تحریک اسلامی اپنا ایک خاص مزاج رکھتی ہے اور اس کا ایک مخصوص طریق کار ہے جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ جو لوگ اب تک مختلف قومی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور جن کی طبیعتیں انہیں کے طریقوں سے مانوس رہی ہیں، انہیں اس جماعت میں آکر اپنے آپ کو بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ جلسے اور جلوس، جھنڈے اور نعرے، یونیفارم اور مظاہرے، ریزولیوشن اور ایڈریس، بے لگام تقریریں اور گرما گرم تحریریں، اور اس نوعیت کی تمام چیزیں ان تحریکوں کی جان ہیں مگر اس تحریک کے لیے سم قاتل ہیں۔ جہاں کا طریق کار قرآن ، سیرت محمدی اور صحابہ کی سیرتوں سے سیکھئے اور اس کی عادت ڈالیے۔ آپ کو زبان یا قلم یا مظاہروں سے عوام پر سحر نہیں کرنا ہے کہ ان کے ریوڑ کے ریوڑ آپ کے پاس آجائیں اور آپ انہیں ہانکتے پھریں۔ آپ کو ان میں حقیقت اسلامی کی معرفت پیدا کرنی ہے اور عرفان حقیقت کے بعد ان میں یہ عزم پیدا کرنا ہے کہ اپنی انفرادی زندگی اور گرد و پیش کی اجتماعی زندگی کو اس حقیقت کے مطابق بنائیں اور جو کچھ باطل ہو اس کو مٹانے میں جان و مال کی بازی لگادیں۔ لوگوں کے اندر یہ گہری تبدیلی ساحری اور شاعری سے پیدا نہیں ہوا کرتی۔ آپ میں سے جو مقرر ہوں وہ پچھلے انداز تقریر کو بدلیں اور ذمہ دار مومن کی طرح جچی تلی تقریر کی عادت ڈالیں، اور جو محرر ہیں انہیں بھی غیر ذمہ دارانہ انداز تحریر کو بدل کر اس آدمی کی سی تحریر اختیار کرنی چاہئے جو لکھتے وقت احساس رکھتا ہے کہ اسے اپنے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔
اسلامی تحریک میں کام کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کے گرد و پیش جو ہنگامے دنیا طلب لوگوں نے برپا کر رکھے ہیں اور جن کا آپ کی تحریک کے نصب العین سے کوئی تعلق نہیں ہے ان سے آپ اس قدر بے تعلق ہوکر رہیں کہ گویا وہ آپ کے لیے معدوم محض ہیں۔ آپ کو اسمبلیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں اور ان کے الیکشنوں سے اور ہندو اور مسلمان اور سکھ وغیرہ قوموں کے نفسیاتی جھگڑوں سے اور مختلف پارٹیوں اور مذہبی فرقوں اور مقامی قبیلوں اور برادریوں کے تنازعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہئے۔ بالکل یکسو ہوکر اپنے نصب العین کے پیچھے لگ جایئے اور دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے ہونے دیجئے جو عمل خدا کی راہ میں نہیں ہے اس میں مشغول ہوکر آپ اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کریں گے۔ حالانکہ آپ کو اپنے وقت اور اپنی قوتوں کا حساب دینا ہے۔
(مولانا مودودیؒ،روداد جماعت اسلامی)