دنیا بھر میں بزرگ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال حکومت اور معاشرہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے
ماہرین صحت کے مطابق بڑھاپے کا دور انسانی زندگی کا اختتامی مرحلہ ہوتا ہے، اور یہ ایک قدرتی عمل ہے جس کا ایک نہ ایک دن ہر انسان کو سامنا کرنا ہے۔ بڑھاپے میں بیشتر افراد نسیان، ضعفِ بصارت و سماعت کے علاوہ دیگر سنگین امراض مثلاً امراضِ قلب، بلند فشارِ خون، ذیابیطس، ہڈیوں کی بوسیدگی، جوڑوں کے درد، تنفس، جگر، گردہ اور دیگر دائمی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے بڑھاپے کو ”یک پیری صد عیب“ اور سفید بالوں کو موت کا قاصد کہا گیا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بزرگوں کے لیے ایک اہم مرتبہ متعین کیا گیا ہے، اور عمر رسیدہ افراد کی تکریم علامتِ ایمان قرار دی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ نئی نسل بوڑھے والدین کو بوجھ اور فالتو شے سمجھنے لگی ہے، جبکہ قرآن مجید کا واضح پیغام ہے کہ
”اور تمہارے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں، اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و انکسار کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔“(سورہ بنی اسرائیل 24-23)
معمر افراد کی بزرگی کی وجہ سے انہیں یہ خاص مقام اور مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔ لہذا دنیا کے تمام مذاہب اور معاشروں میں بزرگوں سے ہر ممکن طور پر حسن سلوک پر زور دیا گیا ہے۔
ایک حدیث کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے(سنن ابو داؤد)۔ لہٰذا بزرگ افراد کو بڑھاپے کی عمر میں ہماری زیادہ توجہ، دیکھ بھال اور ہمدردی کی ضرورت رہتی ہے، اور سب سے بڑھ کر بزرگوں کی تعظیم اور خدمت ہمارے لیے ایک کار ثواب کا درجہ رکھتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ بزرگ افراد کو زندگی کے آخری دور میں معاشی مسائل، ملازمت کا چھوٹ جانا، ناکافی آمدنی اور معاشی عدم تحفظ کے ساتھ ساتھ جسمانی و نفسیاتی مسائل، غذا کی کمی اور ناکافی رہائشی سہولیات، نفسی و سماجی مسائل، نفسیاتی، سماجی بدنظمی اور بعض اوقات اپنوں کے ہاتھوں بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
بعض بدقسمت بزرگ افراد تو نافرمان اور لالچی اولاد کے خراب رویّے کے باعث اپنی زندگی کے بقیہ ایام اولڈ ایج ہوم میں گزارنے پربھی مجبور ہوجاتے ہیں، جو اللہ تبارک و تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے سراسر روگردانی کے مترادف ہے۔ لیکن بزرگ افراد کو نظرانداز کرنے کی تشویش ناک صورتِ حال آج کے دورِ جدید میں ایک بدترین سماجی اور ثقافتی المیہ بن گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے زیراہتمام دنیا بھر میں بزرگ افراد کی اہمیت، ان کی تکالیف، ضروریات اور حقوق کی جانب معاشرے کی توجہ دلانے کے لیے ہرسال یکم اکتوبر کو بزرگوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1991ء میں ہوا تھا۔
حکومتِ پاکستان نے بھی بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اور بحالی کے لیے رفتہ رفتہ متعدد اصلاحات اور قانونی اقدامات کیے ہیں۔ اس سلسلے میں 1999ء میں ملک میں پالیسی برائے بزرگ شہری متعارف کرائی گئی تھی۔ بعد ازاں بزرگ شہریوں (Senior Citizen) کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے 2007ء میں سینئر سٹیزن بل تیار کیا گیا تھا جس کے تحت بزرگ افراد کو روڈ ٹرانسپورٹ اور ریل کے سفر میں کرائے کی رعایت، پنشن کی فراہمی کو قابلِ عمل بنانے، عوامی مقامات پرقائم باغیچوں، عجائب گھروں، چڑیا گھروں، لائبریریوں، کتب میلوں اور آرٹ گیلریوں میں مفت داخلے اور مفت قانونی خدمات کی فراہمی کے علاوہ ڈاک خانوں، بینکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر سرکاری اداروں میں ان کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کی سہولت شامل تھی۔
لیکن اپریل 2010ء میں ملک میں 18ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بزرگ افراد کی بھلائی کے لیے قانون سازی کا شعبہ صوبوں کو منتقل کردیا گیا تھا،جس کے بعد وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے بزرگ شہریوں کے لیے پالیسی اصلاحات کے تحت ضروری قانون سازی کی گئی تھی جس کے مطابق صوبہ پنجاب نے2013ء میں سینئر سٹیزن کی فلاح و بہبود اور بحالی کے لیے قانون،صوبہ خیبر پختون خوا نے 2014ء میں، صوبہ سندھ نے 2016ء اور صوبہ بلوچستان نے2017ء میں قانون سازی کی تھی۔ جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کا قانون 2019ء میں منظور کیا گیا تھا۔ لیکن ان قوانین کے باوجود پاکستان میں سرکاری قوانین اور پالیسیوں پر موثر طور پر عمل درآمد نہ ہونے اور معاشرے میں بزرگ شہریوں کے عزت و احترام کے شعور و ثقافت کے فقدان کے باعث لاکھوں بزرگ شہری آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور معاشرے کے ایک نظرانداز شدہ طبقے کے طور پر نہایت کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کے بقیہ دن پورے کررہے ہیں۔
حکومت ِپاکستان نے ملک میں بزرگ و معذور ملازمین، اور اُن کی وفات کی صورت میں اُن کے شریکِ حیات کو بڑھاپے اور معذوری میں باعزت گزربسر کے لیے تاحیات پنشن کی فراہمی کے لیے وزارتِ بیرونِ ملک پاکستانی و ترقیِ انسانی وسائل،حکومت ِپاکستان کی نگرانی میں ایک قومی ادارہ، ادارہ برائے فوائد ضعیف العمر ملازمین (Employees Old-Age Benefits Institution)یا(EOBI) قائم کیا ہوا ہے جو یکم جولائی 1976ء سے بزرگ افراد کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں طور سے خدمات انجام دے رہا ہے۔ EOBI رجسٹرڈ آجران اور ان کے بیمہ دار افراد(Insured Persons) کی ماہانہ شراکت داری (Contribution) کی بنیاد پر مقررہ شرائط کے مطابق مرد حضرات کو 60 برس کی عمر میں، خواتین کو 55 برس کی عمر میں اور ملازم کی دورانِ ملازمت معذوری کی صورت میں اس کی صرف پانچ برس کی رجسٹریشن مع شراکت داری پر، اور ملازم کی دورانِ ملازمت وفات کی صورت میں صرف تین برس کی رجسٹریشن مع شراکت داری کی بنیاد پر اس کے شریکِ حیات کو تاحیات کم از کم 10ہزار روپے ماہانہ اورEOBI فارمولا پنشن کے مطابق زیادہ سے زیادہ 30,720 روپے ماہانہ تک پنشن فراہم کرکے معاشرے کے بزرگ افراد کی مالی کفالت کا قومی فریضہ انجام دے رہا ہے۔ جبکہ اس وقت ملک بھر میں EOBI کی پنشن سے چار لاکھ سے زائد پنشنرز مستفید ہورہے ہیں۔ ان بزرگ پنشنروں کو دیگر سرکاری اداروں کے پنشنروں کے مقابلے میں اپنی پنشن کے حصول کے لیے دور دراز سفر، طویل قطاروں اور انتظار کی صعوبتوں سے مکمل نجات حاصل ہے اور وہ ملک بھر میں کبھی بھی اور کہیں بھی بینک الفلاح لمیٹڈکی تقریباً 600 برانچوں کی اے ٹی ایم مشینوں کے ذریعے بآسانی اپنی پنشن وصول کرتے ہیں۔
پاکستان میں بزرگ افراد کی بھلائی کے فروغ کے لیے قائم ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم سوشل پروٹیکشن ریسورس سینٹر(SPRC) کی رپورٹ ”پاکستان میں بزرگ افراد کی حالت اور بھلائی“ کے مطابق ماضی کے مقابلے میں دنیا بھر میں بہتر خوراک، صحت کی دیکھ بھال، امراض کو کنٹرول کرنے والی موثر ادویہ اور افزائش کی شرح میں کمی کی وجہ سے انسانوں کی طبعی عمر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اپنے ایک کروڑ بزرگ افراد کی آبادی کے لحاظ سے دنیا میں 15 ویں نمبر پر شمار ہوتا ہے۔ ماہرین کے ایک تخمینے کے مطابق 2030ء میں ملک میں بزرگ شہریوں کی آبادی دگنی ہونے کا امکان ہے،جبکہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 72 فیصد بزرگ افراد اپنے کنبے کے ساتھ، 9 فیصد شریک ِحیات کے ساتھ، 7 فیصد تنہا اور 3 فیصد اپنے نزدیکی عزیزوں کے ساتھ رہتے ہیں، جبکہ ان کی بقیہ تعداد اولڈ ایج ہوم، محتاج گھروں یا گلی محلوں میں بے یار و مددگار زندگی گزار رہی ہے۔
دنیا بھر میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والے افراد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی مناسب دیکھ بھال، صحت کو فروغ دینے، امراض کی روک تھام اور لاحق امراض کے علاج معالجے کی اہمیت بڑھ گئی ہے جس پر حکومت، سماجی اداروں اور معاشرے کو مشترکہ طور پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پیدا شدہ اس تشویش ناک صورتِ حال کے پیش نظر بڑھتی ہوئی عمر کے متنوع صلاحیتیں رکھنے والے بزرگ افراد کو معاشروں میں باوقار طور سے کھپانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا ضروری ہوگیا ہے۔
دنیا بھرکے بزرگ افراد کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے اور ان کی غیر متحرک زندگی کو سرگرم اور فعال بنانے کے لیے ایک عالمی اور غیر منافع بخش تنظیم ہیلپ ایج انٹرنیشنل (Help Age International) قائم ہے، جس کا قیام 19 نومبر 1983ء کو ممتاز برطانوی انسان دوست اور مخیر سماجی شخصیت سر لیزلی کرکلے (1911-1989)کی سربراہی میں عمل میں آیا تھا جو دنیا بھر میں بزرگ افراد کی زندگی کو بہتر بنانے اور ان کی حمایت کے لیے کوشاں ہے۔ اس فلاحی تنظیم نے ہیلپ ایج گلوبل نیٹ ورک(Help Age Global Network) کی تنظیموں کے ایک اتحاد کے ذریعے دنیا بھر کے بزرگ افراد کی بھلائی اور ان کا وقار برقرار رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے، اور یہ تنظیم دنیا بھر میں بزرگ افراد کی آواز بلند کرنے کے لیے ایک عالمی درجہ رکھتی ہے اور اس کا عالمی نیٹ ورک دنیا کے 98 ارکان ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
بزرگ افراد کے حقوق کی وکالت کرنے والی عالمی تنظیم پاکستان میں بھی ہیلپ ایج پاکستان (Help Age Pakistan)کے نام سے گزشتہ تین دہائیوں سے نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے اور اس کا صدر دفتر اسلام آباد میں قائم ہے۔ تنظیم کی جانب سے بزرگ افراد کو درپیش مسائل پر کی گئی تحقیق کے مطابق پاکستان میں بیشتر بزرگ افراد غربت کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان کی پوری زندگی زراعت اور دیگر غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہوئے گزر جاتی ہے، اور جب یہ افراد بڑھاپے کی منزل تک پہنچتے ہیں تو ان میں سے بہت کم بزرگ اپنی بڑھاپا پنشن اورقابلِ اعتماد آمدنی سے مستفید ہوپاتے ہیں۔ ریاست کی جانب سے اکثر انہیں اپنے کنبے کی کفالت پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے جو اپنے محدود وسائل کے باوجود ان بزرگ افراد کی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ جبکہ جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار اکثر بزرگ افراد تنہا بھی رہتے ہیں یا پھر ان کے بچے ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، خصوصاً بزرگ بیوائیں تو اکثر پوری زندگی ریاست کی جانب سے صحت کی دیکھ بھال سے محروم اور مالی عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں۔
پاکستان میں لاکھوں بزرگ افراد کے لیے صحت کی دیکھ بھال اور مناسب علاج معالجے کے مسائل بھی بے حد عام ہیں۔ بڑھتی عمر میں کمزور مدافعتی نظام کے باعث ان بزرگ افراد کو اکثر غیر متعدی امراض بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔ لیکن ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے ناکافی، کمزور اور پیچیدہ نظام کی وجہ سے ان بزرگ افراد کو صحت کی خدمات میں ترجیح حاصل نہیں، اور اکثر سرکاری اسپتالوں کا طبی عملہ بھی ان بزرگوں کی خصوصی طبی دیکھ بھال کے لیے درکار صلاحیتوں سے نابلد ہوتا ہے، جس کے باعث معالجین بزرگ افراد کی صحت کو درپیش مخصوص طبی مسائل، ان کی بروقت تشخیص اور علاج معالجہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اکثر سرکاری اسپتالوں میں بزرگ افراد کی صحت اور نگہداشت کے ماہر ڈاکٹر (Geriatric Doctors) بھی دستیاب نہیں جو ان بزرگ افراد کو لاحق گوناگوں امراض کی تشخیص اور ان کا مناسب علاج معالجہ کرسکیں۔