جدید مغرب کے روحانی،نفسیات اور ذہنی امراض

ہمارے یہاں مغرب سے جو امراض آئے ہیں اُن میں سے ایک بڑا مرض ’’بوریت‘‘ بھی ہے۔

سونے اور کوئلے کی کانیں ختم ہوجاتی ہیں، تیل کے کنویں خشک ہوجاتے ہیں، قدرتی گیس کے ذخائر ختم شد کا اعلان کردیتے ہیں مگر جدید مغرب روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی امراض کی ایسی کان ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ چنانچہ اس کان سے ایک کے بعد دوسرا مرض چلا آرہا ہے۔ ہمارے یہاں مغرب سے جو امراض آئے ہیں اُن میں سے ایک بڑا مرض ’’بوریت‘‘ بھی ہے۔ یادش بخیر جس طرح ہمارے یہاں لوگ کبھی فطری طور پر خوش یا ملول ہوا کرتے تھے اب اسی طرح ’’بور‘‘ ہونے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ اب پانچ سات سال کے بچے بھی منہ لٹکائے ہوئے ملتے ہیں اور پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل ’’بور‘‘ ہورہے ہیں۔ ٹھیک ہے انھیں بوریت کی الف ب بھی معلوم نہیں ہوتی، لیکن یہ لفظ ان کی لغت میں مستقل جگہ بنا چکا ہے، اور نہ صرف یہ بلکہ وہ کم از کم صورتِ حال کے اعتبار سے اس لفظ کا درست استعمال بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

مغرب میں بوریت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مشہور ہے کہ جب سکندر اعظم کے سامنے فتح کرنے کے لیے سرزمین باقی نہ رہی تو اس پر بوریت نے حملہ کردیا۔ تاہم سلطنتِ روما میں بوریت اشرافیہ کا مسئلہ تھی، اور وہ بوریت سے بچنے کے لیے نت نئی عیاشیاں ایجاد کرتے رہتے تھے۔ لیکن مغرب کے عظیم فلسفی شوپن ہار تک آتے آتے صورتِ حال بہت بدل چکی تھی۔ اس نے صاف لکھا ہے کہ بوریت humanitarian egalitarian democracy کی قیمتوں میں سے ایک ’’قیمت‘‘ ہے۔ بعد ازاں اس نے مزید اہم بات کہی۔ اس نے کہا کہ اول تو کوئی حکومت جدید معاشرے کو درپیش سماجی مسائل حل نہیں کرسکتی، اور بالفرض اگر ایسا ہو بھی جائے تو بوریت فوری طور پر سماجی برائیوں(Social evils) کے خاتمے سے پیدا ہونے والی جگہ پر قبضہ کرلے گی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جدید مغرب میں یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے۔

اس سلسلے میں مغربی ادب کو دیکھا جائے تو وہ بوریت کے حوالوں سے بھرا پڑا ہے۔ بوریت، کاہلی، لغویت اور ان کے اثرات و مظاہر جدید مغربی ادب کے بنیادی تجربے ہیں، اور فہرست مرتب کی جائے تو کوئی اہم نام اس فہرست سے باہر نہیں رہتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بوریت کا سرچشمہ کہاں ہے؟ خود اہلِ مغرب نے اس سلسلے میں نام نہاد خوشحالی اور تعیش کی نشاندہی کی ہے اور انگریزی میں اس کے لیے Leisure کا لفظ استعمال کیا ہے، چونکہ مغرب میں Leisure عام ہوگیا ہے اس لیے بوریت بھی عام ہوگئی ہے۔ مغرب کے سنجیدہ مفکرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا کی نوے فیصد آبادی ایٹمی جنگ سے ہلاک ہوجائے تو اس کا علاج ہوسکتا ہے، لیکن Leisure کا کوئی علاج نہیں۔ خیر یہ باتیں تو پھر کبھی ہوتی رہیں گی۔ یہاں آپ سوال کرسکتے ہیں کہ عید اور بوریت کا بھلا آپس میں کیا تعلق ہے؟

بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے شہری معاشرے میں ایسے لوگ پیدا ہوچکے ہیں جو بے چارے بور ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ عید کے دن بھی بور ہوتے ہیں بلکہ زیادہ بور ہوتے ہیں۔ آپ ان سے پوچھیے کہ عید کے دن کیا کیا؟ وہ آپ کو بتائیں گے کہ کچھ بھی نہیں۔ بس نماز پڑھی، ٹی وی دیکھا، کھانا کھایا اور سو گئے۔ پھر شام کو اُٹھے اور فلاں کے یہاں چلے گئے یا فلاں ہمارے یہاں آدھمکا۔ یہاں ہمیں اکبر الٰہ آبادی کا ایک مشہور زمانہ شعر یاد آرہا ہے۔

اکبر نے کہا ہے:
بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں

ہمارے یہاں بھی بہت سے لوگوں کا یہی حال ہے۔ یعنی نہ وہ اشرافیہ میں سے ہیں اور نہ ہی آسائشوں سے پُر Leisure سے ہم کنار ہیں، مگر پھر بھی بور ہوتے ہیں۔ خوب! مغرب کی صحت نہ سہی تو امراض ہی سہی۔

لیکن جناب! بات صرف اتنی سی نہیں، بہت سے لوگ ہمارے یہاں واقعتاً بور ہونے لگے ہیں اور اس کی وجہ ہے۔ دیکھیے مغربی مفکرین نے بوریت کے سلسلے میں مادی آسائش، تعیش، Leisure (یا آپ اسے جو بھی نام دیں) کی نشاندہی بالکل درست کی ہے، لیکن معاف کیجیے گا، یہ بہت سرسری بات ہے۔ اس لیے کہ مسئلہ آسائش کا نہیں، معنویت کا ہے۔ انسان کی زندگی اگر معنویت سے ہم کنار ہے تو پھر آسائش اس کا بہت کچھ یا اتنا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کہ انسان بوریت کی دلدل میں دھنس جائے۔ ٹھیک ہے چند صدیوں پہلے آسائش ایک چھوٹے سے طبقے کی میراث تھی، مگر اس طبقے کے تمام اراکین بور نہیں ہوتے تھے، اس لیے کہ ان میں سے اکثر کی زندگی معنویت سے آراستہ تھی۔ لیکن اب قصہ مختلف ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو بوریت ایک کیفیت ہے، اور یہ کیفیت بے معنویت سے پیدا ہوتی ہے، بے معنویت کے خلا سے جنم لیتی ہے، لیکن مغرب اور ہماری بے معنویت میں ایک فرق ہے۔ مغرب کی بے معنویت مکمل یا Total ہے، اور ہماری بے معنویت جزوی یا Partial ہے۔ لیکن اس جزوی بے معنویت کی تفصیلات بھی ہولناک ہیں۔ زندگی کی معنویت تعلق سے پیدا ہوتی ہے اور ہمارے یہاں بنیادی تعلق کی چار ہی صورتیں ہیں: خدا اور اس کے رسولؐ سے تعلق، دوسرے انسانوں سے تعلق، اپنی ذات سے تعلق، اور کائنات سے تعلق۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ باقی تمام تعلقات کے معیار اور نوعیت کا انحصار تعلق کی اوّلین صورت پر ہے۔ اب ہمارے یہاں خدا اور رسولؐ سے تعلق کا انکار تو نہیں ہے لیکن اس تعلق کی شہادتیں کمزور ہیں۔ اس سے زیادہ ہولناک بات یہ ہے کہ اس کمزوری کا چرچا تو بہت ہے مگر شعور عام نہیں۔ ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم ایک مذہبی معاشرہ ہیں اور ہم میں فلاں فلاں کمزوریاں نہیں ہوں گی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسرے انسانوں سے بھی بامعنی تعلق استوار کرنے میں ناکام ہوتے جارہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب میں یہ صورت صنعتی نظام کے پھیلاؤ اور بڑے بڑے شہروں کے وجود میں آنے کے بعد پیدا ہوئی تھی، لیکن ہم اس کے بغیر ہی یہ ’’عیاشی‘‘ کررہے ہیں۔ کہنے کو تو ہمارے یہاں بہت سے شہر ہیں لیکن دراصل شہر کی جو تعریف ہے اُس پر ملک کے تین چار شہر ہی پورے اترتے ہیں اور وہ بھی ایک حد تک، ورنہ ہمارے اکثر شہر تو بڑے قصبات ہیں۔ شہر ہونا کوئی قابلِ قدر بات نہیں ہے اور بڑے شہروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نا پسند فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ شہر کی آبادی ایک حد سے زیادہ ہوجائے تو دوسرا شہر آباد کر لو۔ خیر! اگر ہمارے دوسرے شہر بھی واقعتا شہر بن گئے ہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن بہرحال انھوں نے ابھی تک صنعتی زندگی، اس کے اکثر مظاہر اور اس کا تجربہ پیدا نہیں کیا۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے؟ ہم اس کے بغیر بھی بیگانگی پیدا کررہے ہیں۔ یہ بیگانگی اب خونیں رشتوں اور قریب ترین تعلقات میں بھی درآئی ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟

ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ بے شک ہم صنعتی زندگی اور اس کے تجربے میں ڈوبے نہیں ہیں، مگر ہمارے ’’آئیڈیلز‘‘ صنعتی زندگی کے آئیڈیلز ہیں، اور چونکہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق کمزور پڑ چکا ہے اور چونکہ اس کا شعور بھی عام نہیں ہے، اس لیے ہم انسانی تعلقات کے حوالے سے ہینگ لگے نہ پھٹکری مگر رنگ آئے چوکھا کے منظر میں سانس لے رہے ہیں۔

خود پسندی بری چیز ہے مگر چلیے اس سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کسی اور سے نہ سہی، خود سے تو محبت کرتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں تو خود سے محبت کرنے کا معاملہ بھی انتہائی کمزور ہے، اس لیے کہ خودپسندی کے لیے بھی ’’خوبیاں‘‘ درکار ہیں۔ خوبیاں نہیں ہوں گی تو خودپسندی ڈھکوسلے یا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگی، یا یہ نہیں ہوگا تو پھر خودپسندی بہت سرسری ہوگی، کیونکہ اس کا تعلق سطحی چیزوں سے ہوگا۔ مغرب میں دولت پیدا ہوئی ہے اور آسائشوں کی فراوانی ہوئی ہے تو اس کی پشت پر (اچھی یا بری) اُن کی نسلوں کی تخلیقی آگ موجود ہے۔ مگر ہمارے یہاں اکثر صورتوں میں دولت بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال، رشوت خوری اور اسمگلنگ وغیرہ سے پیدا ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورتِ حال میں ڈھنگ کی خودپسندی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ رہ گیا کائنات سے تعلق، تو یہ تعلق یا تو مذہب اور براہِ راست مشاہدے اور تجربے سے قائم ہوتا ہے یا پھر شاعری اور ادب کے توسط سے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ سارے معاملات بھی کمزور ہیں۔ نری مادی ترقی کوئی اچھی چیز نہیں، لیکن اس کے لیے بھی سمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارے یہاں ایسی کسی سمت کا بھی سراغ نہیں ملتا، مطلب یہ کہ ہم تو اہلِ مغرب کی طرح ڈھنگ کے دنیا دار بھی نہیں ہیں۔ اب بھلا بتائیے ایسی صورت میں بوریت عام نہ ہو تو کیا عام ہو؟

معاف کیجیے گا کالم قدرے طویل ہوگیا، اور آج کل تو لوگ طویل کالم پڑھنے سے بھی بور ہوجاتے ہیں۔ دیکھیے ہمارا اشارہ آپ کی طرف نہیں، لوگوں کی طرف ہے!