پاکستان کی تاریخ کا پہلا سیرت فیسٹیول اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ ایک روایتی سرگرمی نہیں تھی۔ اس میں کچھ باتیں خاص تھیں۔ وہ خاص باتیں کیا تھیں؟
دو روزہ بین الا قوامی سیرت کانفرنس اس کا جزوِ اعظم تھا جس میں امریکہ‘ برطانیہ‘ مراکش‘ عراق اور پاکستان بھر سے سکالرز اور علما شریک ہوئے۔ بشپ آف لاہور نے بھی شرکت کی اور رحمۃ للعالمینﷺ کی وسعت کا حوالہ دیا جس نے نجران کے مسیحیوں کو بھی اپنے سایے میں لے لیا تھا۔ یہ کانفرنسیں روایتی طور پر اہلِ علم کے مابین مکالمے کی مجالس ہوتی ہیں۔ ان کا دائرہ اگر وسیع کیا جاتا ہے تو بس اتنا کہ پی ایچ ڈی یا ایم فل سطح کے طلبہ و طالبات کو اس میں شریک کر لیا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں مگر ایک مختلف انداز اختیار کیا گیا۔ اس میں نوجوان طلبہ و طالبات کو بھی شریک کیا گیا‘ جن کی اکثریت شاید ان مباحث کو اس طرح نہ سمجھ سکتی ہو جیسے کوئی سکالر یا محقق سمجھ سکتا ہے۔
اس کا کچھ مقاصد تھے۔ ایک تو یہ کہ نئی نسل کے کان جب سیرتِ نبیﷺ پر علمی گفتگو کو سنیں تو شاید بعض کی سماعتیں کسی ایک آدھ بات کو محفوظ کر لیں۔ یہ بات آنے والے دنوں میں ان کی زندگی کو ایک رُخ دے دے۔ دوسرا نئی نسل کو یہ معلوم ہو کہ اہلِ علم جب کسی موضوع پرکلام کرتے ہیں تو ان کا اسلوب کیا ہوتا ہے۔ ہمارے کان مذہبی موضوعات پر غیرجذباتی گفتگو سننے کے خوگر نہیں رہے۔ نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ دین کی بات دھیمے لہجے میں بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے اپنا گلا اور دوسرے کے کانوں کے پردے پھاڑنا ضروری نہیں۔ تیسرا یہ کہ کوئی ذہین بچہ ان مباحث سے متاثر ہو کر مستقبل میں دین کا سکالر اور عالم بننے کا فیصلہ کر لے۔
اس معاشرے کا المیہ ہے کہ یہ سب سے کند ذہن بچوں کو دین کی تعلیم کے لیے وقف کرتا ہے‘ اِلّا ما شاء اللہ۔ والدین کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ بچہ ڈاکٹر‘ آئی ٹی ماہر وغیرہ بن جائے۔ جسے کہیں داخلہ نہ ملے اسے مدرسے بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر سماج کے ذہین بچوں کو‘ جو اس وقت جدید تعلیمی نظام کا حصہ ہیں‘ اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ اللہ کے دین اور پیغمبر سیدنا محمدﷺ کی سیرت کے طالب علم بنیں تو ہمارا سماجی ماحول کہیں زیادہ پُرامن اور دین دار ہو سکتا ہے۔ اس سے سماجی سطح پر اہلِ مذہب کا وقار بڑھ سکتا ہے۔ چند علما اور سماج کے بعض افراد نے شعوری طور پر اپنے بچوں کو دینی مدرسے میں بھیجا ہے۔ ایسے بچے جب عالم بنے ہیں تو انہوں نے دینی ادب میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ دین کو سطحی مباحث سے بلند کیا ہے۔ فرقہ واریت اور لاحاصل بحثوں میں وہی اُلجھے ہیں جو دین کی روح تک نہیں پہنچ پائے۔ ان میں اکثریت ان کی ہے جنہوں نے اپنے انتخاب سے نہیں‘ مجبوری سے مدرسے کا رُخ کیا یا انہیں بزور اس جانب دھکیلا گیا۔
اگر علمی کانفرنسوں میں اس طرز کے سنجیدہ دینی مباحث میں نئی نسل کو شامل کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ علم کے ہر شعبے میں ہمیں یکساں مہارت رکھنے والے لوگ مل سکتے ہیں۔ اس کانفرنس کے علمی اجلاسوں میں سینکڑوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شریک ہوئے۔ مجھے امید ہے کہ ان میں ایسے ضرور ہوں گے جو آنے والے کل میں ان شاء اللہ دین کے بڑے عالم بنیں گے اور وہ دین عوام اور سماج تک پہنچائیں گے جو قرآن و سنت میں بیان ہوا ہے اور دیگر آلائشوں سے پاک ہے۔ ایسے بھی ہوں گے جن کے وہ دینی تصورات تبدیل ہوئے ہوں جو نیم خواندہ لوگوں کی تقریروں سے بنے ہیں۔
اس فیسٹیول کی ایک اور خاص بات ‘یوتھ کنونشن‘ تھا۔ اس میں معاشرے کے نمایاں لوگوں نے نئی نسل کو یہ بتایا کہ نبی کریمﷺ کے ساتھ ہمارے تعلق کی بنیادیں کیا ہونی چاہئیں۔ ہمیں سیرت کا مطالعہ کرنا اور پھر اس پر عمل بھی کرنا چاہیے کہ سیرت کا علم کسی دوسرے مضمون کی طرح محض ایک تعلیمی مشق نہیں ہے کہ امتحانی نقطۂ نظر سے پڑھا جائے۔ ہمیں سیرت کو جاننا اور پھر اپنانا ہے۔ جاننے سے سکول کالج کے امتحان میں کامیاب ہو سکتے ہیں مگر آخرت کے امتحان میں کامیابی کے لیے اسے اپنانا لازم ہے۔ کامیاب لوگوں نے اس یوتھ کنونشن میں نئی نسل کو اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ اپنے علم کی روشنی میں انہیں بتایا کہ انہیں سیرت پر کیا پڑھنا چاہیے۔ اس وقت مسلمانوں کو کون کون سے علمی چیلنج درپیش ہیں اور ہمیں اس کے لیے کیسی تیاری کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سمجھایا گیا کہ جذبات کی تہذیب نبیﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کا ناگزیر حصہ ہے۔ مذہب کے نام پر تشدد اور قتل و غارت گری نبی ٔ رحمتﷺ کی تعلیمات کو مسخ کرنا ہے۔
اس فیسٹیول میں پہلی بار ایک ایسے کتاب میلے کا اہتمام کیا گیا جس میں 80 فیصد کتب کم و بیش سیرت سے متعلق تھیں۔ 15 فیصد دیگر دینی موضوعات پر۔ میرے علم کی حد تک پاکستان میں ایسا کتاب میلہ اس سے پہلے منعقد نہیں ہوا جس میں کتبِ سیرت کو اس طرح مرکزیت حاصل ہو۔ ملک کی معتبر شخصیات نے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا۔ مثال کے طور پر ممتاز صحافی محترم حامد میرصاحب نے اس میلے سے ہزاروں روپے کی کتب خریدیں اور کسی ادارے سے اعزازی کتاب قبول نہیں کی۔ علامہ افتخار حسین نقوی صاحب نے اپنی یونیورسٹی کی لائبریری کے لیے سیرت پر ہر کتاب کے کم ازکم ایک نسخے کی خریداری کے لیے اپنے سٹاف کو ہدایت کی۔
اس فیسٹیول کو اس طرح پورے ملک میں پھیلا دیا گیا کہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن نے اپنے ہر بُک سٹال پر ادارے کی کتب پر 50 سے 60 فیصد تک رعایت کا اعلان کیا اور قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے ساتھ مل کر پورے پاکستان میں ایسے کئی کتاب میلے منعقد کیے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی ذاتِ والا صفات کے کلام اور سیرت سے جو علمِ نافع پھوٹا‘ یہ اس کے فروغ کی ایک کوشش تھی۔
نبی کریمﷺ کے اسمائے گرامی کی خوبصورت خطاطی کی نمائش بھی اس فیسٹیول کا حصہ تھی۔ پاکستان کے ممتاز خطاط واصل شاہد کے فن پاروں کے علاوہ ‘مسلم ہینڈز‘ کے زیرِ اہتمام قائم تعلیمی اداروں کے بچے بھی موجود تھے جو قرآن مجید کی خطاطی کر رہے تھے۔ ان بچوں کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے سر سے والد کا سایہ اُٹھ گیا لیکن اللہ نے ان کے ہاتھ میں ایک خوبصورت قلم تھما دیا۔ نعتیہ مشاعرہ بھی اس فیسٹیول کا حصہ تھا۔ خطاطی اور شعر انسانی شخصیت کے جمالیاتی پہلو کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔ مسلم تہذیب نے آرٹ کی جس روایت کو جنم دیا ‘فیسٹیول میں اس کا اظہارکیا گیا۔
قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ کے آخری رسولﷺ کی سیرت پر تحقیق کی جائے اور اس کی روشنی میں سماج‘ بالخصوص نئی نسل کی اخلاقی تعمیر کی جائے۔ کتب‘ کانفرنسوں اور علمی مجالس کے ذریعے سیرت کا پیغام ہر فرد تک پہنچایا جائے۔ محض ایک سال کے عرصے میں اتھارٹی سیرت کے حوالے سے تین مطبوعات سامنے لا چکی ہے۔ چار کتب اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ کانفرنسوں اور لیکچرز کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس فیسٹیول سے اتھارٹی نے ملک کے اہلِ علم اور عوام دونوں کو اپنا مخاطَب بنایا ہے۔ اس میں علمِ نبیﷺ کے ساتھ سیرتِ نبیﷺ کے حسن و افادیت کو عام کیا گیا ہے۔ ‘رحمت سب کے لیے‘ اس اتھارٹی کا پیغام ہے۔ یہ فیسٹیول اس کوشش کے سوا کچھ نہیں تھا کہ علامہ اقبال کی اس خواہش کو واقعہ بنا دیا جائے:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
(خورشید ندیم،روزنامہ دنیا،24ستمبر۔24)