جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے معاہدہ راولپنڈی پر عمل درآمد نہ ہونے پر ملک بھر میں ایک تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے‘ جس کا آغاز دیا گیا تھا وہ ہوچکا ہے‘ اب فیصلہ ہوا ہے کہ جماعت اسلامی بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ پر ریفرنڈم کرائے گی معاہدے کے 45 روز مکمل ہونے پر انہوں پریس کانفرنس کی اور پوری صورت حال میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے رکھی اور اعلان کیا کہ اکتوبر میں پہیہ جام ہڑتال اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے آپشن بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں اور 23 سے 27 اکتوبر تک عوامی ریفرنڈم ہوگا انہوں نے کہا کہ عوام کا پیمانہ صبر جواب دے چکا ہے، یہ لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور بجلی و گیس کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں پر عوام کو فوری ریلیف دے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے جو کچھ کہا وہ ایک حقیقت ہے۔ بجلی کے بھاری بل ابھی تک عوام کے لیے جان لیوا ہیں۔ پنجاب میں دو ماہ کا جو عارضی ریلیف دیا گیا تھا وہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ مضطرب عوام سیاسی تحریکوں کا حصہ بنیں گے تو حکومت کے لیے زیادہ مشکلات پیدا ہوں گی۔ عوام کو غربت، مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل میں مستقل ریلیف دے کر ہی مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے تک نون لیگ اور پی پی پی کے رہنما عوامی جلسے میں بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم تین سو یونٹ تک بجلی مفت دیں گے اور مہنگائی سے عوام کو نجات دلائیں گے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہی انھیں اپنے وہ سارے وعدے بھول گئے اور اب آئی ایم ایف کا نام لے کر مسلسل عوام کے معاشی بوجھ میں اضافہ کیا جارہا ہے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کے مرکزی راہنمائوں کے ساتھ مشاورت کی ہے 29ستمبراتوار کو پورے ملک کی اہم شاہراؤں پر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا وجہ یہ ہے کہ حکومت نے راولپنڈی معاہدہ پر عملدرآمد نہیں کیا اور میڈیا کے ذریعے قوم کے سے غلط بیانی کی۔ حکمرانوں نے گزشتہ 45 روز میں چند نمائشی اقدامات کیے جب کہ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ معاہدہ پر مکمل عملدرآمد ہوگا، جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکن ان اقدامات کو تسلیم نہیں کرتے‘ لہٰذا مطالبہ ہے کہ پورے ملک کی عوام کو بجلی کے بلوں پر فوری ریلیف دیا جائے۔ بجلی کی اصل پیداروی لاگت کے مطابق پورے ملک میں یکساں ٹیرف نافذکیا جائے۔ اسی طرح آئی پی پیز معاہدوں کوبھی ختم کیاجائے، حکومت آئی پی پیز سے معاہدہ کے متعلق اخباری بیانات دینے کی بجائے عملی اقدامات اٹھائیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا جماعت اسلامی بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ پر ریفرنڈم کرائے گی 23سے 27 اکتوبر تک پانچ روز عوامی ریفرنڈم ہوگا،اس دوران میں تمام پبلک مقامات پر ووٹ بکس رکھے جائیں گے، ریفرنڈم کے لیے تمام صوبوں میں الیکشن کمیشن تشکیل دیے جائیں گے۔وکلاء، تاجروں، علما ےکرام، خواتین، طالب علموں، مساجد، مدارس سمیت تمام طبقہ ہائے فکر سے رابطے کیے جائیں گے۔ اس کے بعدپہیہ جام کا اعلان کر سکتے ہیں۔ 7اکتوبر کو غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں ہفتہ یکجہتی فلسطین و لبنان منایا جائے گا اسلام آباد اور کراچی میں ملین مارچ ہوں گے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اہل فلسطین و لبنان کے حق میں گھروں سے نکلیں اور پرامن احتجاج کریں۔ جماعت اسلامی انارکی نہیں چاہتی اسی لیے عوام کو منظم کرکے پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے۔انہوں نے جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان کو ہدایات جاری کیں کہ شاہراؤں پر دھرنے کے لیے عوام کو مکمل یکسوئی کے ساتھ متحرک کیا جائے جماعت اسلامی نے عوام کے حقوق کے لیے حق دوتحریک کا آغاز کیا ہے۔ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور جاگیرداروں پر ٹیکس لگائے اور تنخواہ دار طبقہ اور تاجروں کو ٹیکس میں ریلیف دے، اسی طرح حکمران اپنی عیاشیاں اور مراعات ختم کریں اور سود کی شرح کو بتدریج کم کیا جائے۔ ان اقدامات سے ہونی والی اربوں روپے کی بچت کو بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے استعمال کیا جائے۔ پٹرول کی قیمت کو عالمی منڈی کے مطابق لایا جائے اور پٹرولیم لیوی ختم کی جائے، حکومت کو عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی سے کم وبیش 25ارب ڈالر کا فائدہ امپورٹ بل کی صورت میں حاصل ہوا ہے، اس فائدہ سے عوام کو ریلیف ملے تو پٹرول کی قیمت 150روپے فی لٹر تک آجائے گی جماعت اسلامی کی تحریک کا مقصد جمہوری آزادیاں، بچوں کی تعلیم، عوام کے لیے صحت کی سہولتوں کی دستیابی، انصاف کی فراہمی، الیکشن اور لینڈاصلاحات،خواتین کے لیے وراثت کے حق، نوجوانوں کے لیے روزگار اور دیگر عوامی ریلیف کے اقدامات ہیں۔ تحریک کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے ملک گیر ممبر شپ مہم بھی شروع کی ہے جسے بھرپور عوامی پذیرائی مل رہی ہے، حق دو تحریک کا اولین مقصد عوام کے لیے بجلی بلوں پر ریلیف ہے۔، دیہات، تعلیم گاہوں میں رابطے کریں گے۔ یہ سب جانتے ہیں اور معاشی ماہرین بھی کہہ رہے ہیں آئی ایم ایف کے سارے مطالبات کیا عوام پر بوجھ ڈالنے سے متعلق ہی ہیں؟ اشرافیہ اور بیوروکریسی کو سرکاری خزانے سے جو اربوں ڈالر کی مراعات و سہولیات دی جارہی ہیں ان کے بارے میں کیا آئی ایم ایف کچھ نہیں کہتا؟ کیا ان مراعات و سہولیات سے خزانے پر بوجھ نہیں پڑتا؟ عوام کی باری آتی ہے تو سیاست دان سرکاری خزانے کے خالی ہونے کا رونا رونے لگتے ہیں۔ عوام کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے، ایسا نہ ہو کہ تنگ آمد بجنگ آمد کی مصداق وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور پھر حکومت چاہ کر بھی ان کو قابو نہ کر پائے۔۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر حکومت اعداد و شمار کی حد تک جس معاشی ترقی اور بہتری کے دعوے کررہی ہوتی ہے، عوامی حلقوں میں وہ ترقی اور بہتری کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس بار بھی یہی سب ہورہا ہے اور حکومت کے دعوؤں کے برعکس عام آدمی کے لیے یوٹیلیٹی بلز ادا کرنا اور دو وقت کی روٹی کھانا نہایت مشکل ہوچکا ہے حقیقت یہ ہے کہ فی الحال تو حکومت کی جانب سے وعدے، دعوے اور عزم کا ہی اعادہ کیا جا رہا ہے، عملی طور پر اب تک کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔(باقی صفحہ نمبر33 پر)
ہر کوئی اپنی من مانی کرتے ہوئے اشیاء کے نرخ بڑھا رہا ہے، کہیں چیک اینڈ بیلنس نظر نہیں آ رہا۔ بے روزگاری انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس وقت اتحادی جماعتیں اقتدار میں ہیں اور عوامی مسائل حل کرنے کا بھرپور اختیار رکھتی ہیں۔ بہتر ہے ارادے اور عزم کے بجائے عوامی مسائل عملی طور پر حل کیے جائیں اگر حکومت واقعی عوامی حالت بہتر بنانا چاہتی ہے تو اپنے شاہی اخراجات میں کمی لا کر اور اشرافیہ طبقات کی مراعات ختم کر کے عوامی مشکلات میں کمی کر سکتی ہے۔ زبانی جمع خرچ سے عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔اس سلسلے میں کرنے کا سب سے اہم کام یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے جو بے تحاشا مراعات و سہولیات دی جارہی ہیں ان کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جو بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کیا وہ واقعی ایسی مراعات و سہولیات دے کر معاشی حوالے سے استحکام حاصل کرسکتا ہے؟ کوئی بھی حکومت اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے چنیدہ نمائندے ہی مل کر حکومت بناتے ہیں اور اسے چلانے کے لیے وہ بیوروکریسی کو نوازتے رہتے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اب ہم بیرونی امداد کے بغیر چلنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ حکومتی ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنے بیانات کے ذریعے عوام کو فریب دینے کی بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔