مقتل کشمیر اور انتخابی سیاست میں واپسی

مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور کشمیر کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب کس کے حصے میں آتا ہے؟ قطع نظر اس بات کے یہ انتخابات کشمیر کی سیاست کو ایک بار پھر پینتیس برس پیچھے کے ماحول میں لے جانے کے ایک عمل کا آغاز بن گئے ہیں۔ بالخصوص جماعت اسلامی کشمیر کی انتخابی میدان میں بالواسطہ آمد نے ان انتخابات کو حالیہ چند دہائیوں میں ہونے والے انتخابات سے خاصا مختلف بنادیا ہے۔ حریت پسند کیمپ کی طرف سے ان انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل نہ ہونا بھی معنی خیز ہے۔ اسی طرح ان انتخابات کو دہلی سرکار کشمیریوں کا کئی دہائیوں کا غصہ نکلنے کی ایک حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کررہی ہے اور ان انتخابات کے شفاف ہونے کا تاثر دے رہی ہے، مگر اس سے پہلے انتخابی اصلاحات اور حد بندیوں کے نام پر وادیِ کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو کمزور کرنے، اور ہندو اقلیت کا کردار نمایاں کرنے کے لیے میدان پوری طرح ہموار کیا جاچکا ہے۔ جموں وکشمیر میں ہندو اقلیتوں کی تعداد 28 فیصد ہے، آبادی کے اس تناسب کے تحت ان کی سیٹیں 28 یا 29 ہونی چاہئیں، مگر41 فیصد تناسب کے تحت ان کی تعداد 39 کردی گئی ہے۔ اس اصول کو مان لیا جائے تو بھارتی پارلیمنٹ میں جہاں مسلمانوں کی سیٹیں 24 ہیں، دوسو ہونی چاہئیں۔ مگر یہ فارمولا بھارت کی اقلیتوں پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف کشمیر کے لیے ہی تیار کیا گیا ہے، کیونکہ واحد مسلم اکثریتی ریاست کا مجموعی کردار بدلنا اور اکثریتی آبادی کو غیر مؤثر بنانا بھارت کا مقصود ہے۔

اس حکمت کاری کے بعد جماعت اسلامی کشمیر کے نام پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں اور انجینئر رشید کو جذبات کے پریشر ککر کا ویٹ اُٹھائے جانے کے مترادف بھی سمجھا جارہا ہے۔ جنوبی کشمیر جہاں جماعت اسلامی کا اثر رسوخ ہے، نوجوان بہت محتاط رہ کر اپنا ردعمل دکھا رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ جبر کا وہ ماحول ہے جو جنوبی کشمیر میں جاری رہنے والی عوامی مزاحمت کی حالیہ تحریکوں کی وجہ سے ہے۔ انہی میں ایک تحریک اور کردار برہان وانی بھی تھے جو جنوبی کشمیر کے علاقے ترال سے تعلق رکھتے تھے، ان کے 12 ساتھیوں کا تعلق بھی جنوبی کشمیر سے تھا۔ جو پی ایچ ڈی نوجوان مسلح مزاحمت میں اُبھرے اُن کی اکثریت بھی جنوبی کشمیر سے تعلق رکھتی تھی۔ اس لیے بھارتی فوج کا سارا دبائو جنوبی کشمیر پر ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی کشمیر میں عوام نعروں اور محاوروں میں محتاط نظر آتے ہیں، مگر شمالی کشمیر جہاں انجینئر رشید کی پارٹی آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑرہی ہے، نوجوان کھل کر کشمیر کے حالات اور ظلم وستم کی بات کررہے ہیں۔ یہی نوجوان ’’جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیرہمارا ہے‘‘ جیسے نعرے بھی لگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

ایک چیز طے ہے کہ کشمیریوں کی احتیاط، ان کی خاموشی اور اُداسی کے نیچے داستانوں، جذبات اور نفرت کا ایک آتش فشاں موجود ہے۔ یہ اس بات سے بھی عیاں ہے کہ بھارتی ٹی وی چینلز نے الیکشن مہم کے دوران عوامی سرویز کے دوران کشمیریوں کے منہ سے یہ بات کہلوانے کی سرتوڑ کوششیں کیں کہ پانچ اگست کے بعد کشمیر میں پتھر بازی ختم ہوگئی ہے اور حالات نارمل ہوگئے ہیں، مگر کسی ایک کشمیری نے بھی اس مؤقف کو قبول نہیں کیا، بلکہ ہر شخص کا کہنا تھا کہ مودی ان کا مسیحا نہیں، اُس نے کشمیریوں کی شناخت اور پہچان چھین کر ان پر ظلم کیا ہے۔ کشمیریوں کے اس محتاط ردعمل پربھارتی ٹی وی چینلز کے نمائندے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے تھے۔ برہان وانی کے قصبے ترال میں جب بھارت سے آئی ہوئی ایک خاتون رپورٹرنے ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کے لوگ تو برہان وانی کو شہید مانتے تھے؟ تو اس نے بے ساختہ کہا ’’وہ تو شہید ہے، اس نے ایک مقصد کے لیے جان دی‘‘۔ تو خاتون رپورٹرنے پلٹ کر پوچھا کہ ’’پھر بھارتی فوجی کیا ہیں؟‘‘ تو اس کشمیری نے جو اُسی وقت ووٹ ڈال کر آرہا تھا، جواب دیا کہ ’’وہ بھی اپنے ملک کے شہید ہوں گے‘‘۔

ان تینوں باتوں نے ان انتخابات کو 1980ء کی دہائی سے پہلے کے انتخابات سے قریب تر بنادیا ہے جب کشمیر کے حریت پسند انتخابی میدان میں موجود ہوتے تھے اور کوئی آواز انتخابات کے بائیکاٹ کی خاطر بلند نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور کانگریس حالیہ دہائیوں کے انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں مگر اِس بار انتخابات میں انجینئررشید فیکٹر اور جماعت اسلامی کے نام پر چند آزاد امیدواروں کی آمد، اور میرواعظ عمرفاروق کی بائیکاٹ کی کال نہ ہونے سے ماحول نیا سا بن گیا ہے۔1987ء میں ریاستی اسمبلی کا آخری الیکشن تھا جب کشمیر کے سیاسی حریت پسندوں نے مسلم متحدہ محاذ کے نام سے ایک 9جماعتی اتحاد بناکر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ مسلم متحدہ محاذ کی سب سے بڑی اکائی جماعت اسلامی ہی تھی۔ اس اتحادکا مقابلہ آج ہی کی طرح نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد سے ہوا تھا۔ ان انتخابات میں ہونے والی دھاندلی نے کشمیر میں مسلح مزاحمت کے لیے ماحول سازگار بنایا تھا۔

پینتیس سال کے بعد پوری طرح نہ سہی مگر کشمیر کی اسی انداز کی ایک تصویر بن رہی ہے۔ جماعت اسلامی اس وقت کشمیر میں ممنوع جماعت ہے۔ اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔ اس کے تعلیمی اداروں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں، دوسرے فلاحی ادارے بھی بند ہیں۔ انجینئر رشید تہاڑ جیل میں منی لانڈرنگ کے الزام میں مقید تھے اور جیل میں ہی انہوں نے پُرجوش نوجوانوں کی مدد سے لوک سبھا انتخاب میں نشست جیت لی۔ انجینئر رشید کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی اسمبلی انتخابات میں آزاد امیدواروں کے ذریعے حصہ لے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے نام پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں اور انجینئر رشید کا انتخابی اتحاد کشمیر کے مقبول جذبات اور آزادی پسندانہ رجحانات کو انتخابی دھارے میں سمونے کی کوشش ہے۔بھارت اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان رجحانات کو منظرنامے سے باہر رکھ کر مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر میں مسلح مزاحمت سے پہلے تین حریت پسند سیاسی قوتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ انتخابی میدان میں اپنا کردار ادا کرتی تھیں۔ ان میں پہلی قوت جماعت اسلامی تھی جو جنوبی کشمیر میں خصوصاً اور پورے کشمیر میں عمومی طور پر اپنا مضبوط حلقہ اثر اور حمایت رکھتی تھی۔ دوسری اہم جماعت عبدالغنی لون کی پیپلزکانفرنس تھی جو شمالی کشمیر اور پہاڑی طبقے میں اپنا اثر رسوخ رکھتی تھی۔ یہ دونوں جماعتیں براہِ راست انتخابات میں حصہ لیتی تھیں۔ جبکہ تیسری طاقت سری نگر کی جامع مسجد اور ڈائون ٹائون میں گہرا اثر رسوخ رکھنے والے میرواعظ مولوی محمد فاروق کی عوامی ایکشن کمیٹی تھی۔ میرواعظ مولوی فاروق براہِ راست انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے پسِ پردہ سیاسی مدد کے ذریعے سیاست میں ایک کردار ادا کرتے تھے۔ مسلح مزاحمت کے بعد یہ تینوں جماعتیں سیاسی اور انتخابی دھارے سے نکل گئیں اور ان تینوں سیاسی قوتوں کا نام کچھ عسکری تنظیموں کے ساتھ بریکٹ ہونے لگا۔ اس کے بعد کشمیر کو بھارتی فوج نے مقتل بنادیا اور یہ تینوں قوتیں انتخابی دھارے سے باہر نکل گئیں۔

1990ء کی دہائی میں جب کشمیر میں سیاسی عمل کی بحالی کا آغاز ہوا تو دہلی میں امریکی سفیر فرینک وزنر نے اس بات کی سرتوڑ کوششیں کیں کہ کشمیر کا پہلا وزیراعلیٰ حریت پسند لگیسی کا نمائندہ بنے۔ اس کے لیے قرعۂ فال اسیر راہنما شبیر احمد شاہ کے نام نکلا جو مسلح مزاحمت کا اُس وقت ایک مقبول نام تھے۔ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی، اور یوں حریت پسند اس دھارے میںشامل نہ ہوسکے اور مفتی سعید کی قیادت میں پی ڈی پی کے نام سے ایک نئی جماعت کا ڈول ڈالا گیا۔ اس جماعت نے حریت پسندوں کے محاوروں اور لہجے کو ہی نہیں اپنایا بلکہ حریت پسندوں کے ساتھ رسم و راہ بھی پیدا کیے رکھی۔ عبدالغنی لون انتخابی دھارے سے نکلنے والے پہلے کشمیری راہنما تھے جنہوں نے حالات کو بھانپتے ہوئے انتخابی سیاست میں واپسی کی راہیں تلاش کرنا شروع کیں۔ ایک دو انتخابات کے بعد پیپلز کانفرنس کھل کر انتخابات میں حصہ لینے لگی۔

جماعت اسلامی بھی نوّے کی دہائی سے ہی خود کو عسکریت سے الگ کرچکی تھی، اور اب پینتیس سال بعد جماعت اسلامی کے نام پر ہی سہی، کچھ لوگ دوبارہ انتخابی میدان میں موجود ہیں۔ اسی طرح میر واعظ عمر فاروق جنہیں حسبِ روایت سب سے بڑے آزادی پسند اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے الیکشن کے بائیکاٹ کی کال دینا تھی، خاموش رہ کر اس سیاسی عمل کو ایک راہ دے رہے ہیں۔ گویاکہ کشمیر میں پینتیس برس پرانا منظر نامہ بحال ہو گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کشمیر کے نوجوانوں اور عام آدمی کے دل میں نفرت کا ایک الائو دہک رہا ہے مگر جبر وتشدد کا ماحول اور خوف کی فضا بنا کر اس آگ کو سینوں میں دبا کر رکھا گیا ہے۔یہ آگ کہیں انجینئر رشید کی انتخابی مہم میں لگنے والے آزادی کے نعروں کی صورت میں دکھائی دیتی رہی، اور کہیں ’’خاموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری ‘‘ کے مصداق کسی عوامی سروے میں عام کشمیری کے بے ساختہ تبصرے یا جواب دیے بغیرمنہ موڑ کر گزر جانے کی صورت میں صاف عیاں ہوتی ہے ۔