایسا کرکے وہ استثنیٰ کے کلچر، اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے عمل کو فروغ دے رہی ہے۔ فلسطین اور لبنان کے عوام آزادانہ طور پر ڈر اور خوف کے بغیر زندگی بسر کرنے کے مستحق ہیں، لہٰذا عالمی برادری اشتعال انگیزی میں کمی کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے۔ ہم عالمی برداری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے اور تنازع مزید نہ پھیل سکے۔ ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جارحیت کے خلاف تمام عالمی فورمز پر آواز اٹھاتے ہوئے فلسطین کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے رہیں گے۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر نوازشریف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ غریب فلسطینیوں پر ظلم کا بازار گرم ہے اور کوئی عسکری طاقت نہ ہونے کے باوجود ان پر جو ظلم ڈھایا جارہا ہے یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ فلسطین کے بچوں کی خون آلود لاشیں اور شہروں کو کھنڈر میں بدلتے دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے، جس طرح سے معصوم بچوں کو والدین کے سامنے شہید کیا جاتا ہے، ماؤں کی گود میں بچوں کو شہید کیا جاتا ہے، اس طرح کی سفاکی ہم نے آج تک نہیں دیکھی۔ اس وقت دنیا نے عجیب و غریب قسم کی پالیسی اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، وہ اسے انسانی مسئلہ نہیں سمجھتے، بلکہ ایک بہت بڑا طبقہ اسے مذہبی مسئلے کے طور پر سوچتا، سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔ جس طرح سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی ہوئی ہے اور اس کی منظور کردہ قراردادوں پر کوئی عمل نہیں ہورہا، وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سارا کام کررہے ہیں، انہیں پروا نہیں ہے کہ کون سی قرارداد منظور کی ہے، اور لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کو بھی کوئی فکر نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا، اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پاکستان نے 1948ء کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آج صورت حال تبدیل ہوگئی ہے، جہاں فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کی قراردادیں دنیا میں آنی چاہئیں وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے، لیکن گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی ہے اور اس کے بعد کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی، اب اس مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہورہی ہے۔ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے، اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ تجویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائشیا جیسےبڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے۔ آج جنگ ایران، لبنان اور یمن تک پھیل چکی ہے اور ایک چھوٹے سے جغرافیائی ملک نے پوری عرب دنیا کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، ہماری یہ کانفرنس معنی خیز ہونی چاہیے۔ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ دنیا کے مختلف ممالک کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا جاسکے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا ہے جہاں معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں، لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔ یہ پیغام بھیجنا ضروری ہے، اس لیے بھی کہ کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیج پر نہیں ہیں۔ آج کا یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطینی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔