دنیا بھر میں مسلمان جن حالات سے دو چار ہیں اور جس طرح انہیں صبح و شام ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے، ان حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ پوری امت مسلمہ مثالی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کی حفاظت کی خاطر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہو جائے مگر اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جائے کہ ساری امت بے حسی کی چادر تانے محو استراحت ہے نتیجہ یہ ہے کہ برصغیر سے مشرق و سطیٰ تک ظلم و جبر کی قوتیں پاگل بھیڑیوں کی طرح دندناتی پھر رہی ہیں انہیں کسی مزاحمت کا خوف تک نہیں جو ذرا سر اٹھانے کی جرأت کرتا ہے اسے سختی سے کچل دیا جاتا ہے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ اس کی نمایاں اور تازہ مثالیں ہیں جب کہ مسلم امہ کی کیفیت یہ ہے کہ:
وائے ناکامی متاع کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
باقی امت کا ماتم تو بعد کی بات ہے، دنیا کی واحد مسلمان جوہری مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالت یہ ہے کہ کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تک نہیں۔ مملکت کے حکمران اور ادارے اپنی عالمی ذمہ داریوں کو قطعی فراموش کئے باہم سرپھٹول میں مصروف ہیں ریاست کے اہم ادارے ایک دوسرے پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کی کوششوں میں آپس میں بھی دست و گریباں ہیں اور ان اداروں کے اندر مختلف الخیال عناصر کی کشمکش بھی خاصی شدت اختیار کر چکی ہے، کون سا حربہ ہے جو مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس ساری اندرونی اور بیرونی آویزش میں نام آئین اور قانون کا استعمال کیا جا رہا ہے مگر کون نہیں جانتا کہ آئین تو محض ایک بہانہ ہے، اصل مقصد اپنے ذاتی، جماعتی، اداراتی اور گروہی مفادات کا تحفظ ہے… ورنہ آئین کو تو خود یہ حکمران اور ارباب اقتدار و اختیار اس بری طرح پامال کر رہے ہیں کہ خدا کی پناہ!
آئین میں تو واضح الفاظ میں درج ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون مملکت خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج نہیں رہ سکتا مگر ہمارا سارا نظام مملکت ہی اللہ اور رسولؐ کے احکام سے بغاوت پر مبنی ہے۔ سود جیسی لعنت، جس کے خاتمہ کا وعدہ آئین میں دو ٹوک الفاظ میں کیا گیا ہے کہ یہ خدا و رسولؐ سے جنگ کے مترادف اور مسلم مملکت کی معاشی تباہی کا پیش خیمہ ہے مگر ہم یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے پر تیار نہیں۔ عالمی ساہو کاروں نے ہماری اقتصادیات کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے مگر ہمارے ارباب اقتدار اس ظالمانہ نظام کو قوم پر مسلط رکھنے پر بضد ہیں۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں بار بار سود کے خاتمہ اور معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے احکام جاری کر چکی ہیں مگر حکمران حیلوں بہانوں سے ان احکام پر عملدرآمد کو ٹالتے چلے جا رہے ہیں…!
پاکستان کے بانیان نے قیام پاکستان سے بھی قبل یہ طے کر دیا تھا کہ نئی مملکت کی قومی زبان اردو ہو گی… 1973 ء کے متفقہ آئین میں بھی قوم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ تمام کاروبار مملکت میں پندرہ برس میں اردو زبان رائج کر دی جائے گی مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا… پندرہ برس 14 اگست 1988ء کو مکمل ہو گئے اور اردو کو سرکاری زبان بننا تھا نہ بنی محبان اردو نے جدوجہد جاری رکھی اور 2001ء میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے اس مقصد کے لیے رجوع کیا گیا، یہاں بھی پندرہ برس تک یہ درخواست معرض التوا میں پڑی رہی۔ آخر جسٹس جواد ایس خواجہ نے منصف اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو ان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے اس آئینی درخواست کی سماعت کی اور آٹھ ستمبر 2015ء کو حکم جاری کیا کہ حکومت نوے دن کے اندر اندر قومی زبان اردو کو ہر سطح پر سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کرے۔ اس حکم کو بھی اب دس برس ہونے کو آئے ہیں مگر ہنوز تشنۂ تکمیل ہے، ملک کا سارا نظام آج بھی انگریزی کا غلام ہے… اس معاملہ کا انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جس عدالت عظمیٰ نے یہ حکم جاری کیا تھا وہ خود بھی آج تک اس حکم کی خلاف ورزی گویا توہین عدالت کی مرتکب ہو رہی ہے اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے ابھی تک انگریزی میں جاری کئے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال کے خلاف کس سے فریاد کی جائے۔ چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا مانند مسلمانی منصف اعلیٰ جناب قاضی فائز عیسیٰ کو آئین و قانون کے تحفظ کی دیگر ’’سرگرمیوں‘‘ سے فرست ملے تو وہ براہ کرم آئین اور عدالت عظمیٰ کے اس حکم کی پامالی کی جانب بھی توجہ فرمائیں کہ جس بنچ نے نفاذ اردو کا یہ حکم جاری کیا تھا محترم قاضی صاحب بھی اس کا حصہ تھے…!
تازہ خبر یہ ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم کے ادارے ’’اعلیٰ نظامت تعلیم‘‘ (ایچ ای سی) کے سربراہ نے یہ حکم جاری کر دیا ہے کہ بی اے کی سطح پر اردو کا مضمون لازمی اور اختیاری دونوں حیثیتوں سے ختم کر دیا جائے۔ حیراں ہوں کہ رؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں‘‘ آئین و قانون کی پامالی اور توہین عدالت کی اس کے بعد بھی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ شاعر نے کہا تھا:
ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا؟
آگے آگے دیکھئے، ہوتا ہے کیا؟
(حامد ریاض ڈوگر)