غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کا ایک سال

غزہ فلسطین کے نہتے، مجبور اور محصور مسلمانوں کے خلاف ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا ایک برس، 7 اکتوبر 2024ء کو مکمل ہوا۔ اس ایک برس کے دوران اسرائیل پاگل بھینسے کی طرح پورے خطے میں ڈکارتا رہا اور ظلم و جبر کے نئے ریکارڈ دنیا کی تاریخ میں قائم کیے۔ اس ایک برس کے دوران بیالیس ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوئے، سترہ ہزار معصوم بچے اور چوبیس ہزار کے قریب خواتین شہادت کی سعادت حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد بھی ایک لاکھ کو چھو رہی ہے، دس ہزار سے زائد لاپتا بتائے جاتے ہیں۔ اس ایک برس میں دہشت گرد ریاست نے تمام انسانی قدروں کو ملیا میٹ کردیا ہے۔ اسپتال، مساجد، گرجا گھر، تعلیمی ادارے، امدادی کارکن اور مہاجرکیمپ تک اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں رہے۔ اس ایک برس میں کون سا ستم ہے جو غزہ کے مسلمانوں نے برداشت نہیں کیا! تاہم انہوں نے تہذیب و شائستگی کے دعویداروں کے چہروں کے نقاب بھی الٹ دیے ہیں۔ انسانیت کے علَم بردار اس ایک برس میں مکمل طور پر برہنہ دکھائی دیے۔ اس ایک برس میں انسانی حقوق کی دعویدار تنظیموں کا بدبودار کردار بھی دنیا پر عیاں ہوگیا۔ ان 365 دنوں میں عالمی امن و سلامتی کے ٹھیکیدار اقوام متحدہ اور اس جیسے دوسرے متعدد اداروں کی منفی کارکردگی کا نظارہ بھی دنیا نے بخوبی کیا۔ دوسروں کو غیر مہذب ہونے کے طعنے دینے والے امریکہ، یورپ اور دوسرے مغربی ممالک کا دوہرا اور گھنائونا کردار بھی دنیا پر واضح ہوگیا، جنہوں نے نہایت ڈھٹائی سے دہشت گرد اسرائیل کی سرپرستی اس عرصے میںجاری رکھی۔ سب سے شرمناک کردار ساٹھ کے قریب مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا رہا جن کی بزدلی اور بے حسی کا پردہ اس طرح چاک ہوا کہ کچھ بھی چھپا نہ رہ سکا۔ اسلامی تعاون تنظیم، عرب لیگ، نصف صد کے قریب مسلم ممالک کی ’’اسلامی فوج‘‘ اور نہ جانے کس کس مفاد کے تحفظ کے لیے بنائی گئی کون کون سی تنظیم کی اصلیت بھی نمایاں ہوکر سامنے آگئی۔ اس بے غیرتی اور بے حمیتی کا جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔

دوسری جانب سلام ہے غزہ کے مسلمانوں کے صبر و استقلال کو، جنہوں نے عزیمت و استقامت کی وہ داستانیں آزمائش و مصیبت کی ان گھڑیوں میں رقم کی ہیں، تاریخ جن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حالیہ تاریخ میں جس قدر مصائب و مشکلات کا سامنا ہمارے ان فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں نے کیا، کوئی دوسری قوم اس سے شاید ہی دوچار ہوئی ہو، مگر انہوں نے سرفروشی کی تمنا دل میں بسائے نہایت بلند حوصلوں، جرأت اور استقامت سے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا۔ معصوم بچے، عفت مآب خواتین اور بزرگ ملبے کا ڈھیر بنی عمارتوں کے کھنڈرات پر بے گور و کفن لاشوں کے سرہانے بیٹھے یہی کہتے سنائی دیے ؎

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

غزہ کے مسلمانوں کی ایک برس کی جدوجہد حق کی خاطر جاں فروشی کی عظیم داستانیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اپنوں اور پرایوں کے ظلم و ستم کو جس خندہ پیشانی سے انہوں نے برداشت کیا، کسی دوسری قوم کی تاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ ہر طرح کے حالات میں انہوں نے بلند ہمتی اور صبر و ثبات سے اپنے خالق و مالک ہی سے امیدیں وابستہ کیں کہ ؎

کیا غم ہے اگر ساری خدائی بھی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے

غم و اندوہ سے بھرپور اس ایک برس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس عرصے میں جب کہ دنیا بھر کے خصوصاً مسلمان حکمران بے حسی کی چادر تانے غفلت کی نیند سورہے تھے، ایک طبقہ مسلسل انہیں خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے کوشاں رہا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی داد کی مستحق ہے جس نے کسی بھی مرحلے پر اپنی اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریوں کو فراموش نہیں کیا اور حکمرانوں اور عوام کو متوجہ کرنے کے لیے جو کچھ بن پڑا اس میں کسر نہیں چھوڑی۔ جماعت کے کارکنوں نے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے اگر ایک طرف مسلم دنیا کو بیدار کرنے کی مؤثر کوشش کی، تو دوسری جانب ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ کے ذریعے اہلِ خیر کے تعاون سے غزہ کے مصیبت زدہ بھائیوں کو اپنے مخلص رضا کاروں کے ذریعے ہر ممکن مدد پہنچائی اور کم و بیش تین ہزار ٹن امدادی سامان فراہم کرنے کے علاوہ ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے کے وفود متاثرین کی مدد کے لیے بھیجے۔ اب ایک برس مکمل ہوا تو جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف اور دیگر سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کے ضمن میں ان کی ذمہ داریوں کی جانب متوجہ کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن کی یہ مخلصانہ کوششیں کامیاب ہوئیں اور پوری قوم نے سات اکتوبر کو متحد ہوکر ’’یوم یکجہتیِ فلسطین‘‘ منایا۔ دیگر سرگرمیوں کے علاوہ اس موقع پر ایوانِ صدر میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہبازشریف کی میزبانی میں ایک مؤثر ’’کُل جماعتی کانفرنس‘‘ بھی منعقد کی گئی جس میں صدر اور وزیراعظم کے علاوہ نواز لیگ کے صدر محمد نواز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اور دیگر ممتاز سیاسی شخصیات نے بھی خطاب کیا اور غزہ میں جاری انسانیت سوز صورتِ حال سے متعلق اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ یقیناً حوصلہ افزا اور مثبت سمت میں ایک قابلِ قدر پیش رفت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رہنمائوں کو اپنی تقاریر کی روشنی میں عملی پیش قدمی کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ (آمین)

(حامد ریاض ڈوگر)