چار ملکی اتحاد کا سربراہی اجلاس،نریندر مودی کا دورہ امریکہ

جون میں تیسری مدت کے لیے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جناب نریندرا مودی 20 ستمبر کو امریکہ کے دورے پر پہنچے۔ ہفتہ (21 ستمبر) کو انھوں نے امریکی صدر کی رہائش گاہ پر معاہدہ اربع المعروف QUADکے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے دوسرے دن وہ نیویارک آئے جہاں انھوں نے ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب کیا۔ پیر کی صبح انھوں نے امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقات کی اور اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرکے وطن واپس چلے گئے۔

غزہ جنگ میں اسرائیل کی فوجی مدد اور اقوام متحدہ میں فلسطین سے اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کی قرارداد پر غیر جانب دار رہ کر مودی جی اسرائیل نواز طبقے خاص طور سے امریکی میڈیا کے ڈارلنگ بن چکے ہیں۔ مسلمانوں سے مبینہ بدسلوکی پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بیان پر ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے جس تلخ ردعمل کا اظہار کیا ہے اس پر بھی چچا سام بہت خوش ہیں۔ امریکہ آمد سے قبل ہندوستان کو کھیل کے میدان میں ایک تاریخی کامیابی نصیب ہوئی جب بڈاپسٹ (ہنگری) کے45 ویں شطرنج اولمپیاڈ (Olympiad) میں شریمتی ونتیکا اگروال نے خواتین، اور جناب ارجن اریگاسی نے خواتین و مرد (OPEN)کا مقابلہ جیت کر دونوں طلائی تمغے ہندوستان کے نام کردیے۔ نیویارک میں ہندوستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی صاحب نے بہت فخر سے اس کا ذکر کیا۔

معاہدہ اربع کے نام سے امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور ہندوستان کے درمیان بحرالکاہل کی نگرانی کے لیے فوجی تعاون2007ء سے جاری ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد چین کا آبی گھیرائو ہے۔ صدر اوباما نے اس اتحاد کو مضبوط و مربوط بنانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ اُس وقت کے نائب صدر جوبائیڈن اور موجودہ وزیرخارجہ و مشیر قومی سلامتی سمیت بائیڈن ٹیم کے کلیدی ارکان اس چار طرفہ دفاعی مکالمے یا Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUADکے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ بظاہر اس تعاون کا مقصد بحرالکاہل، خلیج بنگال اور بحرہند میں بلاروک ٹوک آزادانہ تجارت کو یقینی بنانا ہے، چنانچہ علاقائی اہمیت کے پیشِ نظر اسے ہند بحرالکاہل کواڈ Indo-Pacific Quad بھی کہتے ہیں۔

لیکن ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘، یعنی کواڈ کا تزویراتی (Strategic) ہدف بحرالکاہل خاص طور سے بحر جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو غیر موئثر کرنا ہے۔ اسی بنا پر سیاسیات کے علما کواڈ کو ایشیائی نیٹو (Asian NATO)کہتے ہیں۔ عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کے لیے کواڈ ممالک وقتاً فوقتاً بحری مشقیں کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی پہلی مشق 1992ء میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت سے اسے مالابار بحری مشق پکارا گیا۔ بعد میں اس سرگرمی کا نام ہی مالابار مشق پڑگیا۔ اب تک اس نوعیت کی 26 مشقیں ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا مظاہرہ 2020ء میں ہوا جب 3 سے 6 نومبر تک خلیج بنگال اور 17 سے 20 نومبر تک بحر عرب میں دوستانہ میچ ہوا۔ ان مشقوں میں امریکہ کے تباہ کن جہاز یو ایس ایس مک کین، ہندوستان کے جہازوں شکتی، رنجیو اور شوالہ، آسٹریلیا کے بلیرٹ اور جاپانی تباہ کن جہازاونامی کے علاوہ جدید ترین آبدوزوں نے حصہ لیا۔ آخری مالابار مشق گزشتہ سال 10 سے 21 اگست تک بحرالکاہل کے جنوبی حصے میں جنوبی تیمور کے قریب ہوئی جس میں ہندوستان کے میزائل بردار کلکتہ، تباہ کن سیہادری، آسٹریلوی بحریہ کے ساحل پر اترنے کی صلاحیت رکھنے والے شولز (Choules)، طیارہ بردار برسبن، امریکہ کے میزائل بردار رفائیل پیرالتا اور جاپان کے جدید ترین جہاز شیرانوئی (Shiranui)نے شرکت کی۔

گزشتہ دس بارہ سالوں میں چین نے بحر جنوبی اور مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے بناکر اُن پر اڈے قائم کردیے ہیں۔ عسکری ماہرین نے شک ظاہر کیا ہے کہ کچھ تنصیبات جوہری نوعیت کی بھی ہیں۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لیناآسان نہیں، لہٰذا کواڈ کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب سے اہم بحرالکاہل کو بحرہند سے ملانے والی آبنائے ملاکا ہے۔

ملائشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل کے قریب ہے۔ کواڈ بندوبست کے تحت اس آبنائے کے شمالی دہانے کی نگراں ہندوستانی نائو سینا ہے، جبکہ آسٹریلوی بحریہ بحرالکاہل کے جنوب مشرقی حصے پر نظر رکھتی ہے۔ بحر انڈمان سے خلیج بنگال تک بھارتی بحریہ کے جہاز گشت کررہے ہیں۔ جزائر انڈمان پر امریکی و بھارتی بحریہ کی تنصیبات بھی ہیں۔

کواڈ کا سب سے ہیجان بلکہ اشتعال انگیز اجلاس 2020ء میں ہوا جب وزرائے خارجہ کی بیٹھک میں ٹرمپ انتظامیہ کے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ کواڈ کا مقصد اپنے عوام اور اتحادیوں کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے استحصال، بدعنوانی اور سکھاشاہی (coercion) سے محفوظ رکھنا ہے۔ مائک پومپیو کے اس بیان پر بیجنگ کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ اُن کے سرکاری اخبار نے کہا کہ امریکہ کی استعماری و توسیع پسندانہ فطرت نے اب جنوبی ایشیا کا رخ کرلیا ہے، اور واشنگٹن ایشیائی نیٹو بناکر پُرامن خطے کو تشدد و بدامنی کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔

اِس بار صدر بائیڈن اور امریکی انتظامیہ نے چین کا کوئی ذکر نہیں کیا، حتیٰ کہ مشترکہ اعلامیے میں چین کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ ’’یہ اجلاس بحیرہ جنوبی چین میں زبردستی اور ڈرانے دھمکانے والی مشقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے‘‘۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا ’’کواڈ سربراہ اجلاس کا مقصد کسی دوسرے ملک کو نشانہ بنانا نہیں تھا، اور بیجنگ کو ہماری مشاورت سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔ تاہم اجلاس میں موجود ایک اعلیٰ امریکی افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اپنے افتتاحی خطاب میں جناب بائیڈن نے فلپائنی بحریہ سے چھیڑ چھاڑ کا حوالہ دے کر چین کے جارحانہ رویّے پر روشنی ڈالی۔ امریکی صدر نے کہا کہ ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ فی الحال اپنے ملک کو لاحق اقتصادی مشکلات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور حالیہ دنوں میں چین کا نرم رویہ معاشی حالات کے بہتر ہونے تک مہلت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ (حوالہ Straits Times، سنگاپور)

اجلاس میں اگلے برس سے مشترکہ کوسٹ گارڈ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے نگراں امریکی کشتیوں پر امریکہ کے ساتھ آسڑیلیا، جاپان اور ہندوستان کی بحریہ کے سپاہی بھی سوار ہوں گے۔ اعلامیے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کشتیاں بحیرہ جنوبی چین یا بحرہند میں کہاں گشت کریں گی۔ اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان مواصلاتی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق پایا گیا۔ کواڈ پر اپنے اعتراض کا اعادہ کرتے ہوئے صدر شی جن پنگ نے اسے بیجنگ کو گھیرنے اور تنازعات کو بڑھاوا دینے کی کوشش قرار دیا۔ (حوالہ: رائٹرز)

معاہدہ اربع کے چارٹر اور بیانیے میں بحیرہ عرب کا کہیں کوئی ذکر نہیں لیکن امریکہ اور اُس کے کواڈ اتحادی گوادر کو چینی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا 2020ء کی مالابار مشقوں کا دائرہ خلیج بنگال سے بحیرہ عرب تک بڑھادیا گیا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحفظات نہ ہوں تب بھی کواڈ اتحادیوں کو گوادر سے دلچسپی تو ضرور ہے۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔