مشہور شاعر اجمل سراج ہمیشہ یاد رہیں گے

امریکہ کے شہر فالسم میں ابھی وضو کرکے غسل خانے سے نکلا ہی تھا کہ فیس بک پر اچانک نظر پڑی تو اس خبر نے سکتہ طاری کردیا: ’’اجمل سراج ہم میں نہیں رہے‘‘۔ یہ خبر تحریک اسلامی کی نامور ادیبہ افشاں نوید نے دی۔ یہ افسوس ناک خبر پڑھ کر اجمل سراج کا یہ شعر یاد آگیا:

میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے
اور تُو ہے کہ مری جان کو آیا ہوا ہے

توآج اس دل نے جو سراج کی جان کو آیا ہوا تھا، اپنا کام کردکھایا اور دھڑکنا بند ہو گیا۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ کی امانت تھی، جو اس نے واپس لے لی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کو شہادت کے درجے پر فائز کرے کہ ایسی طویل بیماری سے موت بھی شہادت کے درجے میں آتی ہے۔سراج نے بڑی مختصر زندگی پائی لیکن وہ ادب اور شاعری میں وہ کام کرگئے جو بڑے بڑے لوگ عمر بھر نہ کرسکے۔ہماری اجمل سراج سے کوئی دوستی نہیں تھی۔وہ روزنامہ جسارت میں تھے اور ہم روزنامہ جنگ میں۔ وہ عمر میں ہم سے بہت چھوٹے تھے لیکن ہمیں اچھی طرح جانتے تھے اور جب بھی پریس کلب، آرٹس کونسل، ادارہ نورِ حق یا کسی اور تقریب یا محفل میں ملتے تو احترام کے ساتھ ملتے اور حفظ مراتب کا خیال رکھتے۔ امریکہ آنے کے بعد ایک بار ہم نے ان سے بات کی تو بڑے خوش ہوئے اور کہا کہ ’’آپ نے مجھ سے رابطہ کیا، یہ میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔اِن شا اللہ بات ہوتی رہے گی‘‘۔ لیکن دونوں کی مصروفیات کی وجہ سے پھر رابطہ نہ ہوسکا۔ ان کی شاعری ان کی پہچان تھی۔جس مشاعرے یا محفل میں جاتے، اپنی شاعری کے منفرد اسلوب، اچھوتے خیالات اور اچھے اندازِ بیاں سے چھا جاتے اور جی بھر کرواہ واہ اور تحسین وصول کرتے۔ وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 56 برس تھی۔ قریبی احباب نے بتایا ہے کہ انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹوں اور تین صاحبزادیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔

ان کے چند زبان زد عام اشعار پیش خدمت ہیں:

ایک شام کا ہر شام انتظار رہا
مگر وہ شام کسی شام بھی نہیں آئی

اس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا

وہ کسی روز ہواؤں کی طرح آئے گا
راہ میں جس کی دیا ہم نے جلایا ہوا ہے

میں نے اے دل تجھے سینے سے لگایا ہوا ہے
اور تُو ہے کہ مری جان کو آیا ہوا ہے

یہ اداسی کا سبب پوچھنے والے اجملؔ
کیا کریں گے جو اداسی کا سبب بتلایا

کسی کے ہجر میں جینا محال ہو گیا ہے
کسے بتائیں ہمارا جو حال ہو گیا ہے

یہ اشعار تو حسبِ حال لگتے ہیں:
بجھ گیا رات وہ ستارا بھی
حال اچھا نہیں ہمارا بھی
زندگی ہے تو جی رہے ہیں ہم
زندگی ہے تو ہے خسارا بھی

اجمل سراج کے انتقال کی خبر دینے والی پہلی ہماری بہن افشاں نویدنے ان پر بڑی تفصیل سے کالم لکھا ہے جوپڑھنے کے قابل ہے۔ اس میں انہوں نے اجمل سراج کی یہ غزل بھی نقل کی ہے جس میں ان کی زندگی کی جدوجہد کے اشارے بھی ملتے ہیں:

عشق سے عقل کا فقدان خریدا ہم نے
اور وہ بھی علی الاعلان خریدا ہم نے
ہم نے پتھر بھی خریدا تو وہ آئینہ تھا
کبھی یاقوت نہ مَرجان خریدا ہم نے
بُھولنے کے لیے وہ ساعتِ پیمانِ الست
وقت سے اِک نیا پیمان خریدا ہم نے
شور اُٹھا تھا کہ نابود ہوا ہے کوئی
جب ترے وصل کا ارمان خریدا ہم نے
کتنے لمحات کو اپنے لیے دشوار کیا
تب کوئی لمحۂ آسان خریدا ہم نے
کیا ستم ہے کہ ہمیں جس کی ضرورت بھی نہ تھی
بیچ کے خود کو وہ سامان خریدا ہم نے
بند ہونے کو دُکاں ہے تو خیال آیا ہے
فائدہ چھوڑ کے نقصان خریدا ہم نے
فیس بھرنے کے لیے جیب میں پیسے بھی نہ تھے
جِن دِنوں میر کا دیوان خریدا ہم نے
(اجمل سراج)

ہم اجمل سراج کو تحریکِ اسلامی سے تعلق اور شاعری کے حوالے سے جانتے تھے لیکن ان کے یوں اچانک جانے کے بعد فیس بک پر جس طرح ان کو خراجِ عقیدت پیش کیا جارہا ہے اور بلا امتیاز نظریہ، عمر، مسلک اور علاقہ ان کی اس جدائی پر ان کے چاہنے والے بڑی تعداد میں نوحہ خوان ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری، حسنِ اخلاق اور محبت سے وسیع حلقۂ احباب بنا لیا تھا۔ ان میں سے چند کے جذباتِ غم یہاں پیش کریں گے، جس سے ان کی محبوبیت اور مقبولیت کا کچھ اندازہ ہوگا۔ ان کے اور ہمارے ایک مشترکہ دوست اور پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر اقبال لطیف نے ان کے انتقال کی خبر سن کر ان الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے:

إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
اجمل سراج میرا بھائی، میرا یار چلاگیا۔ میں نے اس کی زبانی اس کا اپنا یہ مصرع کئی بار سنا تھا:
کبھی سوچا نہ تھا یاد بن جائے گا وہ

مگر دکھ ہے کہ اس کے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ہماری یادوں میں بسے رہنے کے لیے یہ تخلیق کرگیا تھا میرا یار۔ میرے الفاظ گنگ کرگیا، اور مصنوعی لفاظی کا محتاج نہ وہ تھا اورنہ میں۔ وعدہ ہے اجمل! تازندگی نہیں بھولوں گا تمہیں۔ وعدہ کہ اِن شاء اللہ ملیں گے وہاں جدھر تم چلے گئے۔ ہم ہمیشہ تم سے تازہ کلام کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ وہاں ملیں گے تو پھر یہ فرمائش بھی ہوگی۔ اور تم یقیناً انکار نہیں کروگے۔ اللہ تمہاری نیک معصوم روح کو پُرسکون کرے۔ بلندتر درجات سے نوازے۔ تمام لواحقین اور ہم سب احبابِ اجمل سراج کو صبرجمیل عطا کرے، آمین۔‘‘

(یہ تحریر پڑھنے والے احباب ایک بار سورہ فاتحہ اور تین بارسورہ اخلاص پڑھ کر دعائے مغفرت کریں۔ اپنے اوپر اجمل کا ’’تخلیقاتی قرض‘‘ ضرور ادا کردیجیے گا)

سوگوار: محمداقبال لطیف‘‘
مشہور نعت خواں صبیح الدین رحمانی لکھتے ہیں:
’’الوداع اجمل سراج… تمھارے یوں چلے جانے سے ہم دوستوں ہی کی بزم سُونی نہیں ہوئی، تمھاری شاعری کے لاکھوں پرستار بھی صدمے سے دوچار ہیں۔ تم زندہ رہو گے ہمارے دلوں میں اپنی سچائی، محبت اور خلوص کی وجہ سے… ہمارے ذہنوں میں اپنی شاعری کی وجہ سے، مگر پیارے صاحب

بتاؤ تم سے کہاں رابطہ کیا جائے
کبھی جو تم سے ضرورت ہو بات کرنے کی؟
اللہ کریم تمھارا سفرِ آخرت آسان فرمائے اور تمھیں مغفرت سے سرفراز فرمائے، آمین‘‘۔

ہمارے ایک اور مہربان دوست ڈاکٹر عقیل جعفری نے پہلے ان کے انتقال کی خبر دی اور پھر یہ لکھا:

’’اور تو خیر کیا رہ گیا
ہاں مگر اک خلا رہ گیا
غم سبھی دل سے رخصت ہوئے
درد بے انتہا رہ گیا
زخم سب مندمل ہو گئے
اک دریچہ کھلا رہ گیا
رنگ جانے کہاں اڑ گئے
صرف اک داغ سا رہ گیا
آرزوؤں کا مرکز تھا دل
حسرتوں میں گھرا رہ گیا
رہ گیا دل میں اک درد سا
دل میں اک درد سا رہ گیا
زندگی سے تعلق مرا
ٹوٹ کر بھی جڑا رہ گیا
ہم بھی آخر پشیماں ہوئے
آپ کو بھی گلا رہ گیا
…………
آہ اجمل سراج‘‘