چین کے شہر Hulunbuir میں ہیرو ایشین چیمپئنز ٹرافی کھیلی گئی۔ اس میں 6 ٹیموں نے حصہ لیا جن میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا پاکستان اور ملائشیا کی ہاکی ٹیمیں شامل تھیں۔ پاکستان ہاکی ٹیم نے اپنا پہلا میچ ملائشیا کے خلاف کھیلاجو دو دو گول سے برابر رہا، اس کے بعد پاکستان نے اپنا دوسرا میچ جنوبی کوریا کے خلاف کھیلا جس میں آخری سیکنڈ میں پاکستان نے گول کرکے میچ برابر کیا۔ تیسرا میچ جاپان کے خلاف کھیلا گیا جس میں پاکستان نے ایک کے مقابلے میں دو گول سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد پاکستان نے اپنا چوتھا میچ چین کے خلاف کھیلا جس میں چین کو ایک کے مقابلے میں پانچ گول سے شکست دے کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ پاکستان کو اپنا آخری میچ روایتی حریف بھارت سے کھیلنا تھا۔ بھارت کی ٹیم پیرس اولمپکس 2024ء میں کانسی کا تمغا جیت کر آرہی تھی۔ میچ کے آغاز سے ہی لگ رہا تھا کہ بھارتی ٹیم پاکستان کو بہت آسانی سے شکست دے دے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی ٹیم نے شروع ہی سے شاندار کھیل پیش کیا اور میچ کے پہلے 8 منٹ میں بھارت کے خلاف گول کردیا۔ لیکن یہ برتری زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی، اور بھارت نے 13ویں منٹ میں پاکستان کے خلاف پینالٹی کارنر پر گول کرکے میچ برابر کردیا۔ پہلا کوارٹر ختم ہوا تو میچ ایک ایک گول سے برابر تھا۔ لیکن اس کے بعد بھارت نے ہاف ٹائم تک دوسرا گول بھی کردیا تھا جبکہ پاکستان مزید کوئی گول نہ کرسکا اور میچ ہار گیا۔ لیکن ہار جیت سے قطع نظر پاکستان ہاکی ٹیم نے روایتی حریف بھارت کے خلاف اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کا مقابلہ عالمی نمبر 3 سے تھا، جبکہ پاکستان اس وقت عالمی رینکنگ میں 16ویں نمبر پر ہے۔
اگر میچ کی بات کی جائے تو پاکستان نے بھارت کے خلاف شاندار فیلڈ گول کیا تھا، پھر ایسی کیا وجہ تھی کہ پاکستان بھارت کے خلاف میچ نہیں جیت سکا؟ بھارت نے اپنے دونوں گول پینالٹی کارنر پر کیے جبکہ پاکستان پینالٹی کارنر پر کوئی گول نہیں کرسکا۔ کپتان ہرمن پریت نے بھارت کی جانب سے دونوں گول اسکور کیے۔ بہت سے سابق کھلاڑیوں نے پاکستان ہاکی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی اورکہا کہ بہت عرصے بعد پاکستان ہاکی ٹیم بہت متحرک نظر آئی ہے۔ اس میچ کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم سے بہت زیادہ توقع باندھ لی گئی۔ پاکستان نے چین کے خلاف سیمی فائنل کھیلا۔ پاکستان نے چین کو رائونڈ میچ میں پانچ ایک سے شکست دی تھی اس لیے توقع تھی کہ پاکستان یہ سیمی فائنل بھی جیت جائے گا اور بھارت کے ساتھ پاکستان کا فائنل میں بڑا معرکہ ہوگا۔ لیکن پاکستان اور چین کا میچ پینالٹی شوٹ آئوٹ پر چلا گیا جہاں پاکستان چین کے خلاف ایک گول بھی نہیں کرسکا جبکہ چین نے پاکستان کے خلاف دو گول کیے اور فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔
پاکستان ہاکی ٹیم نے کانسی کے تمغے کے لیے میچ جنوبی کوریا کے خلاف کھیلا جس میں جنوبی کوریا کو دو کے مقابلے میں پانچ گول سے شکست دے کر کانسی کا تمغا اپنے نام کیا، اور ایونٹ کا اختتام پاکستان کے لیے تیسری پوزیشن کے ساتھ ہوا۔ اب بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی جیت پر افسوس کیا جائے یا خوشی منائی جائے؟
ایک نظر ٹیم کے ایونٹ پر جانے اور بعد کے حالات پر ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان ہاکی ٹیم کے کوچ کا اعلان ٹیم کے چین جانے کے بعد ہوا، یعنی ہاکی ٹیم کو اپنے دورے کے دوران اپنے کوچ کے نام کا معلوم ہوا اور اولمپئن طاہر زمان کو دو دن قبل ٹیم ملی کہ وہ اس کی کوچنگ کریں۔
پاکستان ہاکی ٹیم جب چین جارہی تھی تو یہ اعلان کیا گیا کہ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم لون ٹکٹ پر روانہ ہورہی ہے۔ اب واللہ علم اس میں کتنا سچ ہے۔ لیکن قومی ٹیم جب روانہ ہورہی تھی تو کھلاڑیوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ فنڈز نہیں ہیں۔
ہاکی ٹیم کی روانگی سے قبل پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر طارق حسن بگٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شہلا رضا کے درمیان اختلافات جاری تھے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن پر کس کا حق ہے۔ قومی ہاکی ٹیم کے جانے سے پہلے ہاکی فیڈریشن یا کھیل کے یہ حالات تھے، اور دونوں فریق اپنے اپنے کیمپ لگائے ہوئے تھے، یعنی کھلاڑیوں کو تقسیم کیا جارہا تھا۔ اس پر سونے پہ سہاگہ کے مصداق پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری رانا مجاہد نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے حکومتِ پاکستان سے کہا کہ تین کھلاڑیوں پر پابندی لگادی جائے۔ انہوں نے کہا کہ تینوں کھلاڑیوں نے پولینڈ میں نیشن کپ کے دوران ٹیم کے ساتھ روانگی کا فیصلہ نہیں کیا اور پولینڈ میں ہی پناہ لے لی ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان تین کھلاڑیوں نے فیڈریشن کو ایشین چیمپئنز ٹرافی کھیلنے سے اس لیے منع کردیا تھا کیوں کہ انہیں پاکستان ہاکی فیڈریشن نے سابقہ مقابلوں کے پیسے نہیں دیے تھے۔ ابھی تک ان کھلاڑیوں کو پیسے نہیں ملے، اور اب یہ کھلاڑی پولینڈ میں لیگ کھیل کر پیسے کما رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک سے کھیلنے کے بجائے پولینڈ لیگ کھیلنے کو ترجیح دی تھی۔
پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان عمادبٹ جو لندن میں لیگ ہاکی کھیلتے ہیں، انہوں نے ایک ٹی وی شو میں بیان دیا ہے کہ اب دنیا میں جی پی ایس ٹریکر کے ذریعے ہاکی کھیلی جاتی ہے جس میں کھلاڑیوں کی شرٹ پر جی پی ایس ٹریکر لگادیا جاتا ہے اورکھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ عماد بٹ نے اذلان شاہ کپ میں ٹیم سے یہ کہا تھا کہ ہم یہاں ملک کے لیے ہی کھیلنے آئے ہیں اور یہ سوچ کر کھیلنا ہے کہ ہمیں کوئی مالی مدد نہیں دی جائے گی۔
بہت افسوس کا مقام ہے کہ ہم ایسے حالات میں ٹیم سے اچھی کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں! حکومت کو چاہیے کہ وہ ہاکی کی بہتری کے لیے وسائل مہیا کرے اور طاہر زمان کو عملاً اولمپکس تک ٹیم کا کوچ مقرر کیا جائے۔