مقبوضہ جموں وکشمیر کے انتخابی نتائج کچھ بھی ہو ں بھارت کو اس علاقے کی ریاستی حیثیت بحال کرنا ہی ہے ۔مودی حکومت کشمیریوں کے ہاتھ سے چھینی گئی چیز کو دوبارہ تحفے کے انداز میں واپس لوٹانا چاہتی ہے تاکہ کشمیریوں کی آنے والی نسلیں اس دریا دِلی پر مدتوں تک بھارت اور نریندر مودی کی احسان مند رہیں ۔آج کی نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ عمر رسید ہ لوگ بھی اس دریا دلی اور سخاوت کے کھیل کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔اس کا ثبوت کشمیر کے حالیہ انتخابات میں بھارتی ٹی وی چینلز کے عوامی سروے ہیں جن کے دوران کسی ایک کشمیری نے بھی نریندر مودی کے فیصلے کی حمایت نہیں کی۔بھارتی ٹی وی چینلز کے نمائندوں نے ہر ممکن طریقے سے ایک عام کشمیری کے منہ سے یہ بات اگلوانے کی کوشش کی کہ نریندرمودی کا کشمیر کی شناخت کے خاتمے کا فیصلہ ان کے قومی مفاد میں ہے مگر انہیں بری طرح ناکامی ہوئی ۔ان نمائندوں نے کشمیریوں کو یہ احسان جتلانے کی کوشش کی کہ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد کشمیرمیں پتھر بازی ختم ہوگئی جس پر انہیں یہ جواب سننے کو ملا پتھر بازی ختم ہو گئی مگر اس کا جواز باقی ہے ۔کشمیری عوام محتاط انداز میں بھارتی نمائندوں کو یہ باور کراتے رہے قبرستان جیسے امن اور سکوتِ مرگ کی تہہ میں مسئلہ بدستور سلگ رہا ہے ۔انتخابات کے آخری مرحلے میں پہلی بار انتخابات کے حوالے سے ایک توانا آوا ز میرواعظ عمر فاورق کی سامنے آئی۔یہ وہ آواز تھی جس کی کمی محسوس کی جا رہی تھی ۔حریت پسند کیمپ کی طرف سے بائیکاٹ کرنے کی اپیل نہ ہونے اور اس حوالے سے خاموشی اختیار کئے جانے پر کئی سوالات اُٹھ رہے تھے ۔ اس خاموشی کو دوسرے لفظوں میں انتخابات کی سہولت کاری ہی سمجھا جا رہا تھا ۔پہلے مرحلے پر جماعت اسلامی کشمیر نے ایک پریس نوٹ کے ذریعے خود کو اپنے نام پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں سے الگ کیا اور اس کے چند دن بعد حریت کانفرنس کے نظر بند چیرمین میرواعظ عمر فاروق نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ٹیلی فونک انٹرویو میں دوٹوک انداز سے کہا کہ نریندر مودی کی طرف سے کشمیر میں سجایا جانے والا جمہوری میلہ مسئلے کے حل کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔میر واعظ کا کہنا تھا اگر چہ کشمیر میں 2019کی طرح کے مظاہرے اور احتجاج نظر نہیں آتا مگر لوگوں میں شدید غصہ ہے اور وہ مزاحمت کررہے ہیں ۔ہم کو طاقت سے خاموش کیا گیا ہے اور خاموشی مفاہمت نہیں کہلاسکتی ۔میرواعظ عمر فاروق سے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان نہ کرنے کے حوالے سے بھی سوال پوچھا گیا تو ان کاجواب تھا کہ بائیکاٹ اپنا غصہ ظاہر کرنے کا جمہوری انداز تھا مگر بھارت کے کریک ڈائون نے لوگوں کی طاقت سلب کرلی ہے جس کی وجہ سے الیکشن بائیکاٹ کی اپیل موثر نہیں رہتی ۔انہوں نے کہا انتخابات میں کشمیریوں کی شرکت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کشمیریوں نے پانچ اگست کا فیصلہ تسلیم لرلیا ہے ۔میرواعظ عمر فاروق کے اس دوٹوک اندازِ بیاں نے بہت سے شکوک وشبہات کا خاتمہ کر دیا ۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حالات کا پرنالہ بدستور اپنی جگہ موجود ہے ۔حریت پسند کیمپ کو طاقت دھونس دھاندلی اور جبر سے خاموش کر دیا گیا ہے مگر کشمیر کے عام فرد اور حریت پسند کیمپ کے درمیان ایک خاموش تعلق آج بھی موجود ہے ۔حالات کا جو منظر اس وقت تشکیل دیا گیا اس کا عام فرد کے جذبات سے کوئی تعلق نہیں ۔میرواعظ نے انتخابات کو بے معنی قراردیتے ہوئے کہا اس سے پہلے مودی حکومت نے اختیارات کا منبع وزیر اعلیٰ سے گورنر کی طرف منتقل کر دیا ہے ۔میرواعظ عمر فاروق کے اس انٹرویو سے یہ تاثر دور ہو گیا کہ بھارت کشمیر میں حریت کیمپ کا مکمل طور پر ختم کر چکا ہے ۔اس سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی کہ بھارت نے کشمیر کے حوالے سے امن اور ترقی کا ایک مصنوعی منظر تخلیق کر رکھا ہے۔یہ وہی منظر ہے جس کا حوالہ بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھی کشمیر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ دفعہ370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں امن لوٹ آیا ہے۔مودی حکومت نے یہاں ترقی کا جال بچھانے کی خاطر نوے ہزار کروڑ کا پیکیج دیا ہے۔انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا تو بھارت پاکستان میں گھس کر مارے گا ۔میر واعظ عمر فاروق اور راجناتھ سنگھ دونوں کا لہجہ بتا رہا ہے کہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات مسئلے کی بنیاد کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنیں گے ۔بھارت جموں وکشمیر کو ریاستی حیثیت کا درجہ دینے پر تو تیار ہے اور شایدایک کٹی پھٹی اور بے اختیار ریاست بحال بھی ہوجائے مگر لداخ کو جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں اور جہاں گلوان وادی اور پنگانگ جھیل جیسے فلش پوائنٹ موجودہیں کو اس ریاست کا حصہ نہیں بنایا جائے بلکہ یہ علاقے بدستور یونین ٹیریٹری ہی رہیں گے ۔بھارت کے اس خوف کا تعلق چین سے معلوم ہوتا ہے ۔یہی اس خطے کے لئے سب سے بڑا خطرہ بھی ہے ۔پانچ اگست کا ردعمل اسی سرحد پر دیکھا گیا تھا ۔عمومی تاثر یہ تھا کہ پانچ اگست کا ردعمل پاکستان کی طرف سے آئے گا اور اسی خطرے کے پیش نظر بھارت نے وادی میں غیر معمولی اقدامات کر رکھے تھے مگر اس کے برعکس بھارت کو ردعمل کا سامنا چین کی سرحد کی جانب سے کرنا پڑا جہاں دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسے تصادم کا آغاز ہوگیا ہے جو چار سال بعد بھی کسی سمجھوتے کی شکل ظاہر نہیں ہو سکا ۔مسئلہ کشمیر کی یہ جہت بہت مضبوط ہے اور اس پر مستزاد کشمیریوں کا اپنی شناخت چھن جانے پر غصہ اورنفرت ہے جو موقع ملتے ہی کسی دھماکے کی صورت میں پھٹ سکتے ہیں ۔حالات کی یہی جہت ہے کہ بھارت کے دھارے میں سیاست کرنے والی وادیٔ کشمیر کی دواہم جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی بھی اپنے منشور میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کا نکتہ شامل کرنے پر مجبور ہیں ۔