ادارہ ادب اسلامی دہلی کے زیر اہتمام ”تیرا وجود الکتاب“ کے عنوان سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک سمینار منعقد کیا گیا فن نعت گوئی پر مختلف زاویوں سے گفتگو کے لئے مختلف عناوین پر مقالات پیش کئے گئے پروفیسر حسن رضا پروفیسر سراج اجملی پروفیسر کوثر مظہری ڈاکٹر واحد نظیر ڈاکٹر خالد مبشر اور دیگر باوقار ادباء کی موجودگی نے اس انعقاد کو یادگار بنادیا
لوح بھی تو قلم بھی تو
عشق قتیل ذوق و شوق حسن حریص اجتناب
وصل ، کہ لذت سکوت ، ہجر کہ گرمی خطاب
ثور و حرا کی تابشیں بدر و احد کے پیچ و تاب
اے کہ ترے وجود میں رقصاں، ہزار ماہتاب
تیرے نقوش راہ کا پاس نہ ہو تو قافلہ
گرد قتیل گمرہی ، صید حبالہء سراب
مشعل راہ عشق ہے تیرے قدم قدم کی ضو
تیری نوائےشوخ سے دشت جنوں میں اضطراب
گاہ تجلی حرا ، گاہ بلندی صفا
گاہ براق در بغل روح الامیں کے ہمرکاب
تیری نگاہ تا کجا ، میری نگاہ تا کجا
تیرا غیاب بھی حضور میرا حضور بھی غیاب
فقر کو بھی عطا کرے تیری نظر سکندری
قمری پر شکستہ بھی حامل جرأت عقاب
تیری نظر کے فیض سے سنگ بھی موم ہوگئے
سیف وسناں بدست بھی تیری نگاہ سے گلاب
دنیا اسیر ذات تھی محو تو ہمات تھی
تیری تجلیات سے بزم طلوع آفتاب
پیکر دلربا بھی تو نازش میکدہ بھی تو
”لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب“
تیرے نیاز مند کو ہیچ ہزار تخت و تاج
رشک ہزار مرحبی ایک ادائے بو تراب
کتنے بلال و فارسی تجھ سے عروج پاگئے
کتنے چراغ بن گئے تیرے کرم سے آفتاب
تیری ادا سے آشنا باغ بہشت کے طیور
برگ بہشت سے مگر میری سرشت بے نقاب
منت کش دوا مکن شاہا مریض عشق را
تاب فغاں نہ تاب ضبط بزمی ز ہجر و اجتناب