دولت اور اس کا حقیقی مصرف

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے سود کھانے والے ،سود لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔
(مسلم ،کتاب الربا)

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر پوچھا گیا کہ ’’مومن کنجوس ہوسکتا ہے؟‘‘

فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر پوچھا گیا کہ ’’مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں‘‘۔
(مالک، بیہقی)۔
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ۔

’’شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بخل کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، اور اللہ کشائش والا، علم والا ہے‘‘۔

آیہ بالا سورہ بقر رکوع 37 میں واقع ہوئی ہے، اوپر سے یہ مضمون چلا آرہا ہے کہ مسلمانوں کو رسم و رواج کی مد میں، ریا و نمائش، جاہ و نفس کی راہ میں خرچ کرنے سے بچنا چاہیے، اور اپنی دولت اللہ کی رضا جوئی کے لیے نیک کاموں میں خرچ کرنی چاہیے، اور اس خرچ کو فضول و لاحاصل نہ سمجھنا چاہیے۔ اس آیت میں مذکور یہ ہے کہ راہِ خدا میں، کارِ خیر میں خرچ کرنے سے شیطان طرح طرح سے آکر روکتا ہے، دل میں مفلس و تنگ دست ہوجانے کے وسوسے پیدا کرتا ہے، اور مال کو بچا بچا کر، جوڑ جوڑ کر رکھنے کی ترغیب دیا کرتا ہے، لیکن اللہ جس کے ہاتھ میں سارے اسباب کشائش کی کنجی ہے اور جو تمام دانائوں سے بڑھ کر دانا ہے اس نے افلاس و امارت، ناداری و خوش حالی کے قوانین ہی دوسرے رکھے ہیں، وہ اپنی طرف سے اطمینان دلاتا ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے ہرگز کوئی مصیبت نہیں آجاتی، بلکہ اس کے فضل و کرم ہی کا نزول ہوتا ہے۔

شیطان برابر یہ تحریک دل میں ڈالتا رہتا ہے کہ صدقات میں روپیہ نہ اٹھائو، زکوٰۃ نہ ادا کرو، حج میں روپیہ نہ اٹھائو، امت کی فلاح و بہبود کے کاموں میں چندہ نہ دو، غریبوں، بے کسوں، یتیموں اور رانڈوں کی خبر گیری کی فکر میں کہاں تک پڑوگے کہ ان طریقوں سے روپیہ گھٹنے لگے گا اور چند روز میں تم خود زیر بار و قرض دار ہوکر مفلس و نادار ہوجائو گے (یہی معنی ہیں فحشا کے، اس بداخلاقی کے جو طبیعت میں بخل سے پیدا ہوتی ہے)، بلکہ اپنی دولت کو بڑے بڑے بینکوں میں محفوظ کردو، اپنے سرمایے سے ساہوکاری شروع کردو، اپنے روپیہ کو کرایے پر چلانا شروع کردو، کہ اس سے بجائے گھٹنے کے بڑھنے لگے گا، ایک ایک کرکے چار چار ملنے لگیں گے، ہر قسم کے لطف و عیش، عزت و نمود کا سامان خریدا جاسکے گا، کہ یہی حاصلِ حیات و مقصدِ زندگی ہے۔ یہ تمام تحریکیں جس ذریعے سے پیدا ہوتی ہیں ان کا ایک جامع نام قرآن پاک نے شیطان فرمادیا ہے۔

اب ارشاد ہو کہ آج آپ کے گرد و پیش یہی صورتِ حال ہے یا نہیں؟ آپ کے دوستوں میں، آپ کے ملنے والوں میں، آپ کے جاننے والوں میں کتنے ایسے ہیں جو آپ کو سفرِ حج کے لیے آمادہ کرتے ہیں؟ جو آپ کو پابندی کے ساتھ زکوٰۃ نکالنے کی صلاح دیتے رہتے ہیں؟ پھر جب آپ ازخود کسی نیک مقصد میں چندہ دینے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں تو کتنے ایسے ہیں جو اس سے آپ کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے، اور قومی کارکنوں کے ’’چندہ کھا جانے‘‘ کی داستانیں سنا سنا کر آپ کو اُن کے خلاف نہیں ورغلایا کرتے؟ اس کے برخلاف کس کثرت سے ہر اخبار، ہر انجمن، ہر لیکچرار کے ذریعے سے آج یہ شیطانی تحریک آپ کے دل میں ڈالی جارہی ہے کہ روپیہ کو سودی کاروبار میں لگائو، بیمہ کمپنیاں قائم کرو، ساہوکاری اور مہاجنی کا پیشہ اختیار کرو، اور اپنا اعتماد اپنے پیدا کرنے والے اور ہر شئے پر قدرت رکھنے والے سے ہٹاکر بینک کے منیجروں اور بیمہ کمپنیوں کے ڈائریکٹروں پر قائم کرو! اللہ پر اعتماد و توکل کا نام زبان پر ’’ترکِ دنیا‘‘ کی تعلیم دینا ہے، ’’رہبانیت‘‘ ہے، جمود و تاریک خیالی ہے۔ لیکن وہی توکل و اعتماد اگر بجائے دولت آفریں کے دولت پر قائم کیجیے، گورنمنٹ کے پرامسری نوٹوں پر، ڈاک خانہ کے تمسکات پر، بینک کے حصوں پر جتنا بھی چاہے آنکھ بند کرکے قائم کیجیے عین دانش مندی، روشن خیالی ہے، ضروریاتِ زمانہ کی نبض شناسی ہے، امت کی مخلصانہ خدمت گزاری ہے اور قوم کی مصلحانہ خیر اندیشی ہے۔