احمد جاوید بڑے آدمی ہیں، دردمند شاعر، مسلمہ درویش اور مفکر۔ ان کا حرف تحسین سلیمان ذی عالی شان ہے۔ ’’تہذیب سخن‘‘ میں انہوں نے عصر رواں کے ایک نامور شاعر کو موضوع سخن بنایا ہے۔
افتخار عارف کی شاعری میں ادراک و عرفان ہے۔ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ادب، تاریخ اور تصوف کا ایک منبع ہیں۔ مطالعے کی وسعت سونے پر سہاگہ۔ ان سب سے بڑھ کر درد اور احساس کی فراوانی ہے۔ سرکار رسالت مآبؐ سے ان کی وابستگی سچی ہے۔ شہر مدینہ میں نعتیں پڑھیں اور ڈوبتے دل پر قرار اترتے پایا۔
جناب احمد جاوید کی تصنیف ’’تہذیب سخن‘‘ اردو ادب شناسی میں ایک نئی سمت بلکہ ایک جدید صنف کا گراں قدر اور قابل ستائش اضافہ ہے۔ مصنف فلسفہ کلام، تصوف اور اردو ادب کی تاریخ کے وسیع اور گہرے مطالعے میں استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں انتقادیات میں سخن کی تہذیب کے حوالے زبان، اسلوب، مضمون اور خیال رہتے ہیں۔
یہ کتاب چند زبانی نشستوں کی تحریری صورت ہے جس میں ہماری ملاقات اپنے عہد کی دو منفرد شخصیات سے ہوتی ہے۔ جناب افتخار عارف جو یہاں ممدوح ہیں اور جناب احمد جو مداح ہیں، احمد جاوید کی نگاہ ’’مثل شعار آفتاب‘‘ ہے۔ چنانچہ ان کی مداحی سطح اور اکہری نہیں، بہت گہری تہ دار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ افتخار صاحب کی ذات کے ان نہاں خانوں تک رسائی چاہتے ہیں جو خود افتخار صاحب کی حد ادراک سے ماورا ہیں اور جن کی جھلک صرف ان کی شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کی نگاہ میں افتخار صاحب کی زندگی ایک المیہ زندگی ہے جو نشاطیہ آہنگ میں گویا ’’کانٹوں پر بھول پروتے‘‘ ہوئے گزاری گئی۔ احمد جاوید صاحب نے جناب افتخار عارف کی شاعری کا تجزیہ بہت جم کر اور بہت عمیق سطح پر کیا ہے اور اس سلسلے میں ان کی مذہبی شاعری کو بہ طور خاص دقت نظر سے دیکھتے اور پرکھتے ہوئے ان کے بعض فن پاروں کا مفصل مطالعہ پیش کیا ہے۔ یہ مطالعہ بہ یک وقت ابلاغی، ادبی، فلسفیانہ اور نفسیاتی تہیں رکھتا ہے اور جس قدر ہمیں ممدوح کے بارے میں بتاتا ہے اتنی ہی یا شاید اس سے بھی زیادہ مداح کے درون و بطون کی آئینہ داری کرتا ہے۔
محمد حمید شاہد لکھتے ہیں: ’’تہذیب سخن‘‘ میں معاملہ یوں لگتا ہے جیسے وہ افتخار عارف کے کلام کی تعبیر اور تفہیم کے باغ میں اپنے وجود کے دروازے سے داخل ہوئے ہیں کچھ اس طرح کہ افتخار عارف کا وجودی شعری تجربہ خود ان کا اپنا محبوب علاقہ ہوگیا ہے۔ آپ افتخار عارف سے ملے ہوں گے مگر جس پہلو سے اور جس تخلیقی و فکری اوج سے احمد جاوید نے ان کی شخصیت کا خاکہ کھینچا ہے، اپنی برداشت اور احمد جاوید کے لفظوں میں انسان سمائی سے زیادہ اکیلے پن کی ابتلا کو سہنے والا، روح اور جسم کا زندہ بزرخ الم اور نشاط کے درمیان ایسی کنواری تنہائی جھیلنے والا جس نے ان کے شعور اور طرز احساس میں وحدت پیدا کرکے انہیں منفرد کردیا ہے۔
مزید لکھتے ہیں: سچ کہوں تو ’’تہذیب سخن‘‘ محض ایک کتاب نہیں ایک واقعہ ہے۔ ادبی دنیا کا اور بہ طور خاص غزل کی تنقیدی تاریخ کا ایک اہم واقعہ۔ کاش اپنی تہذیبی روایت اور تخلیقی عمل سے بچھڑی اور بچھڑی ہوئی بانجھ مشقت میں پڑی ہوئی اردو تنقید اس واقعے سے کچھ سیکھ پائے۔ ایسا ممکن ہوسکتا ہے کہ احمدجاوید نے اس راہ کو دور تک روشن کردیا ہے۔
یہ کتاب افتخار عارف کی شاعری کی روحانی جہات کے ساتھ ساتھ ان کی جمالیاتی، لسانی، اخلاقی اور اسلوبیاتی جہات کو بھی قاری پر روشن کرتی ہے۔
کتاب ہر رخ سے قابل مطالعہ اور خصوصاً نئی نسل کے لئے روشنی فکر و نظر کا وسیلہ ہے۔ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے، جن کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں۔ ایک فرد ایک شاعر، نقد غزل، کلچر اور شعر، دیار اور خواب، شعر اور کچھ بڑے سوال، مقام عقیدت، کوئی شہہ سوار بھیج، کتاب اور روشنی، حرف شرف، پیادہ پاہو جا، علیؓ کا عاشق کون اور شہر علم کے دروازے پر۔
کتاب خوب صورت سرورق، عمدہ کاغذ اور بہترین حروف خوانی کے ساتھ عمدہ طبع ہوئی ہے۔