جن قارئین کا حافظہ اچھا ہے اُنھیںیاد ہوگا کہ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں کالم نگار ’کلٹی‘ ہوتے ہوتے بچا تھا۔ بچ جانے کے باوجود نہ جانے کس جھونک میں آکر لکھ بیٹھا ’’کلٹی کی کہانی پھر سہی‘‘۔ خبر نہ تھی کہ کالم نگار اپنے ہی لکھے پر پکڑا جائے گا۔ قارئین کی طرف سے اصرار کے جھونکوں پر جھونکے آنے لگیں گے کہ میاں باقی موضوعات کو چولھے میں جھونکو، پہلے کلٹی کی کہانی کہو۔
کہیںگے صاحب! کلٹی کی کہانی بھی کہیں گے۔ مگرپہلے یہ جان لیجے کہ پاکستانی زبانوں کے الفاظ قومی زبان میں ضم ہوتے دیکھ کر ہماری تو ’دل پشوری‘ ہوجاتی ہے۔ [بے پناہ لذت، خوشی اور مسرت حاصل ہونے کی کیفیت پشتو میں ’دل پشوری‘کہلاتی ہے۔]
’کلٹی‘ بلوچی زبان کا معروف لفظ ہے، بالخصوص اہلِ مکران کی زبان کا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر فرید بروہی سے رجوع لائے تو جواب ملا:
’’براہوی اور بلوچی زبان میں استعمال ہونے والا یہ لفظ کثیر المعانی ہے۔ ’کلٹی ہوجانے‘ کا مطلب ہے اُلٹ جانا، پلٹ جانا، قلابازی کھانا، بے ہوش ہوجانا، بھاگ لینا یا غائب ہوجانا، وغیرہ وغیرہ۔ استعمال کا موقع دیکھ کر معنی متعین کیے جاتے ہیں‘‘۔
دیگر پاکستانیوں کی طرح عروس البلاد کراچی میں بلوچ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ساحلوں پر بلوچوں کی بڑی بڑی بستیاں ہیں۔ زیادہ آبادی مکرانیوں کی ہے۔ ہمارا بھی مکرانیوں ہی سے زیادہ واسطہ رہا۔ مکرانی دیکھنے میں بڑے تُند خو، اکھڑ، اَڑیل اور لڑاکا لگتے ہیں، مگر برتاؤ میں بہت نرم خُو، خوش مزاج، حاضر جواب اور مزاح گو، بلکہ کسی حد تک مسخرے ہوتے ہیں۔ عربی، فارسی اور بلوچی الفاظ ملا کر اُردو بولتے ہیں تو بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ بلوچستان آدھا ایران میں ہے، فارسی وہاں سے آگئی۔ ساحلی بلوچوں، بالخصوص مکرانیوں کا پیشہ ماہی گیری ہے۔ گوادر سے مسقط ہے ہی کتنا دور؟ بادبانی کشتیوں تک میں اُڑتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور عربی الفاظ اُڑا لاتے ہیں۔ بلوچی ہے ہی ان کی مادری زبان۔ مختار مسعود مرحوم نے اپنی کتاب ’’سفرنصیب‘‘ میں ایک بلوچ چرواہے سے ملاقات کا ذکر کیا ہے:
’’مسافر رخصت ہوا تو چرواہے نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور کہا چم سرد۔ ترجمان کی ضرورت پڑ گئی۔ معلوم ہوا کہ چم سرد برابر چشم سرد۔ اور مطلب یہ کہ خوش رہو تمھیں دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچی ہے‘‘۔
گویا اُردو ہی کا نہیں، انھوں نے فارسی کا بھی بیڑا غرق کیا ہے۔ بِرو (جاؤ) کو برّے کہتے ہم نے خود سنا ہے۔ ہمارے مکرانی بھائی ہاتھ گاڑی اور گدھے گاڑی سے لے کر ٹرک اورریل گاڑی تک ہر قسم کی گاڑیاں بڑی خوش مزاجی سے چلالیتے ہیں۔ خوش مزاجی کی انتہا یہ کہ ان کے مسخرے پن سے اہل القبور بھی محروم نہیں۔کراچی کے کئی بس اسٹاپوںکے ساتھ ’قبرستان‘ کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ سعودآباد کے ایک بس اسٹاپ کا تو نام ہی ’قبرستان‘ تھا۔ وہاں کی ویگنوں پر مکرانی بھائی ہی ڈرائیوری کنڈکٹری کرتے ہیں۔ ایک کنڈکٹر بھائی کو یہ نام بالکل نہ بھایا، ویگن اور زندگی کے مسافروں سے کیسے کہیں کہ ’’قبرستان جانے والو اُترجاؤ‘‘۔ مروّت مارگئی۔ لہٰذا اپنے مخصوص مکرانی لہجے میں صدا لگائی:
’’کاموش کالونی، کاموش کالونی… کاموش کالونی جانے والو کاموشی سے گیٹ پر آجاؤ‘‘۔
مگر آنے والے قہقہہ لگاتے ہوئے گیٹ پر آئے۔ مکرانی بھائی جب اُردو بولتے ہیں تو اُن کے لہجے میں ایک للکار ہوتی ہے۔ ’ارے‘ کو ’اڑے‘ کہتے ہیں اورتکیۂ کلام کے طور پر استعمال کر تے ہیں۔ ’نا‘ کو ’نی‘ بولتے ہیں۔’’ارے جاؤنا!‘‘ کہنا ہو تو ’’اڑے جاؤ نی‘‘ کہیں گے۔ کسی پر لعنت بھیجنا ہو تو ’’تُھو! ڑے!‘‘کہہ کر اپنی ہتھیلی ’ملعون‘ کے چہرے تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔کٹھن سے کٹھن مواقع پر بھی ظرافت و حاضر جوابی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ کراچی کے ویگن والوں نے ہر ’روٹ‘ پر ایک نہ ایک مستقر ایسا مقرر کر رکھا ہے، جہاں جم کر وہ پچھلی ویگن کا انتظار کرتے ہیں۔ جب تک پچھلی گاڑی نہ آجائے اگلی سرکتی بھی نہیں۔ ایسا ہی ایک اسٹاپ شہید ملت روڈ اور شارع فیصل کے سنگم پر تھا۔ ویگن ٹھس کھڑی تھی۔ مسافروں کا گرمی سے بُرا حال تھا۔ گرمی کھائے ہوئے مسافر ویگن کو بُری طرح پیٹ رہے تھے اور کنڈکٹر ڈرائیور کو بہ آوازِ بلند ناقابلِ اشاعت القاب سے پکار رہے تھے۔ مگر ڈرائیور کنڈکٹر دونوں ویگن سے اُترکر فٹ پاتھ پر اُکڑوںبیٹھے محوِ انتظار تھے۔ پچھلی ویگن آئی اور فرّاٹے بھرتی ہوئی یہ جا وہ جا۔ اُصولاً اُسے رُکنا چاہیے تھا۔ آگے کی سواریوں پر حق ’منتظر‘ ویگن کا تھا۔ پچھلی ویگن کی چالاکی و مکاری دیکھ کر دونوں فضائیہ کے ہوا بازوں کی طرح دوڑے اور کود، کود کر ویگن میں سوار ہوگئے۔ ویگن نے یکلخت ایسی اُڑان بھری کہ کئی بار ’کلٹی‘ ہوتے ہوتے بچی۔ متعدد مسافروں کی منزل پیچھے رہ گئی۔ اب لوگ رُکوانے کے لیے ویگن کو پیٹ رہے ہیں اورایک بار پھر دونوں کو ناقابلِ اشاعت القاب سے مخاطب کررہے ہیں۔ پُر اب بھی دونوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ بالآخر طویل تعاقب کے بعد اُنھوں نے اگلی ویگن کو ملیر سٹی کے مستقل مستقر پر جا پکڑا۔ پیچھا کرنے والا ڈرائیورچھلانگ لگاکر نیچے اُترا اور تیزی سے اگلی ویگن کے ’کاک پِٹ‘ کی طرف لپکا۔ اتنے میں اگلی ویگن کا ڈرائیور بھی کود چکا تھا۔ وہ بھی سینہ چوڑا کرکے اکڑتا ہوا پیچھے آیا اورتعاقب کرنے والے ڈرائیورکو للکار کر پوچھا:’’اڑے تم جانتا نئیں اے اَم کون اے؟‘‘
تعاقب کرنے والے نے اقراری لہجے مگرکڑک آواز میں اپنی معلومات کا اظہار کیا: ’’اڑے اَم جانتا ہوں… تم لومڑی اے!‘‘
دونوں ویگنوں کے مسافروں کا ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔ ساری کوفت ہنسی میں بدل گئی۔
کہانی تو ’کلٹی‘ کی چل رہی تھی۔ ڈاکٹر عبدالفرید بروہی نے ٹھیک بتایا۔ مختلف معنوں میں ’کلٹی‘کا استعمال کراچی میں اکثر سننے کو ملتا ہے۔ مثلاً:’’ٹرک کلٹی ہوگیا‘‘۔ ’’صوفا کلٹی کرو گے تو سیڑھی سے جائے گا‘‘۔ ’’گولچی نے کلٹی کھا کر گول بچا لیا‘‘وغیرہ۔ ایک مکالمہ مزید سنیے:
ملازم: ’’اُستاد! تُمارا تیل کا پیپا اَمارے سے کلٹی ہوگیا اے‘‘۔
دکان دار: ’’فِر اَبی تم بھی اَمارا دکان سے کلٹی ہوجاؤ۔شاوَش۔ اپنا پوٹُو گم کرو اِدَر سے‘‘۔ (فوٹو یعنی شکل)
’کلٹی‘ کا ایک دلچسپ قصہ اہلِ دل میں مدتوں سے گردش کررہا ہے۔ یہ ایک واعظِ محترم کا قصہ ہے۔
جناب اقبال اے رحمٰن مانڈویا اپنی شہرہ آفاق اور معرکہ آرا کتاب ’’اس دشت میں اک شہر تھا…کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’موسیٰ لین والی سڑک، شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ، پر ایک رہائشی عمارت ہے جمعہ بالا بلڈنگ، جو سندھی شاعر جمعہ بالا صاحب کی ملکیت ہے۔ اس عمارت والی گلی میں لوٹاری مسجد ہے، جس کے مرحوم بلوچ امام صاحب کا اندازِ خطابت بہت مشہور ہوا تھا‘‘۔
جس قصے کا ہم نے حوالہ دیا ہے وہ اِنھیں بلوچ امام صاحب کاہے، یہ قصہ ہم اپنے اور امام صاحب کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
جمعے کا دن تھا۔ مولانا وعظ فرما رہے تھے۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 143میں بیان کردہ واقعہ اپنے مکرانی مقتدیوں کی سہولت کے لیے اُنھِیں کی زبان میں اُنھیں سُنا رہے تھے اور بالکل ٹھیک سُنا رہے تھے۔ لیجے آپ بھی سن لیجے۔ مولانا فرما رہے تھے:
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑکوملاقات کا ٹیم دیا۔ موسیٰ ؑٹیم پر پہنچ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ سے گپ شپ شروع کیا تو موسیٰ ؑبولا:
’’اڑے اَمارا رب! تم امارے کو اپنا جلوہ دِکاؤ نی! اَم تُمارے کو دیکوں گا‘‘۔
ربّ بولا: ’’اڑے موسیٰ! تم امارے کوہِیچ نئیں دیک سکتا(ہِیچ نئیں = ہرگز نہیں)بَلے! تم اُدَردیکو،جبل کو۔ جبل اپنی جگہ کڑا رَئیں گا، تو تم بی امارے کو دیک سکیں گا۔اَبی دیکوس!‘‘
یہ ’پَرماکر‘ اللہ نے طور پر جلوہ مارا۔ طورچَنڈ چَنڈ، موسیٰ ؑ کلٹی! (چَنڈ چَنڈ= چِندی چِندی)
جناب اقبال اے رحمٰن لکھتے ہیں: ’’اس بیان کے بعد مولانا صاحب کی عرفیت ہی ’’موسیٰ کلٹی‘‘ہوگئی۔‘‘
تو صاحب! یہ تھی کلٹی کی کہانی!