ان امیدواروں میں جن کی کوئی سیاسی حیثیت یا کسی شعبے میں پذیرائی تھی، وہ تو چند ایک ہی تھے۔ باقی محض نام ہی تھے۔ جہانگیر بدر ہیلے کالج کی وجہ سے ان سب میں قابلِ ذکر تھا۔ اس کے بعد خواجہ محمد سلیم کو نیوکیمپس کے شعبۂ معاشیات میں اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے مقبولیت حاصل تھی۔ اسی طرح شعبہ جاتی بنیادوں پر شاہد محمود ندیم، رائو محمدعثمان، ادریس کھٹانہ کے بھی کچھ ووٹ تھے۔ امتیاز عالم شاہ کے انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے کی وجہ سے لیفٹ کا ایک محدود سا حلقہ ان کے ساتھ تھا۔ بارک اللہ خاں ایک بڑا نام تھا، مگر گردشِ لیل و نہار کے طویل سلسلے کے سبب ان کی اہمیت اور حمایت کوئی خاص نہیں تھی۔ ان کے علاوہ باقی چار امیدواران تو محض کاغذی نام تھے۔ ان میں سے جو زندہ ہیں اللہ انھیں ایمان و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے، اور جو اپنا سفر پورا کرکے اصلی منزل پر پہنچ چکے ہیں رب رحمٰن و رحیم ان سب کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرما کر ان سب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
مندرجہ بالا امیدواروں میں سے بارک اللہ خاں اور جہانگیر بدر ہمارے اپنے ہی حلقے کے لوگ تھے، جب کہ باقی ماندہ مخالف گروپ سے تعلق رکھتے تھے یا محض نمائشی امیدوار تھے۔ رئیس بیگ نے 1966ء میں سید محمد عارف کے خلاف بھی الیکشن لڑا تھا اور بری طرح ہارے تھے، جب کہ بارک اللہ خاں 1962ء میں جمعیت کی طرف سے صدارتی امیدوار تھے، مگر وہ الیکشن ہو ہی نہ سکا۔ اس دور میں مہم کے دوران خاں صاحب گرفتار ہوگئے تھے اور یونین پر پابندی لگ گئی تھی جو کئی سالوں کے بعد 1966ء میں ہٹائی گئی، مگر یونین ایک سال بھی پورا نہ کرسکی کہ اسے پھر بین کردیا گیا۔
ہمارا خیال تھا کہ ہم اپنے دونوں ساتھیوںسے گفت و شنید کرکے انھیں جمعیت کے مؤقف کا ہم نوا بنا لیں گے، مگر تجربے نے ثابت کیا کہ یہ کام اس قدر آسان نہ تھا۔ بارک اللہ خاں صاحب بدوملہی ضلع نارووال کے ایک پرائیویٹ کالج میں ٹیچنگ کرتے تھے اور ایل ایل بی کرکے بطور وکیل بھی رجسٹر ہوچکے تھے۔ اُن دنوں آپ نیوانارکلی کے دہلی مسلم ہوٹل میں مقیم تھے۔ ان سے جمعیت کا ایک وفد ملا، طویل بات چیت ہوئی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا، وہ مجھ سے بزرگانہ انداز میں انتہائی اپنائیت سے بار بار کہتے تھے ’’حافظ! تُو میرے حق میں بیٹھ جا۔‘‘ میں نے انھیں کہا ’’خاں صاحب! اگر میں آزاد امیدوار ہوتا اور خود کھڑا ہوا ہوتا تو آپ کے حق میں بیٹھ جاتا، مگر یہ تو جمعیت کا فیصلہ ہے۔ جمعیت حکم دے گی تو بیٹھ جائوں گا۔‘‘ ملاقات بے نتیجہ رہی۔
اُن دنوں ہم سب ارکانِ جمعیت عجیب مخمصے میں پڑے ہوئے تھے، جہانگیر بدر سے بھی بات چیت جاری تھی اور ہم اس کے نتائج سے ناامید نہیں تھے۔ اِدھر ہم افہام و تفہیم کے لیے بھاگ دوڑ کررہے تھے اور اُدھر بہت بڑے پیمانے پر ہمارے مخالفین کوئی بڑا دھماکہ کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے۔ بھٹو صاحب نے صدر ایوب خان کے خلاف زبردست مہم چلا کر مغربی پاکستان میںاپنی شخصیت کا جادو جگا دیا تھا، ان کی خواہش تھی کہ ملکی انتخابات سے پہلے وہ تعلیمی اداروں میں بھی اپنی دھاک بٹھا لیں۔ جامعہ پنجاب ملک بھر میں سب سے اہم تعلیمی ادارہ تھا، اس لیے بھٹو صاحب کو ذاتی طورپر جامعہ پنجاب کے انتخابات سے بڑی دلچسپی تھی۔ کئی بااثر لوگوں کی گاڑیاں اولڈ کیمپس سے نیوکیمپس، اور وہاں سے اکبری منڈی کے مسلسل چکر لگا رہی تھیں۔
جہانگیر بدر کے والد میاں بدر دین کی رہائش اندرون شہر اکبری منڈی میں تھی اور وہ ایک شریف النفس شہری تھے۔ بازار میں دودھ دہی کی دکان کرتے تھے اور آرائیں برادری کے معزز لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ جہانگیر بدر ہمارا دوست تو تھا، مگر چلبلا اور مہم جو بھی تھا۔ بالآخر زیرک سوشلسٹوں نے فیصلہ کرلیا کہ اپنے سارے حربے استعمال کرکے جہانگیر بدر کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔ بظاہر یہ عجیب سی بات ہے کہ کمیونسٹ عناصر اور بائیں بازو کی طرف رجحان رکھنے والے ترقی پسند کسی دائیں بازو کے امیدوار پر دائو لگائیں، مگر جو لوگ جوڑتوڑ کی سیاست کو گہری نظر سے دیکھتے اور جانتے ہیں اُن کے لیے اس امر میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ تحریص کے جال میں پھنس جانے والوں کے لیے دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں یوٹرن لینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔
سچ تو یہ ہے کہ ترقی پسندوں نے ایک تیر سے دوشکار کرنے کا ارادہ باندھا تھا، مگر وہ دو شکار تو نہ کرسکے، تاہم ایک شکار بڑی کامیابی سے کر لے گئے جو ان کے لیے کافی دور تک نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کو جامعہ پنجاب میں شکست تو نہ دے سکے، مگر جہانگیر بدر جیسے باہمت طالب علم رہنما کو اپنے حلقے میں پوری طرح شامل کرلیا۔ جہانگیر بدر ان کے حلقے میں شامل ہوگیا تو اُسے بڑا پروٹوکول دیا گیا اور اُس نے بھی ’’وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے‘‘ کے مصداق ساری زندگی پیپلزپارٹی کی نذر کردی۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا ؎
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
اُس وقت تک جو غیر جانب دارانہ پوزیشن تھی اس کے مطابق اگر سارے امیدوار سنجیدگی سے انتخاب لڑتے تو جمعیت بغیر کسی مشکل کے بہت بڑے مارجن کے ساتھ واضح اکثریت حاصل کرکے کامیاب ہوتی۔ جہانگیر بدر کو ہیلی کالج سے اکثریت ملنے کی توقع تھی، اس کے سوا کسی شعبے میں اُس کو دیگر امیدواروں کی موجودگی میں کوئی قابلِ ذکر ووٹ نہ ملتے۔ بہرحال ہمارے مدمقابل باقی سب امیدواروں سے زیادہ ووٹ جہانگیر بدر ہی لے سکتا تھا۔ جہانگیر بدر ہیلی کالج کا صدر رہ چکا تھا اور اب لا کالج میں فائنل ائیر (ایل ایل بی) کا طالب علم تھا۔
زمینی صورتِ حال یہ تھی کہ ایک تو ہیلے کالج میں بدر صاحب کا بڑا مضبوط گروپ تھا جس کا روایتی نام ’’پاواپارٹی‘‘ تھا۔ دوسرے ہیلی کالج کے عام طلبہ کو یہ نعرہ دیا گیا کہ ان کی تعداد جامعہ کے ہر دوسرے یونٹ سے کہیں زیادہ ہے مگر ان کا کوئی نمائندہ جامعہ پنجاب کی یونین میں بطور صدر کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ اب ان کا ایک سابق طالب علم اور سابق صدر ہیلے کالج یونین، اس الیکشن میں کھڑا ہوا ہے تو اسے کامیاب بھی ہونا چاہیے۔ یہ کالج کی عزت کا سوال ہے۔ ’’پاوا پارٹی‘‘ کا اپنی غنڈہ گردی کی وجہ سے ہیلے کالج پر بڑا تسلط تھا اور کالج میں ان لوگوں نے عام طلبہ کو بری طرح سے ہراساں کیا ہوا تھا، جب کہ ابتدائی کلاسوں کے نئے اور سادہ لوح طلبہ ان کے متعصبانہ نعرے سے بھی کسی حد تک مسحور تھے۔
پردوں کے پیچھے بیٹھ کر مہروں کی چالیں بدلنے والوں نے رائو عثمان، خواجہ سلیم، شاہد محمود ندیم، امتیاز عالم اور ادریس کھٹانہ کو جہانگیر بدر کے حق میں بٹھا دیا۔ ایک مشترکہ کانفرنس میں متفقہ طور پر جہانگیر بدر کی غیر مشروط حمایت کا اعلان ہوا۔ اگرچہ ادریس کھٹانہ نے آخری دنوں میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کی اور اپنے کاغذات داخل کرا دیے، مگر اسے اغوا کرلیا گیا۔ یہ بھی بڑا دلچسپ افسانہ تھا مگر ہم اسے فی الحال نہیں چھیڑتے۔ ’’طلبہ تحریکیں‘‘ میں افتخار فیروز مرحوم اور کئی دیگر طلبہ رہنمائوں نے اپنے مضامین میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ اوپر مذکورہ ناموں کے علاوہ باقی کے جو ایک آدھ امیدوار میدان میں رہ گئے، ان میں سے کوئی بھی کسی شمار میں نہ تھا، وہ محض نمائشی نام تھے۔
’’بڑے دماغوں‘‘ نے تمام قابلِ ذکر امیدواروں کے درمیان جو سمجھوتہ کرایا تھا، اس سے وہ بڑے خوش تھے۔ ایک تو ان کی جھوٹی امید بندھ گئی تھی کہ جمعیت شکست کھا جائے گی، اور دوسرے انھوں نے سوچا تھا کہ اس طرح جہانگیر بدر ہمیشہ کے لیے ان کا حاشیہ بردار بن جائے گا۔ ان کی دوسری امید جیسا کہ پہلے بھی اشارۃً تذکرہ ہوا ہے، مکمل طور پر بر آئی اور جہانگیر بدر مرحوم نے واقعتاً آخری وقت تک ہر بھلے اور برے وقت میں بھٹو مرحوم اور ان کی پارٹی سے وفاداری نبھائی۔ اس کے نتیجے میں انھیں پارٹی نے بھی ایم این اے، سینیٹر اور مرکزی وزیر کے علاوہ پارٹی کے اعلیٰ تنظیمی عہدوں (جنرل سیکرٹری) سے نوازا۔ (اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔)
بارک اللہ خاں صاحب اس الیکشن میں اپنے ذاتی فیصلے کے علاوہ ہمارے ہی بعض مہربانوں اور سابق جمعیتی ساتھیوں کے کہنے سننے کی بنا پر کھڑے ہوئے تھے، مگر وہ پرانا دور، جب خاں صاحب نے یونیورسٹی کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے تھے، یقیناً اس نئے دور سے قطعاً مختلف تھا۔ گفت و شنید جاری رہی۔ تنظیمی مشاورت کے مطابق ایک شام جمعیت کا ایک وفد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے بھی ان کے دفتر 5-اے ذیلدار پارک اچھرہ میں ملا۔ مولانا سے ہماری ملاقاتیں اکثر ہوتی رہتی تھیں اور وہ جس شفقت و محبت سے ہمارا استقبال کیا کرتے تھے وہ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اس شام جب ہم مولانا سے ملنے کے لیے ان کے دارالمطالعہ کے باہر پہنچے تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا ’’بھئی! آج سے قبل جب بھی ہم مولانا محترم سے کسی مسئلے پر رہنمائی کے لیے ملتے تھے تو ہمیشہ میں ہی مولانا محترم سے بات چیت کا آغاز کیا کرتا تھا اور زیادہ تر مولانا محترم بھی مجھی سے مخاطب ہوتے تھے، مگر آج میں مولانا سے کچھ نہیںکہوں گا، آپ ہی لوگوں کو بات کرنا ہوگی۔‘‘ عبدالوحید سلیمانی، منیر راحت، زاہد بخاری اور عبدالجبار قریشی کے ہمراہ میں مولانا محترم کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ ملاقات واقعی بڑی یادگار تھی۔ میرے ساتھیوں نے مولانا کے سامنے ساری صورتِ حال رکھی، مولانا کا یہ کمال تھا کہ وہ روزانہ کے اخبارات میں سے مفید مطلب خبریں ہر روز پڑھتے اور انھیں مارکر کے ساتھ ہائی لائٹ کرکے اخبار کے علاوہ اپنے ذہن میں بھی محفوظ کرلیتے۔ اس موضوع پر جو کچھ اخبارات میں چھپ چکا تھا مولانا اس سے پوری طرح باخبر تھے۔
جمعیت کے ساتھیوں کی زبانی صورتِ حال سن کر سید مودودیؒ نے اس موقع پر جو کچھ ارشاد فرمایا وہ ہمارے لیے بڑا ہی حوصلہ افزا تھا۔ آپ نے کہا ’’خان صاحب کو اب کیا شوق چڑھا [یا چرایا] ہے کہ اتنے عرصے کے بعد پھر اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب میں کود پڑے ہیں!‘‘ گفتگو کے آخر میں آپ نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے جمعیت کے اجتماع میں جو کچھ فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور میں اجتماعیت کے اس فیصلے پر مطمئن ہوں۔ آپ اپنی مہم پُرامن طریقے سے منظم انداز میں چلائیں۔ اللہ برکت عطا فرمائے گا۔
مولانا محترم سے ہم اکثر پیچیدہ معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے رہتے تھے، اس شام سارے ہی دوست مولانا کے کمرے سے نکلے تو طمانیتِ قلب کی دولت کے ساتھ عزم و ہمت کے ہتھیار سے بھی مسلح تھے۔ اس واقعے سے کچھ ہی دن قبل دو جرائد ’’نصرت‘‘ اور ’’ترجمان اسلام‘‘ نے ہمارے خلاف ایک مسموم اور مذموم مہم شروع کی تھی۔ اس صحافتی حملے کے دوران سرخ صحافت اور ’’سلاجیتی‘‘ صحافت دونوں نے عجیب سے عجیب تر گل کھلائے۔ ایک مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جمعیت نے جامعہ پنجاب کے انتخاب میں جو امیدوار کھڑا کیا ہے وہ دراصل اچھرے کا ایجنٹ ہے، اور ثبوت کے طور پر بلاحوالہ لکھا گیا کہ ’’حافظ ادریس کو مودودیؒ نے اپنا روحانی فرزند قرار دیا ہے۔‘‘
اپنے معمول اور فطرت کے مطابق ان لوگوں نے بالکل جھوٹ گھڑ کے یہ زہر پھیلانے کی کوشش کی۔ اصل صورتِ واقعہ یوں تھی کہ مولانا مرحوم کی عصری نشستوں میں سے ایک نشست میں کسی صاحب نے وہ سوال دہرایا جو مولانا سے بار بار پوچھا جاتا تھا۔ سوال تھا مولانا کی اولاد اور ان کے تحریک میں کردار اور شمولیت کے بارے میں۔ مولانا نے طویل جواب دیا جس کا ایک حصہ یہ تھا کہ یہ نوجوان جو میرے سامنے بیٹھے ہیں یہ بھی تو میری [فکری و روحانی] اولاد ہیں۔ اور پھر مولانا نے جمعیت کے کارکنان کی طرف اشارہ فرمایا۔ آپ نے کسی بھی فرد کا نہ نام لیا، نہ آپ کا یہ طریقہ تھا۔ عمومی بات کو خصوصی رنگ دینے کے لیے اس پر خوب مرچ مسالے لگائے گئے اور مذکورہ بالا پرچوں نے اپنے دل کی بدبودار بھڑاس نکالی اور سارا نزلہ مجھ پر گرا دیا۔ اس دور کے یہ دونوں پرچے اس قسم کی ’’معلومات یعنی خرافات‘‘ سے پُر ہوتے تھے۔
(جاری ہے)