خاتم النبیینﷺ

انگریزوں کے پروردہ جھوٹے مدعیِ نبوت مرزا قادیانی کی زندگی میں جن علمائے اسلام نے عقیدہ ختمِ نبوت کا تحفظ اور قادیانیت کا رد کیا اُن میں ایک اہم نام سید پیر مہر علی شاہ چشتی گولڑویؒ (1859ء۔1937ء) کا ہے، جنھوں نے تحریر و تقریر اور تصنیف و تالیف کے میدان میں مرزا غلام احمد قادیانی کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ پیر مہر علی شاہ نے ردِّ قادیانیت کے سلسلے میں کئی کتابیں لکھیں جن میں ھدیۃ الرسول، شمس الھدایہ فی اثبات حیات المسیح، اور سیف چشتیائی شامل ہیں۔ آپ کی یہ تینوں کتابیں ردِّ قادیانیت میں بے نظیر شاہکار قرار دی جاتی ہیں، جن کا مختصر تعارف حسبِ ذیل ہے:

ردِّ قادیانیت کے سلسلے میں پیرمہر علی شاہ نے سب سے پہلے مرزا قادیانی کی مشہور کتاب ایّام الصلح (فارسی) اور دیگر رسائل کے رد میں 1899ء میں کتاب ہدیۃ الرسول فارسی زبان ہی میں تالیف فرمائی، کیونکہ ایّام الصلح کو مرزا قادیانی نے کابل وغیرہ کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے فارسی زبان میں تحریر کیا تھا اور اس کا مؤثر رد کرنا ضروری تھا۔

بعد ازاں پیرصاحب نے ھدیۃ الرسول کے مضامین کو اردو زبان میں ڈھال کر 1900ء میں شمس الھدایہ فی اثبات حیات المسیح کے نام سے ایک معرکہ آراء کتاب سپردِ قرطا س کی جس سے ایوانِ قادیانیت لرز اٹھا۔ ہدیۃ الرسول کے بارے میں قادیانیوں کو خبر تو ہوچکی تھی اور اس کتاب کا ذکر ان کے اردو رسالے ’’شمس بازغہ‘‘ میں بھی موجود ہے، تاہم وہ اس بناء پر مطمئن تھے کہ ہندوستان میں فارسی دان طبقہ چونکہ قلیل تعداد میں ہے اس لیے پیرصاحبؒ کی اس کتاب کا کوئی وسیع اثر نہیں ہوگا۔ لیکن جب آپؒ کی مذکورہ بالا اردو کتاب منظرعام پر آئی تو قادیانیوں میں اضطراب پیدا ہونا لازمی امرتھا۔ مرزا قادیانی نے کتاب کا جواب دینے کے بجائے پیر مہر علی شاہؒ کو لاہور میں مناظرے کی دعوت دے دی۔ آپؒ نے مناظرے کی دعوت مع تمام شرائط حسبِ منشا مرزا قادیانی قبول کرلی اور حسبِ وعدہ 24 اگست 1900ء کو لاہور میں تشریف فرما ہوگئے۔ مگر جھوٹے مدعیِ نبوت مرزا قادیانی کو لاہور آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ پیر صاحب نے لاہور میں چھے دن قیام کیا۔ آخرکار 27 اگست کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے کی مکمل تفصیلات ’’جلسہ روئیدادِ اسلامیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

جب مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’اعجاز المسیح‘‘ لکھی جو سورہ فاتحہ کی عربی تفسیر ہے، اور اس کے امتی مولوی احسن امروہوی نے شمس بازغہ لکھی، ان دونوں کتابوں کے رد میں پیر مہر علی شاہؒ نے سیف چشتیائی(1902ء) تحریر فرمائی۔ اس میں اعجازالمسیح کی صرف و نحو، لغت و بلاغت، معانی و منطق اورمحاورہ کی غلطیاں، نیز سرقہ، تحریف اور التباس کی ایک سو غلطیوں کی نشاندہی کرکے بتایا کہ یہ کتاب فصاحت و بلاغت کے معیار کو چھو بھی نہیں سکتی۔ اسی طرح شمس بازغہ کا بھی ردِّ بلیغ فرمایا۔

ردِّ قادیانیت کے ضمن میں پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کی کتاب ’’مکتوباتِ طیبات‘‘ سے ماخوذ ایک مختصر رسالہ بھی شامل ہے جو حیاتِ مسیح سے متعلق اُن آٹھ سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے جو مشہور غیر مقلد مناظر مولوی حبیب اللہ امرتسری نے پیر صاحب سے پوچھے تھے۔ مکتوباتِ طیبات کا سن ِ تصنیف 1904ء ہے۔

1907ء میں جھوٹی پیشین گوئیوں کے عادی مرزا قادیانی نے پیش گوئی کی کہ ’’جیٹھ‘‘ کے مہینے تک پیر مہر علی شاہؒ اس دارِ فانی سے کوچ کرجائیں گے۔ پیر صاحب نے اپنے محبین کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ: ’’موت تو برحق ہے، ہر کسی کو مرنا ہے، مگر تسلّی رکھو، اس جیٹھ ہم نہیں مرتے‘‘۔

خدا کی شان غلامِ خاتم النبیین کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کس طرح بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوئے کہ جب جیٹھ کا مہینہ آیا تو خود مرزا قادیانی لاہور میں ہیضے میں مبتلا ہوکر عبرت ناک موت کا شکار ہوگیا۔

پیشِ نظر کتاب ’’خاتم النبیینﷺ‘‘پیر مہر علی شاہ کی مذکورہ بالا کتابوں کے دروس پرمشتمل ہے۔ یہ دروس فاضل نوجوان، عربی زبان و ادب کے محقق اور استاد ڈاکٹر کامران قریشی نے کراچی کے ایک تعلیمی ادارے (جامعہ معینیہ،ماڈل ٹائون) میں دیے تھے۔ افادہ عام کی غرض سے انھیں کتابی صورت میں شائع کردیا گیا ہے۔ پیر مہر علی شاہ کی تعلیمات کی روشنی میں قادیانیت کے رد میں یہ آسان اور عام فہم زبان میں 15 مختصر اسباق ہیں جنھیں ردِّ قادیانیت کا ایک مختصر نصاب بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان دروس میں فاضل مؤلف نے درجِ ذیل موضوعات پر گفتگو کی ہے:

تفسیر قرآن کے بنیادی اصول، نبی کا منصب عطا کردہ ہے کسبی نہیں ہے، ختم ِنبوت کے شرعی و اصطلاحی معنی، وفات مسیح علیہ السلام، معراجِ جسمانی کا انکار، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت، تصوف سے متعلق کی جانے والی ہرزہ سرائی اورقادیانیوں کی منافقت۔

ردِ ّقادیانیت کے ضمن میں اس کاوش پرڈاکٹر محمد کامران قریشی اور ان کے جملہ معاونین بالخصوص علامہ فیصل عزیز بندگی، محمد زکریا شیخ اشرفی، علامہ نعمان خلیل اور طارق بن آزاد لائقِ تحسین ہیں۔