عوام کے لیے صرف محرومیاں اور مصائب
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس ریاستی نظام میں ایک شفاف اور خود احتسابی یا جوابدہی پر مبنی سیاسی یا ادارہ جاتی نظام کو ممکن نہیں بناسکے ۔جو نظام ہے وہ آئین و قانون کی حکمرانی سے زیادہ افراد کی ذاتی خواہشات یا ان کے سیاسی مفادات کے تابع ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ایک ایسی ریاست کی بنیا دپر کھڑے ہیں جہاں ہمارا داخلی اور خارجی مقدمہ بہت کمزور ہے یا ہماری ساکھ پر کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں ۔اس وقت جو سیاسی ،قانونی یا آئینی بحران ہمیں ریاست یا حکومت سمیت عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر نظر آرہا ہے اس نے ہمارے ریاستی و حکومتی نظام کو مزید برے طریقے سے بے نقاب کردیا ہے ۔سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلہ کو حکومت اور الیکشن کمیشن نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ان کے بقول کسی بھی صورت میں مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ پر دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرکے وضاحت مانگی ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں عدالتی فیصلہ کے بعدمخصوص نشستوں پر عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں یا پارلیمنٹ کا قانون، کس پر عمل کیا جائے ۔الیکشن کمیشن کے بقول عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم نے الیکشن ایکٹ پر عمل نہ کیا تو یہ بھی پارلیمان کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا عمل ہوگا اور اس عمل پر بھی سوالیہ نشان اٹھیں گے ۔ایسے لگتا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان واقعی ایک سیاسی گٹھ جوڑ بنا ہوا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے مفادات کی بنیاد پر سہولت کاری کررہے ہیں ۔حکومت کی تو سمجھ آتی ہے کہ اس کا کام ہی سیاست کرنا ہے اور سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر اپنے سیاسی مخالفین پر برتری حاصل کرنا ہوتا ہے ۔لیکن الیکشن کمیشن تو ایک آئینی ادارہ ہے اور اس نے آئین و قانون کی بنیاد پر چلنا ہے مگر ایسے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سامنے بھی آئین وقانون سے زیادہ سیاسی حرکیات غالب ہیں ۔اگرچہ پاکستان کی سیاسی یا انتخابی تاریخ کا جائزہ لیں تو الیکشن کمیشن کا کردار ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے ۔ادارہ جو خود کو آئینی و خود مختار ادارہ کے طور پر پیش کرتا ہے ایک بھی صاف اور شفاف الیکشن نہیں کرواسکا جس پر لوگوں کو اعتماد ہو۔بدقسمتی یہ ہے کہ مسئلہ محض الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہمارے تمام آئینی وقانونی یا ریاستی اداروں کا سیاسی معاملات میں مداخلت کا ہے۔ جب ریاست خود اپنے ہی اداروں کو ایک دوسرے کی سیاسی حمایت یا مخالفت میں استعمال کرے گی تو یہ ہی سیاسی نتائج ہمیں دیکھنے کو ملیں گے جو اس وقت ریاست کے نظام پر مختلف خرابیوں کی صورت پر غالب ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ نظام کی شفافیت یا اصلاحات یا اداروں کو بالادست کرنے کا عمل ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں اور ہم بدستور سیاسی مہم جوئی کی بنیاد پر کھیل تماشہ سجائے رکھنا چاہتے ہیں ۔
23ستمبر 2024کو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے پی ٹی آئی کے مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ،یہ فیصلہ آئین سے متصادم ہے ۔تفصیلی فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیتی ہے ۔اسی طرح اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن جو ایک آئینی ادارہ ہے 8فروری 2024 کو ملک کی سطح پر شفاف انتخابات کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن کواس سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ پر عملدرآمد کرتا او رکہتا کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت کا فیصلہ قبول نہ کرنے سے زیادہ قانونی مسائل پیدا ہونگے ۔لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن نے خود کو ایک ایسی جگہ پر لا کر کھڑا کردیا ہے کہ لوگ اس کی آئینی حیثیت پر ہی سوالات کو اٹھارہے ہیں ۔کافی عرصہ سے یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے معاملات میں ایک فریق بن گیا ہے او رجہاں بھی پی ٹی آئی سے متعلق کوئی مقدمہ سامنے آتا ہے تو الیکشن کمیشن اس کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارے کی بجائے حکومت کا ایک اتحادی ادارہ ہے اور اس کا کام آئین وقانون سے زیادہ حکومت کا سیاسی دفاع کرنا ہوتا ہے ۔الیکشن کمیشن و پی ٹی آئی ٹکرائو نے الیکشن کمیشن کے تمام اقدامات کو ہی متنازع بنادیا ہے ۔الیکشن نے وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے ۔اول اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ سپریم کورٹ کی وضاحت میں کوئی نیا نقطہ سامنے آئے گا اور نہ ہی عدالت کے فیصلہ میں کوئی تبدیلی ہوگی ۔ دوئم یہ کیونکہ فل بنچ کا فیصلہ تھا تو اسی بنچ کے سامنے ہی وضاحت جائے گی اور اگر فیصلہ وہی ہوتا ہے جس کاذکر ہمیں تفصیلی فیصلہ میں ملتا ہے تو الیکشن کمیشن کہاں کھڑا ہوگا ۔ سوئم اگر عدالت نے عدالتی فیصلہ تسلیم نہ کرنے پر الیکشن کمیشن پر توہین عدالت لگائی تو پھر اس کمیشن کے پاس کیا بچے گا۔جہاں تک الیکشن کمیشن کے اس نقطہ کا تعلق ہے کہ ہم پارلیمان کے قانون کو مانیں یاسپریم کورٹ کے فیصلے پر تو اصولی طور پر الیکشن کمیشن کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کرکے ہی آگے بڑھنا چاہیے تھا ۔پارلیمنٹ کے قانون کے معاملات کو حکومت اور پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے تھا تاکہ الیکشن کمیشن اس ساری صورتحال میں خود کو فریق نہ بناتا۔اگر الیکشن کمیشن یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کھیل میں وہ حکومت کی عملا سہولت کاری کرکے سیاسی فائدہ میں رہے گا تو اس کے امکانات بھی کم ہیں ۔کیونکہ جو مجوزہ آئینی ترامیم کا پیکج تھا وہ پہلے ہی کافی متنازعہ بن گیا ہے اور اس کی منظوری کے امکانات بھی وہ نہیں جو پہلے ڈرافٹ میں ظاہر کیا گیا تھا ۔ ویسے بھی کوئی بھی حکومت ہو وہ سیاست کے مفاد کو ہی بڑی ترجیح دیتی ہے اور اگر الیکشن کمیشن کے معاملے میں سپریم کورٹ نے کوئی بڑا فیصلہ کیا اور الیکشن کمیشن کو کسی بھی سطح پر جوابدہ بنایا تو یقینا حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ کھڑی ہوگی ۔
حکومت کی بنیادی لڑائی قومی اسمبلی میں اپنی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے جڑی ہوئی ہے اور اس میں مخصوص نشستوں کے کھیل کو ایک بڑی سیاسی برتری حاصل ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت نے مخصوص نشستوں پر اپنا سیاسی لنگوٹ کس لیا ہے اور یہ ہی تاثر دیا جارہا ہے کہ اس معاملہ میں حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور نہ ہی یہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں گی ۔حکومت کو انداز ہ ہے اس نظام کی بقا میں پی ٹی آئی سے مخصوص نشستیں نہ دینا ان کی سیاسی مجبوری کا کھیل ہے اور اس کھیل میں اسے چیف جسٹس، چیف الیکشن کمشنر اور اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت پوری شدت کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ڈٹ گئی ہے اور اس نے الیکشن کمیشن کو بھی ڈٹ جانے کاہی مشورہ دیا ہے ۔کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر اس نظام یا سیاسی بندوبست پر مبنی حکومت کو آگے بڑھنا ہے تو اس کی کنجی مخصوص نشستوں کے کھیل میں ہے ۔اسی طرح الیکشن کمیشن یا اسٹیبلیشمنٹ بھی سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی پر دباو برقرار رکھنے کے لیے ان سے مخصوص نشستیں لینا ہی سیاسی مفاد میں ہوگا۔ا س حکومت نے اپنے سیاسی کھیل اور اقتدار کی مجبوری کی بنیاد پر جس قدر ریاستی اداروں کی بے توقیری کی ہے یا ان اداروں میں سیاسی مداخلت کی ہے اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔آپ قومی سیاست میں ایک عمومی تصور پوری قوم سے پوچھ لیں تو لوگ یہ ہی کہیں گے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کا باہمی گٹھ جوڑ نے پورے سیاسی و جمہوری عمل کو متنازع بنا کر قومی مسائل میں اضافہ کیا ہے ۔ کوئی فرد یا ادارہ الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور سب ہی مجموعی طور پر الیکشن کمیشن پر تنقید کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ درست نہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہی ماننے سے انکار کردے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت اور الیکشن کمیشن کی اس لڑائی میں عدالتی نظام کہاں کھڑا ہوگا اور لوگ عدالتی نظام کو کہاں دیکھ رہے ہونگے ۔ الیکشن کمیشن تو عدالتی فیصلہ تسلیم نہ کرکے خود ہی تصادم کے راستے کو اختیار کررہا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس نظام میں جو بگاڑ پیدا ہوگا یا سیاسی نظام میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری سے میں الیکشن کمیشن خود کو کیسے بری الزمہ قرار دے سکتا ہے ۔ اگر حکومت خود بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکاری ہے تو پھر ریاست اور حکومت کے درمیان جو ٹکرائو پیدا ہوگا اس سے کیا ہم سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کرسکیں گے ؟۔ایسے لگتا ہے کہ اصولی طور پر طے کرلیا گیاہے کہ آئین وقانون کی حکمرانی کے مقابلے میں اپنے سیاسی مفاد کو ہی فوقیت دینی ہے اور اگر اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں میں ٹکراو ہوتا ہے تو ہمیں کوئی پروا نہیں ۔بنیادی طور پر اس وقت حکومت عدالت کی سطح پر جو ججوں میں تقسیم کا بھی فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کررہی ہے ۔سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس بھی اس سارے سیاسی بحران میں خود بھی ایک بڑے بحران کو پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔حالانکہ ان کا کردار عدالت کی تقسیم کے مقابلے میں عدالت کے نظام کو جوڑنا تھا مگر ان کے بعض فیصلوں نے عدالت کو تقسیم کیا وہیں ججز کو ایک دوسرے کے مقابلے میں بھی کھڑا کردیا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ وہ ججوں یا عدلیہ میں موجود اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر الیکشن کمیشن کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاسکتی ہے۔لیکن اس سارے کھیل کا نتیجہ ریاستی نظام کے خلاف نکلے گا ۔اب کہا جارہا ہے کہ حکومت نے جوابی وار کہا ہے کہ ایک دفعہ پھر آئینی پیکج کی منظوری پر نئی گیم اور نئی حکمت عملی کے تحت منظور کروانے کا فیصلہ کیا ہے ۔حکومت کی سیاسی بقا جہاں مخصوص نشستوں کے کھیل میں پی ٹی آئی کو ان نشستوں سے محرومی پر ہے تو دوسری طرف ان کی ساری توجہ کا مرکز مجوزہ آئینی پیکج بھی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت کواپنے سہولت کاروں کو مطمئن کرنا ہے تو پھر مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری اسی کھیل سے مشروط ہے۔دیکھنا ہوگا کہ یہ کھیل حکومت کیسے ممکن بناتی ہے اور اس کے لیے ایسی کیا حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے جو حکومت کو کھڑا کرسکے۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست ایک دفعہ پھر سجاد علی شاہ کے زمانے میں جارہی ہے جہاں حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلیشمنٹ پر مبنی تصادم نے جمہوری او رآئینی عمل کو نقصان پہنچایا تھا ۔ایک طرف حکومت کا مجوزہ آئینی پیکج اور دوسری طرف پیپلزپارٹی اپنا پیکج تیار کررہی ہے اور تیسری طرف پی ٹی آئی اور جے یو آئی مل کر ایک پیکیج تیار کررہی ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ عدالتی اصلاحات یا عدالتی نظام میں مثبت تبدیلیوں کو لانے کا نہیں بلکہ اسلام آباد میں جو بھی ایک بڑی لڑائی اقتدار اور طاقت کی کشمکش میں ہورہی ہے اس میں اپنے اقتدار کے کھیل کو زیادہ طاقت دینے سے جڑی ہوئی ہے ۔یہ بات پہلے بھی کافی دفعہ عرض کی جاچکی ہے کہ اس وقت ریاست اور حکومت میں سیاست ،جمہوریت ، آئین و قانون ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں ۔ یہاں جمہوریت کا تماشا طاقت ور افراد کا کھیل ہے اور عوام کو اس کھیل میں سوائے محرمیوں اور مصائب کے اور کچھ نہیں ملے گا۔