قرضوں کی معیشت کا چیلنج اور خانہ جنگی کے خطرات

آہستہ آہستہ !ایسے ماحول میں وہی کامیاب ہیں جو چڑھتے سورج کے پجاری ہیں‘ تحریک انصاف اور مقتدر قوت کا امتزاج اس ملک میں پہلا سیاسی تجربہ تھا جسے باقاعدہ دیگر تمام سیاسی قوتوں کا بازو مروڑ کر اور کھڈے لائن لگا کر کیا گیا تھا‘ مگر یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا‘ اب دوسرا تجربہ مسلم لیگ(ن) اور مقتدر قوت کے باہم اشتراک کے ذریعے کیا جارہا ہے یہ بھی کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا‘ تاہم فی الحال اسے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے‘ لیکن کوٹا سسٹم کی تحریک اور سرائیکی صوبہ کا مطالبہ زور پکڑتا چلا جائے گا‘ پیپلزپارٹی سرائیکی صوبہ مانگ رہی ہے اور متحدہ جواب میں کوٹا سسٹم ختم کرنے کا مطالبہ لے کر آئی ہے‘ پیپلزپارٹی اور متحدہ کا ٹکرائو وفاقی حکومت کا بحری بیڑہ ڈبو بھی سکتا ہے‘ اسے آئی ایم ایف کا پیکج بھی نہیں بچا سکتا‘ کیونکہ معاشی چیلنجز سیاسی امتحان سے زیادہ گہرے ہیں وزارت خزانہ‘ آئی ایم ایف کی پہلی قسط ملنے پر اگر چہ خوش ہے تاہم فکر مند بھی ہے کہ پاکستان کو آئندہ 4سال کے دوران 100 ارب ڈالر سے زائد بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو کیسے کی جائیں ۔شرح سود میں کمی سے حکومتی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں میں بیرونی قرضے جو گزشتہ سال 84ارب ڈالر تھے، بڑھ کر 87ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں پاکستان نے اب تک 6.8 ارب ڈالر کے یورو بانڈز جاری کئے ہیں جن پر کم از کم 6 فیصد سے 8.7فیصد تک منافع دیا جارہا ہے اور ان یورو بانڈز کی ادائیگی 30ستمبر 2025 ء سے شروع ہوکر 8اپریل 2051تک ہے۔ آئندہ 3سال میں حکومت کو 30 ستمبر 2025 کو 500ملین ڈالر، 8اپریل 2026کو 1.3 ارب ڈالر اور 5دسمبر 2027کو 1.5ارب ڈالر یورو بانڈز کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کی جاسکتی یہ سرمایہ کاری عالمی کیپٹل مارکیٹ سے لی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت نے دوست ممالک کے سیف ڈپازٹس کو سالانہ بنیاد پر 3سال کیلئے رول اوور کرالیا ہے جن میں چین کے 4 ارب ڈالر، سعودی عرب کے 5 ارب ڈالر، یو اے ای کے 3 ارب ڈالر اور کویت کے 700ملین ڈالر شامل ہیں تاہم پریشانی ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہے آئی ایم ایف کے 7ارب ڈالر کے قرضے ملنے کے باوجود حکومت کو 2024ء سے 2026ء تک 5ارب ڈالر کے فنانسنگ خسارے میں ہے‘ سب سے ذیادہ مشکل یہ ہے کہ اگلے چار سالوں میں تقریباً 100 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو ہمارے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر سے 10گنا زیادہ ہیں اور المیہ یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینا ہی معاشی پالیسی ہے‘آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے سات ارب ڈالر سے زائد کے نئے بیل آئوٹ پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ مگر فنڈز اقساط میں جاری ہوں گے‘ دوسری قسط مارچ میں ملے گی تب تک حکومت کو دستاویزی معیشت اور ڈائون سائزنگ کی جانب عملی اقدامات کرنا ہوں گے‘ یہ اقدامات نہ کیے تو قسط میں تاخیر یا نئی کڑی شرائط بھی عائد ہوسکتی ہیں یہ کام نہ ہوا تو حکومت منی بجٹ لاسکتی ہے‘ عملی کام کرنے کی بجائے حکومت شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دبا کر یہ دعوی کر رہی ہے کہ معاشی اصلاحات کی جارہی ہیں لیکن یہ سب کچھ اگلے سال مارچ میں سامنے آجائے گا ہمارے حکمرانوں اور اقتصادی و معاشی پالیسی ساز اداروں نے پاکستان کی معیشت کو نادہندگی سے بچانے اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے عالمی ساہوکار ادارے آئی ایم ایف پر ہی تکیہ کر رکھا ہے جس کے پروگراموں نے ہماری معیشت مستحکم نہیں ہونے دی اور اس پر دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط سر تسلیم خم کرکے قبول کرکے ملک کے عوام کو عملاً زندہ درگور کردیا گیا ہے اور دعوی ہے ملک ترقی کر رہا ہے ملک میں آئے روز مہنگائی کے سونامی بھی آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرکے ہی اٹھائے جاتے رہے ہیں جبکہ حقیر سے قرض پروگرام کی خاطر ایٹمی قوت کے حامل اس ملک خداداد کو اپنی آزادی اور خودمختاری بھی عملاً آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے دو سال سے آئی ایم ایف نے پاکستان کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو پہلے قرض پروگرام کی بحالی اور پھر نئے قرض پروگرام کیلئے اپنی شرائط کے کوڑے برسا کر جس طرح تگنی کا ناچ نچایا‘ یہ ہماری تاریخ کے المناک باب ہیں۔

آئی ایم ایف ایٹمی طاقت کے حامل ایک آزاد اور خودمختار ملک کو اپنی مرضی کے خلاف ہلنے تک نہیں دے رہا۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ صرف چھ سال کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو سوائے ہزیمتوں کے ہمیں اپنے لئے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہر حکمران کی جانب سے کشکول اٹھا کر ایڑیاں رگڑتے ہوئے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا ہے۔ آئی ایم ایف کا پیکیج ملنے سے حکومت کو تھوڑا سا سانس لینے کا موقع مل گیا ہے، حکومتی نظام چل پڑا ہے مگر ترقیاتی اخراجات کیلئے اب بھی کوئی پیسہ نہیں ہے اس لئے حکومت نہ کوئی بڑا ریلیف دے سکتی ہے نہ اراکین اسمبلی کو بجٹ دے کر خوش کرسکتی ہے‘ شہباز شریف حکومت پارلیمنٹ میں اتحادیوں اور اپوزیشن کے ہاتھوں مسلسل دبائو کا شکار ہے مطالبات کی فہرست طویل کرتے چلے جارہے ہیں حکومت کا حال یہ ہے کہ دودھ کا جلا ‘ چھاچھ بھی پھونک پھونک کرپیتا ہے کے مصداق ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور پھر پیچھے کی جانب بھی دیکھتی ہے‘ اسے پہلے معیشت کا چیلنج تھا اب آئینی ترامیم کا ڈھول بھی پیپلزپارٹی نے اس کے گلے میں ڈال دیا ہے‘ اس ایشو پر مسلم لیگ ( ن) کے لیے آگے بھی کھائی ہے اور پیچھے بھی‘دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف بھی اپنی تصوراتی دنیا میں مقید ہے،اسے حقیقی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا نہ ادراک ہے اور نہ تحریک انصاف اس صور ت حال سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہے ‘ اور پیپلزپارٹی ججے یو آئی کی چوکھٹ پر کھڑی ہے‘ گویا ایک کی دم اور دوسرے کی چونچ والا معاملہ ہے دیکھتے ہیں کہ دونوں میں سے کس کی دم یا چونچ گم ہوتی ہے‘ آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں 212 ارکان کی حمائت چاہیے‘ حکومت کے پاس مسلم لیگ(ن) کے111‘ پیپلزپارٹی کے70 ‘ مسلم لیگ(ق) کے 5 باپ پارٹی کے 4اور مسلم لیگ(ض) کا ایک رکن ہے‘ متحدہ کے22 ممبر اپنی شرائط پر ووٹ کریں گے‘ اپوزیشن سنی اتحاد کا سارا دارو مدار جے یو آئی(ف) پر ہے اگر جے یو آئی (ف) آئینی ترامیم پر ووٹ دینے پر راضی ہوگئی تو حکومت کامیاب‘ ورنہ اپوزیشن حکومت کو چت کردے گی ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف اپنی تصوراتی دنیا میں رہ رہی ہے اور اسے حقائق کا بہت کم ادراک ہے‘ وہ صرف اس کوشش میں ہے کہ وفاق اور پنجاب حکومت کام نہ کرسکے یہ صورت حال پیپلزپارٹی کے لیے بہت بڑے ریلیف کا باعث ہے کہ اس کی حریف دوجماعتیں‘ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف باہم بر سر پیکار ہیں یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو آگے بڑھ کر آئینی ترامیم کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہیں اور حکومت آئینی ترمیم کے لیے بندے پورے کرنے میں لگی ہوئی ہے اس وقت ہمارا ملک آئینی ٹوٹ پھوٹ کی جانب گامزن ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے کیونکہ ادارے باہمی تصادم کی صورت حال کا شکار ہیں۔ایک سرکش حکومت عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل سے انکاری ہے اور خود سپریم کورٹ کے اندر بڑھتی تقسیم نے مزید تعطل پیدا کیا ہے۔ فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی جانب سے ایک مضبوط عدلیہ پر قابو پانے کی مایوس کن کوششوں نےسیاسی بحران کو مزید پے چیدہ کر دیا ہے اداروں کے درمیان تصادم کب ختم ہوگا، یہ فی الوقت غیر یقینی ہے۔بہ ظاہر متزلزل مخلوط حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان ایک ناپاک گٹھ جوڑ کی بنا پر بحران کی صورت حال پیدا ہوئی۔ غیر معمولی طور پر دونوں نے 12 جولائی کے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا کہ جس میں عدالت عظمیٰ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کو بھی مختص حصہ دینے کا حکم دیا تھا۔جس امر نے عمل درآمد نہ کرنے پر حکومت کی حوصلہ افزائی کی وہ اعلیٰ ججز کے درمیان بڑھتا تناؤ کا منظر عام پر آ جانا ہے۔ آئندہ ماہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کے درمیان تقسیم کا مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت مکمل فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ اس سے حکمران اتحاد کو اعلیٰ عدالتی سیٹ اپ کے اختیارات کو نقصان پہنچانے کا بھرپور موقع ملے گا۔یہ تو واضح ہے کہ حکومت عدالت عظمیٰ کے فُل کورٹ بینچ کا جھکاؤ اپنی جانب کرنے کے لیے چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ صدر کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین آرڈیننس نے چیف جسٹس کے ’ماسٹر آف دی روسٹر‘ کے اختیارات کو عملی طور پر بحال کردیا ہے جو اس سے قبل قانون سازی کے ذریعے محدود کر دیے گئے تھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس جوکہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے ہیں، کیا وہ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی اور تقدس کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بہت سے لوگوں کے نزدیک عدلیہ میں تقسیم میں ان کا کردار ہے۔یہ ایسا عنصر ہے جو حکومت کو سپریم کورٹ کو کمزور کرنے کی تقویت دے گا۔ یہ ایک پُرخطر کھیل ہے جوکہ پورے نظام کو تباہ کرسکتا ہے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔مخصوص نشستیں دینے سے حکومتی انکار کا منصوبہ یہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلے۔ حکومت کو اکثریت کو ایک آئینی ترمیم کے لیے درکارہے جس کا مقصد ایک نام نہاد عدالتی اصلاحاتی پیکج کی آڑ میں اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کو ختم کرنا ہے۔ حکومتی اتحاد نے مطلوبہ اعداد حاصل کرنے میں اپنی گزشتہ ناکامی کے باوجود ابھی آئینی ترمیم لانے کا اپنا ارادہ ترک نہیں کیا ہے۔آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بڑی حد تک رواں سال فروری میں الیکشن کمیشن کے ماتحت ہونے والے متنازع انتخابات کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ انتخابات میں ہیرا پھیری کرکے ایک متنازع اور قابلِ اعتراض حکومت کو اقتدار دیا گیا جس نے پورے سیاسی نظام کو مسخ کیاابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ منقسم ادارہ کیسے آئین پر کیے جانے والے اس حملے کا مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ سوال ہے کہ کیا ہمارا سیاسی نظام تمام متوقع خطرات کا سامنا کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟