عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی خطیب ،مبلغ ،مناظر اور ماہر تقابل ادیان ڈاکٹر ذاکر نائیک حکومت پاکستان کی دعوت پر 5 اکتوبر کو اپنے صاحبزادہ محمدفارق ذاکر نائیک کے ساتھ پندرہ روزہ دورے پر پاکستان تشریف لارہے ہیں ۔ اس دوران آپ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں مختلف عوامی مقامات پر اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلوؤں پر خصوصی لیکچر دیں گے۔ پاکستان میں آپ کے لاکھوں عقیدت مند بڑی بے صبری سے آپ کی آمد کے منتظر ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک دنیا بھر میں ایک موثر خطیب،عظیم مبلغ اسلام اور تقابل دین کے ایک کامیاب مناظر کی حیثیت سے بیحدمقبول و معروف شخصیت ہیں جو اپنے عوامی خطابات کے دوران قرآن مجید،احادیث، اسلامی تعلیمات ,مسیحیت،یہودیت اور ہندومت کی کتابوں سےتقابل ادیان کے موضوعات پر اپنی خاص توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنے منفرد انداز خطابت اور مدلل بحث و مباحثہ کے اختتام پر مسلم و غیر مسلم حاضرین کی جانب سے چھبتے ہوئے سوالات کے برجستہ اور اطمینان بخش جوابات کے ذریعہ سے دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنارکھا ہے۔
ڈاکٹرذاکر نائیک کا پورا نام ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک ہے ۔18 اکتوبر 1965ءکو ہندوستان کے سب سے بڑے کاروباری اور تجارتی شہر ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقہ ڈونگری کے ایک معزز دیندار اور تعلیم یافتہ گھرانے میں ایک ایسے بچے نے جنم لیا جسے آگے چل کر عظیم اسلامی تعلیمات کے فروغ کے ذریعہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بننا تھا۔آپ کے والد محترم کا نام ڈاکٹر محمدعبد الکریم محمدنائیک اور والدہ محترمہ کا نام روشن نائیک ہے۔ آپ کا تعلق ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں صدیوں سے آباد معروف کوکن برادری سے ہے ۔آپ کے والد محترم ڈاکٹر عبدالکریم محمدنائیک ممبئی کےایک متحرک طبیب کے ساتھ ساتھ اپنی برادری کی خدمت کا درد بھی رکھتے تھے اور اس مقصد کے لئے برادری کی بھلائی کے لئے مختلف سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے 1962ء میں ایک اشاعتی ادارہ ”نقش کوکن پبلیکیشنز“ قائم کیا تھا ،جس کے تحت ایک سماجی، ثقافتی اور ادبی جریدہ ماہنامہ ”نقش کوکن“ شائع کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1982ء میں ممبئی کے سینٹ پیٹر ہائی اسکول اورکشن چند چیلا رام کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد ازاں آپ نے ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج اینڈ بی وائی ایل نائیر چیریٹیبل اسپتال سے طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹی آف ممبئی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی ۔آپ نے مصر کی ایک یونیورسٹی سے دعوت دین اور تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
پیشہ کے لحاظ سے ایک ماہر امراض چشم ڈاکٹر ذاکر نائیک،عالمی شہرت یافتہ اسلامی خطیب اور ماہر تقابل ادیان کیسے بنے!
اس سلسلہ میں ڈاکٹرذاکرنائیک نے 2006ءمیں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ مسلم دنیا کے ایک عظیم اسلامی مبلغ اور مناظر شیخ احمد حسین دیدات سے بیحد متاثر ہوئے تھے جن سے ان کی پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بعض اوقات اپنے پیروکاروں میں ”دیدات پلس“ بھی کہلائے جاتے ہیں کیونکہ ان کے استادعالمی مناظر شیخ احمد دیدات نے انہیں ”دیدات پلس“کا لقب دیا تھا۔ احمد حسین دیدات (یکم جولائی1918ـ8،اگست2005) ایک ہندوستانی نژاد جنوبی افریقن ،خودآموز مسلم مفکر، مصنف اور تقابل ادیان کے ایک معروف خطیب گزرے ہیں۔جو سورت(گجرات) میں پیدا ہوئے تھے اور 9 برس کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان سے جنوبی افریقہ ہجرت کرگئے تھے۔ احمد دیدات نے جنوبی افریقہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں معروف مسیحی عالموں کے ساتھ اسلام اور مسیحیت کے موضوعات پربے شمار بین المذاہب بحث و مباحثوں اور مناظروں میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی ۔ انہوں نے 1986ء میں لوسیانا یونیورسٹی امریکہ میں ہونے والے ایک طویل تاریخی مناظرہ میں معروف امریکی ٹی وی مبلغ جمی سواگارٹ کو بھرپور شکست دی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ،عالمی مناظر احمد دیدات کے شاگرد خاص کا اعزاز رکھتے ہیں۔۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک پیشہ اور تربیت کے لحاظ سے امراض چشم کے ڈاکٹر ہیں اور سات برس تک ایک معالج کی حیثیت سے پریکٹس کرتے رہے ہیں۔بعد ازاں آپ نے پاکستان کے ایک معروف عالم دین اور دینی مفکر ڈاکٹر اسرار احمد ،بانی تنظیم اسلامی سے ایک تفصیلی ملاقات کے بعدطب کے معزز پیشہ کو ترک کرکے اپنی بقیہ زندگی کو دعوت و تبلیغ کے مقاصد کے فروغ کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔جس کے بعد آپ کی زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی تھی۔آپ جلد ہی قرآن مجید اور اسلامی تعیما ت پراپنے بیحد وسیع مطالعہ اوراپنی غیر معمولی خطیبانہ صلاحیتوں کی بدولت ایک اہم مسلم اسکالر کی حیثیت سے ہندوستان کے مسلمانوںمیں اپنی جداگانہ شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ایک اندازہ کے مطابق آپ اب تک دنیا بھر کے مختلف براعظموں کے درجنوںممالک میں دعوت اور تبلیغ کے موضوع پر تقریبا چار ہزار لیکچر اور خطابات انجام دے چکے ہیں۔ آپ کو بیک وقت ہندی، اردو ،عربی،انڈونیشی اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہے۔
ڈاکٹرذاکر نائیک ہندوستان میں ایک عظیم فلاحی اور تعلیمی ادارہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (IRF) کو کامیابی کے ساتھ چلارہے ہیں اور اردو ، بنگلہ اور انگریزی زبانوں میں دعوت و تبلیغ کےمواصلاتی نشریات کے عالمی پیس ٹی وی (Peace tv)کے بانی اور صدر ہیں۔ آپ عالم اسلام میں ایک انتہائی قابل قدر اور مقبول ومعروف شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ آپ ایک وسیع المشرب اسلامی اسکالر کی حیثیت سے اسلام کے کسی خاص مکتبہ فکر کے پیروی نہیں کرتے لیکن اپنے دینی رحجان کے مطابق سلفیہ مکتبہ فکر کے زیادہ نزدیک نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے 1991ءمیں صرف23 برس کی عمر میں دعوت و تبلیغ کے نیک اور عظیم مقصد کا آغاز کیا اور پہلے مرحلہ میں ممبئی میں مسلمان بچوں کی نظریاتی اسلامی تعلیم کے لئے ایک تعلیمی ادارہ اسلامک انٹر نیشنل اسکول اور یونائیٹڈ اسلامک ایڈ نامی فلاحی ادارہ قائم کیا تھاجو غریب اور بے سہارا مسلمان نوجوانوں کو حصول تعلیم کی غرض سے تعلیمی وظائف فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک دعوت تبلیغ کے فروغ کے لئے موجودہ دور کی موثر ابلاغی قوت سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔چنانچہ اس مقصد کے تحت21جنوری2006 ء کو ممبئی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی سربراہی میں ایک عالمی پیس ٹی وی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جو ایک غیر منافع بخش اماراتی سٹیلائٹ ٹیلیویژن نیٹ ورک ہے اور دنیا بھر میں 24 گھنٹے مفت مذہبی پروگرام نشر کرتا ہے۔ آپ کے قائم کردہ اس عالمی ٹی وی چینل کا شمار دنیا کے سب سے بڑے مذہبی سٹیلائٹ ٹیلیویژن نیٹ ورکس میں کیا جاتا ہے۔آپ نے مارچ 2021ءمیں الہدایہ سٹیلائٹ ٹی وی چینل کا بھی آغاز کیا تھا جو دنیا بھر کے ناظرین کے لئےاسلام کے متعلق مستندتعلیمی مواد فراہم کرتا ہے ۔
دیگر اسلامی خطیبوں کی روایت کے برعکس ڈاکٹر ذاکر نائیک کےلیکچرز دنیا بھر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اسلام کی حقانیت کا عظیم پیغام پہنچانے کے لئےاردو یا عربی زبان کی بول چال کے بجائے انگریزی زبان میں ہوتے ہیں ۔ آپ نے 2011 ء میں اپنا ایک یوٹیوب چینل”ڈاکٹر ذاکر نائیک“ کا بھی آغاز کیا تھا ۔جس کے دنیا بھر میں سبکرائبرز کی تعداد 3.84 ملین اور ناظرین کی تعداد268ملین تک پہنچ چکی ہے جبکہ آپ ہدیٰ ٹی وی سے بھی منسلک ہیں۔2010ء میں ہندوستان کے اخبار دی انڈین ایکسپریس کے ایک سروے کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک ہندوستان کے سب سے زیادہ 100 طاقتور شخصیات کی فہرست میں اپنی عوامی مقبولیت کے لحاظ سے89 پر تھے۔
آپ کےاس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دنیا بھر کے 40 سے زائد نامور اسلامی مقررین کی ہزاروں گھنٹوں پر محیط وڈیوز موجود ہیں۔ جن میں شیخ احمد دیدات ، یوسف ایسٹیٹ، حسن یہ اور بلال فلپس شامل جیسے زعماء ہیں ۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا ہے کہ یہ نیٹ فلیکس کا ایک حلال ورژن ہے۔مزید معلومات کے لئے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ویب سائٹ www.zakirnaik.com ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک آج کے دور جدید میں عالمی سطح پر قرآن مجید اور اسلام پر ایک مستند اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادیان کے تقابلی مطالعہ، بالخصوص ہندو مت،بدھ مت، مسیحیت اوریہودیت کی تعلیمات ،افکار اور عقائد کےمتعلق آپ کا علم بیحدقابل رشک ہے اور دنیا بھر میں تقابل دین کے شعبہ میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔عوامی خطابات اور بحث و مباحثوں کے دوران آپ کا انداز خطابت عام فہم بیحدموثر اور دلنشین ہوتا ہے۔ آپ اپنے بڑے بڑےعوامی خطابات کے دوران قرآن مجید، مستند احادیث اور دیگر آسمانی صحیفوں کی روشنی میں استدلال اور منطقی طریقہ ،سائنٹیفک حقائق اورموثر دلائل کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کا نکتہ نظر بھرپور انداز سےپیش کرتے ہیں اورمعاشرہ میں اسلام کے خلاف پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا بڑی چابک دستی سےازالہ بھی کرتے ہیں۔آپ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کےانداز فکر میں کئی مثبت تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ کئی نئے زاویوں کو بھی متعارف کرایا ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے عوامی خطابات کےاختتام پر حاضرین کی جانب سے چیلنج کرنے والے اور چبھتے ہوئے سوالات کے تنقیدی تجزیہ اور انہیں قائل کرنے والے جوابات کے لئے بھی بیحد مقبول ہیں۔آپ کو قدرت نے بیحد موثر قوت اظہار اور حاضر جوابی کی زبردست صلاحیتوں سے نوازا ہے۔آپ دوران خطابات اسلام حاضرین کے تلخ و شیریں سوالات کے نہایت خندہ پیشانی سے اور اطمینان بخش جواب دیتے ہیں۔آپ کی یادداشت کا معیار غیر معمولی طور پربیحد بلند ہے۔آپ کو قرآن مجید کی ایک ایک سورت، آیت اور احادیث کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں کی مذہبی کتب بائبل، تورات، گیتا اور مہا بھارت کے تمام ابواب پوری طرح ذہن نشین اورازبر ہیں۔
اگرچہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زبان میں ہلکی سی لکنت بھی پائی جاتی ہے لیکن وہ اکثر اپنی اس کمزوری پر قابو پانے کے لئےدعائے موسوی رب ا شرح لی صدری۔”اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے اور میرا کام آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کھول دے“ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت سے آپ کی لکنت زدہ زبان میں ایسی جادوئی تاثیر بخشی ہے کہ آپ نے اپنی گویائی میں اس کمی کے باوجود اپنے مدلل،منطقی اور مسحورکن خطابات کے ذریعہ دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو اپنا گرویدہ کررکھا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی میں دعوت اورتبلیغ کے فروغ کے لئے کئی معروف اور فیصلہ کن بحث و مباحثے اور مناظرے کافی اہمیت رکھتے ہیں ۔آپ کی زندگی کا پہلا مباحثہ 1994ء میں بنگلہ دیشی خاتون مصنف تسلیمہ نسرین کی متنازعہ کتاب پرایک ٹی وی چینل پرمنعقد ہوا تھا ،جو تقریبا ایک گھنٹے تک جاری رہا ۔ اسی طرح ایک معروف امریکی مسیحی مناظرڈاکٹر ولیم کیمبل کے مقابل ان کا مناظرہ یکم اپریل 2000ء کو شکاگو، ایلی نائس امریکہ میں ”قرآن اور بائبل سائنس کی روشنی میں“ کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔ کیونکہ ڈاکٹر ولیم کیمبل نے قرآن مجید کی تعلیمات پر26 مختلف اعتراضات اٹھانے کی جسارت کی تھی لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ولیم کیمبل کے تمام اعتراضات کے مدلل اور منطقی جوابات دے کر اسے بالکل لاجواب کردیا تھا۔اس کامیاب مناظرہ کے اختتام پر حاضرین کے لئے کھلے سوالات اور جوابات کا ایک گھنٹے کادورانہ بھی تھا۔اس کے بعدآپ اسلامک انفارمیشن سروسز نیٹ ورک آسٹریلیا کی دعوت پر ملبورن یونیورسین تشریف لے گئے تھےجہاں آپ نے طلبہ کے سامنے اپنے ایک مدلل خطاب میں کہا تھا کہ صرف مذہب اسلام ہی خواتین کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔آپ نے 2012ء میں ملائشیاء کی مختلف یونیورسٹیوں میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ پر بھی چار لیکچر دیئے تھے۔
ہندوستان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ایک معروف بین المذاہب مکالمہ 21 جنوری2006ء کو بنگلور میں ایک معروف ہندو مناظر سری روی شنکر کے مقابل ” اسلام اور ہندو مت میں خدا کا تصور“ کے عنوان پر منعقدہوا تھا ، ایک اور مناظرہ9 مئی 1999ء کو ممبئی میں ایک مناظررشی بھائی زویری کے مقابل”سبزی خوری اورگوشت خوری“ کےموضوع پر منعقدہوا تھا ۔اپنےان تمام مناظروں کے دورا ن ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قرآن مجید، بائبل اورگیتا پراپنے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر علمی اور عقلی دلائل کے ذریعہ ان کے تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئےاسلام کی حقانیت کو سچا ثابت کیا تھا۔آپ نے فروری 2011ء میں ہندوستان سے وڈیو لنک کے ذریعہ آکسفورڈ یونین کے اجتماع سے بھی خطاب کیا تھا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی دعوت اور تبلیغ کے عظیم مقاصد کی جدوجہد کے لئے گزشتہ 20 برسوں کے دوران دنیا کے مختلف خطوں میں بے شماربڑے بڑے عوامی اجتماعات میں لاکھوں حاضرین تک اسلام کی حقانیت کا پیغام پہنچا چکے ہیں۔ آپ اپنے عوامی خطابات کے دوران کتاب مقدس قرآن مجید،بائبل، تورات، گیتا اور مہا بھارت سے تقابل کرکے اب تک ہزاروں غیر مسلموں کو حلقہ بگوش کرچکے ہیں ۔قطر کے الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ڈاکٹر ذاکر نائیک2016ء سے 2020ء تک اللہ تعالیٰ کی توحید کاپیغام پہنچاکر تقریبا گیارہ لاکھ غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کرچکے ہیں۔آپ کا ایک اور تاریخی مناظرہ امریکہ کے ایک نامی گرامی مسیحی عالم ولیم کیمبل سے سات گھنٹے پر محیط تھا جسے ٹی وی پر براہ راست نشر کیا گیا تھا اور اس کے نتیجہ میں امریکہ میں تقریباً 34 ہزار افراد نے اسلام قبول کیا تھا۔ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پچھلے 15 برسوں کے دوران ہندوستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک امریکہ، کینیڈا،برطانیہ،اٹلی، سعودی عرب،مصر،متحدہ عرب امارات ، کویت، قطر، بحرین، اومان، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،جنوبی افریقہ، بوٹسوانا، سنگاپور،ہانگ کانگ، تھائی لینڈ،گیانا( جنوبی امریکہ) ٹرینیڈاڈ اور ماریشش میں ہزاروں حاضرین پر مشتمل بڑے عوامی خطابات منعقد کئے ہیں۔
ڈاکٹ ذاکرنائیک کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا اولین مقصد ہے کہ وہ تعلیم یافتہ نوجوانوں پراپنی توجہ مرکوز کریں جو اپنے مذہب کے متعلق ضروری معلومات نہ ہونے کے باعث معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اسلام جیسے دین کو فرسودہ خیال کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے متعلق سمجھے گئے غلط تصورات کو ختم کریں ۔خصوصاً نیویارک میں ہونے والے 11ستمبرکے حملوں کے واقعہ کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلام کے خلاف متعصبانہ پروپیگنڈے کا بھرپور طور پرجواب دیں۔ آپ کا مزید کہنا ہے کہ اسلام کے خلاف شدید مہم جوئی کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ2001ءسے 2002 ءتک تقریبا 34 ہزار امریکیوں نے اسلام کی حقانیت کو قبول کیا تھا کیونکہ اسلام استدلال اور منطق کا مذہب ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ مغربی تہذیب اور افکار بھرپورتضادات کا مجموعہ ہیں۔آپ غور کریں کہ اگر مسلمان عورت حجاب کرتی ہے تو اس پر محکومیت کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے لیکن اگر مسیحی راہبہ ایسا کرتی ہے تو اسے عزت اور تقدس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے 2014ء میں مغربی افریقی ملک جمہوریہ گیمبیا کے صدر یحییٰ جمیح کی دعوت پر گیمبیا کے انقلاب کی 20 ویں سالگرہ کی تقریبات میں واحدسرکاری مہمان کی حیثیت سے دورہ کیا تھا۔جس کے دوران آپ نے 11اور 12 اکتوبر کو یونیورسٹی آف گیمبیا میں جہاد،اسلام کے تناظر میں اور مذہب،ایک درست تناظر کے عنوان سے ایک تفصیلی خطاب کیا تھا ۔اس یادگار موقع پر آپ کی خدمات کے اعتراف میں یونیورسٹی آف گیمبیا کی جانب سے آپ کوdoctor of Humane Lettersاعزازی ڈگری عطا کی گئی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کوان کی اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے بے نظیر اور مثالی خدمات کے اعتراف میں 2013 ءمیں سلطان بن محمد القاسمی ولی عہد اور نائب حکمراں ریاست شارجہ کی جانب سے شارجہ ایوارڈ برائے رضاکارانہ خدمات، 2013ء میں محمد بن راشد المکتوم،حاکم دبئی،نائب صدر اور وزیراعظم متحدہ عرب امارات طرف سےدبئی انٹر نیشنل قرآن مقدس ایوارڈ اور2013ء میں ہی عبدالحلیم آف کیداہ ،شاہ مملکت ملائشیاء کی جانب سےتوکھو مال ہجرہ ایوارڈ اور 2015ء میں سعودہ شاہ محمدسلمان بن عبدالعزیز السعود کی جانب سے اسلامی خدمات کےلئے شاہ فیصل انعام کے اعلیٰ اعزازات عطا کئے گئے ہیں۔
جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی دعوت و تبلیغ کے لئے منعقدہ عوامی خطابات میں ہمیشہ نام نہاد جہاد کے نام پر جاری تشدد، دہشت گردی اور عدم رواداری کے خلاف ووٹوک موقف رکھتے ہیں۔ ایک عظیم اسلامی اسکالر کی حیثت سے ڈاکٹر ذاکر نائیک دنیا میں دین اسلام کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں اور وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا میں اسلام ہی سب سے بہتر مذہب ہے کیونکہ یہ قرآن مجید کہتا ہے اور کسی اور مذہب کا متن اور صحیفہ اس حقیقت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔آپ مزید کہتے ہیں کہ اسلام پر عموماعدم رواداری،تشدد،دہشت گردی اور انتہا پسندی کاٹھپہ لگایا جاتا ہے ،لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں، امتیازی سلوک، ناانصافیوں،زنا،شراب نوشی سمیت تمام اخلاقی خرابیوں کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانی اقدار کے فروغ اور تحفظ کے لئے اسلام ہی سب سے زیادہ روادار اور پرامن مذہب ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یونیورسٹی آف گمبیا میں اپنے خطاب کے دوران دنیا بھر میں نام نہادجہاد کے نام پرتشدد اور دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی کہ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں معصوم اور بیگناہ لوگ مرجاتے ہیں۔آپ کا کہنا ہے کہ جہاد کے تصور کو مسلمان اور غیر مسلموں دونوں نے غلط سمجھا ہے ۔جہاد کے اصل معنی معاشرہ کی بہتری کے لئے سعی اور جدوجہد کرنا ہے اور جہاد کی سب سے بہتر قسم غیرمسلموں کی بصیرت کے لئے اللہ تعالیٰ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنا ہے ،کیونکہ اسلام کے معنی ہیں امن۔
اگرچہ عالمی شہرت یافتہ خطیب اور ماہر تقابل ادیان ڈاکٹر ذاکر نائیک ہندوستان میں ایک طویل عرصہ سے اپنی غیر معمولی دینی،تعلیمی ،رفاہی سرگرمیوں اور بڑے پیمانے پر اپنےعوامی خطابات کے ذریعہ خواب غفلت میں مبتلاء لاکھوں انسانوں کو خدا تعالیٰ کے پیغام پہنچانے میں مصروف ہیں۔ لیکن آپ کی جانب سےمسلمانوں کے لئےان غیر معمولی اور منظم دعوت و تبلغ، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کے نتیجہ میں آپ ہندوستان کی متعصب ہندو حکومت کی آنکھ میں ایک شہتیر کی طرح کھٹک رہے تھے اور ہندو انتہا پسندحکومت کافی عرصہ سے کسی ایسے موقع کی تاک میں تھی کہ جب اسے آپ کی دعوت اور تبلیغ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنے کا کوئی نا کوئی بہانہ مل جائے۔ بالآخر جولائی 2016ء کو ان کے دل کی مراد اس وقت پوری ہوگئی جب یکم جولائی 2016ء کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے معروف کاروباری علاقہ گلشن کے ایک ریسٹورنٹ میں پانچ مسلح انتہاء پسند نوجوانوں نے اچانک درجنوں افراد کو اسلحہ کے زور پریرغمال بنالیا تھا۔اس دوران پولیس کی جانب سے یرغمالیوں کی بازیابی کی کارروائی کے نتیجہ میں کم از کم 29بیگناہ افراد ، جن میں 20 یرغمالی، پانچوں مسلح ملزمان،دوپولیس والے اور ریسٹورنٹ کے دو ملازمین مارے گئے تھے اور تقریباً افراد50 زخمی ہوئے تھے۔تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے ایک یہ نوجوان ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات سے متاثر تھا اور ان کے فیس بک پیج کا پیروکار بھی تھا ۔ اس المناک واقعہ کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے ردعمل کے طور پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیس ٹی وی چینل پر پابندی عائد کردی تھی۔اس کے بعد ہندوستان ، کینیڈا، سری لنکا اور برطانیہ میں بھی اس بہانے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیس ٹی وی پر منافرت آمیز خطاب کے قانون کے تحت پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
بعدازاں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنےایک انٹرویو کے دوران اس واقعہ کے بارے میں کہا تھاکہ مجھ پر یہ غلط الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے ایک حملہ آور میرے فیس بک پیج کی پیروی کرتا تھا۔اسی طرح2019ءمیں ہندوستان کے ایک اور پڑوسی ملک سری لنکا میں ایسٹر کے تہوار کےموقع پر ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجہ میں 250 افراد کی ہلاکت کے بعد بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ المناک واقعات ان ممالک کی اندرونی چپقلش کا معاملہ تھا جو کسی احساس محرومی کے رد عمل کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
دیکھا جائےڈاکٹر ذاکر نائیک ہندوستان میں اپنے مقبول ٹی وی چینل، پیس ٹی وی پر اپنے بیباک عوامی خطابات اور دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو اسلام کی عالمگیر حقانیت کے متعلق معلومات اور آگہی فراہم کرنے کی پاداش 2016ء سے ہندوستان کے انتہا پسند اور انتہائی متعصب وزیراعظم نریندر امودی کی حکومت کا خاص ہدف بن گئے تھے ۔اس دوران جب آپ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت ملائیشیا کے دورہ پر گئے ہوئے تھے۔ ہندوستان میں قائم بھارتیہ جنتا کی مسلمانوں سے انتہائی متعصب اور امتیازی سلوک رکھنے والی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف سخت انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان پراشتعال انگیز خطابات اور منی لانڈرنگ کے اوچھے الزامات عائد کئے تھے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جانب سے ان من گھڑت الزامات پر کان نہ دھرنے کے باعث ہندوستانی حکومت نے طیش میں آکر ان نام نہاد الزامات کے تحت آپ کو مفرور بھی قرار دیا ہوا ہے ۔ اس تشویش ناک صورت حال میں عالم اسلام کے ایک عظیم مدبر اور ملائشیاء کے وزیر اعظم مہاتر محمد نے ایک جراءت مند مسلمان سربراہ مملکت کی حیثیت سے آگے بڑھے اور اس سخت آزمائش کے موقع پر اپنا زبردست کردار ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ہاتھ تھام لیا اور ان کے عظیم دینی مرتبہ کے شایان شان آپ کو ملائشیاء میں مستقل سکونت اختیار کرنے کی خصوصی اجازت دی، اس کے بعدڈاکٹر ذاکر نائیک ہندوستان واپس نہیں آئے اور آپ بدستور ملائشیا ء ہی میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جو حضور اکرمؐ کی سنت کے عین مطابق ہے ۔
جبکہ اس دوران ہندوستان کی حکومت کسی نا کسی طرح مسلسل ان کی ہندوستان کو حوالگی کی کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ہندوستانی حکومت کے عائد کردہ ان تمام من گھڑت اور جھوٹے تمام الزامات کی صحت سے ہمیشہ صاف انکار کیا ہے۔ ہندوستان کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی نے آخری چارہ کار کے طور پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی گرفتاری کے لئے عالمی پولیس، انٹر پول کے ذریعہ ریڈ نوٹس جاری کرانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکافی شہادتوں کی وجہ سے مسترد کر دی گئی تھی۔ حال ہی میں جب ملائشیاء کے وزیر اعظم انور ابراہیم ہندوستان کے دورہ پر تشریف لائے تو اس موقع پر ہندوستان کی حکومت نے موقع غنیمت جانتے ہوئےان کے سامنے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کی حوالگی کا مطالبہ پیش کیا تھا ۔جس وزیر اعظم انور ابراہیم نے جواب دیا کہ اگرآپ کے پاس ڈاکٹر ذاکر نائیک کے متعلق کوئی ٹھوس شواہد موجودہیں تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وزیر اعظم انور ابراہیم کا یہ ٹکہ سا جواب سن کر ہندوستانی حکومت اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اہل خانہ میں دو بھائی اورتین بہنیں ہیں، ایک بہن کا نام نائلہ نوشاد نورانی اورآپ کے بھائی کا نام محمد نائیک ہے۔اللہ تعالیٰ نےآپ کوتین بچوں سے نوازا ہے، ان میں بیٹا محمد فارق ذاکرنائیک ،بیٹی ذاکرہ نائیک اور رشدہ نائیک شامل ہیں۔جبکہ ڈاکٹر ذاکرنائیک کی شریک حیات فرحت نائیک(سابقہ فرحت ریاست خان) اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے شعبہ خواتین کی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں اور دعوت و تبلیغ کے نیک اور عظیم کاموں میں اپنے شریک حیات کا مکمل ہاتھ بٹاتی ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی مشہور تصانیف
1- اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی جواب
2- مذاہب عالم میں تصور خدا اور اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے20 سوالات
3- بائبل اور قرآن مجید جدید سائنس کی روشنی میں
4- اسلام اور ہد مت( ایک تقابلی جائزہ)
5- اسلام میں خواتین کے حقوق،جدید یا فرسودہ