میڈیکل کالج میں داخلہ ٹیسٹ:روایتی بدانتظامی یا بدنیتی اور بے انصافی

ہر سال انتظامی مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا یہ ٹیسٹ واقعی طلبہ کی قابلیت کو درست طور پر جانچنے کا بہترین ذریعہ ہے؟

پاکستان میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے ایم ڈی کیٹ کا آغاز 1998ء میں ہوا تھا۔ یہ امتحان پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کے تحت ملک بھر میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے متعارف کروایا گیا تھا، اس کا مقصد میڈیکل کے شعبے میں داخلے کے امیدواروں کی قابلیت کا معیار جانچنا ہے، لیکن اب یہ امتحان ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ ارب روپے کا دھندا بن گیا ہے۔

ہر سال ایک بڑی رقم، یعنی ہر طالب علم سے امتحانی فیس کی مد میں ہر سال آٹھ ہزار روپے لیے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس ٹیسٹ کے انعقاد میں مسائل کا سامنا ہر سال رہتا ہے۔ امتحانی مراکز میں بدترین انتظامات، پرچے کا آؤٹ ہونا، اور ٹریفک و انتظامی مسائل جیسے چیلنجز نے ہمیشہ طلبہ کو مشکلات میں مبتلا کیا ہے۔

امسال صوبہ سندھ میں مجموعی طور پر 6 مراکز قائم کیے گئے تھے، جن میں سے کراچی میں 2 مراکز تھے: ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی اوجھا کیمپس اور این ای ڈی یونیورسٹی۔ سندھ میں مجموعی طور پر 38 ہزار 700 رجسٹر طلبہ میں سے 6 ہزار 846 طلبہ کے لیے ڈاو یونیورسٹی، جبکہ 6 ہزار طلبہ کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی میں انتظامات کیے گئے تھے، جو طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے کم پڑ گئے۔

ہزاروں طلبہ اور ان کے والدین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ طلبہ کو صبح 7 بجے مرکز پہنچنے کا کہا گیا تھا، جبکہ ٹیسٹ صبح 10 بجے شروع ہونا تھا۔ کئی امیدوار صبح 6 بجے ہی اپنے گھروں سے نکلے لیکن پھر بھی ٹریفک جام اور خراب سڑکوں کی وجہ سے امتحانی مرکز وقت پر نہ پہنچ سکے۔ نتیجتاً، درجنوں طلبہ کو داخلے سے روک دیا گیا، جو اُس وقت انتہائی مایوسی کا شکار ہوگئے جب انہیں بتایا گیا کہ مرکز کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے منعقد ہونے والا ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کئی سالوں سے طلبہ کی تعلیمی زندگی پر اضافی بوجھ ہے۔ تاہم بعض لوگوں کے مطابق اس کی اہمیت کے باوجود، ہر سال ایم ڈی کیٹ کے امتحانات میں بدانتظامی کی خبریں عام ہوتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں امتحانات کے دوران سامنے آنے والے مسائل نے طلبہ اور ان کے والدین کو مایوس کیا ہے، اور انتظامی خامیوں نے اس امتحان کی ساکھ پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔

اگر ہم گزشتہ سالوں کا جائزہ لیں تو ایم ڈی کیٹ امتحانات کے دوران نقل کے کئی واقعات ہمیشہ خبروں کی زینت بنے ہیں، 2019ء میں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میںسب سے زیادہ شکایت آئی۔ پرچہ لیک ہونے کی افواہیں بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں، جس سے طلبہ میں بے چینی اور خوف کی فضا پیدا ہوگئی۔ باوجود اس کے کہ حکام نے ان افواہوں کی تردید کی، امتحانات کی شفافیت پر سوالات اٹھے۔

2020ء میں کورونا وبا کے باعث ملک بھر میں تعلیمی نظام میں خلل آیا، اور ایم ڈی کیٹ کے امتحانات بھی اس سے متاثر ہوئے۔ امتحانات کے دوران حفاظتی تدابیر کا فقدان نظر آیا، اور طلبہ کو امتحانی مراکز میں داخل ہونے کے لیے گھنٹوں لائنوں میں کھڑا ہونا پڑا۔ یہ سال بدانتظامی کی ایک اور مثال بنا، جب نہ صرف امتحانی مراکز میں بے ترتیبی دیکھنے کو ملی بلکہ کئی جگہ پر امتحانات میں تاخیر بھی ہوئی۔

2021ء میں بھی ایم ڈی کیٹ کے امتحانات کے دوران بڑے پیمانے پر بدانتظامی دیکھنے کو ملی۔ امتحان سے قبل ہی پرچہ لیک ہونے کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں تھی، خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں۔ اس کے علاوہ کچھ امتحانی مراکز میں تکنیکی مسائل کی وجہ سے آن لائن امتحانات کے دوران سسٹم فیل ہوگیا، جس سے امتحانات میں خلل پیدا ہوا۔

2022ء میں امتحانی مراکز میں مقررہ وقت سے پہلے پہنچنے والے طلبہ کو بھی داخلے سے روک دیا گیا، جس کی وجہ سے کئی مقامات پر احتجاج بھی کیا گیا۔ کراچی کے امتحانی مراکز، خاص طور پر ڈاؤ اور این ای ڈی یونیورسٹی کے اطراف میں ٹریفک جام نے صورتِ حال کو مزید خراب کردیا۔

2023ء کے امتحانات میں ایک بار پھر انتظامی مسائل نے سر اٹھایا۔ کراچی میں امتحانات سے قبل ایم ڈی کیٹ کا جعلی پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، جس سے طلبہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ڈاؤ یونیورسٹی اور این ای ڈی یونیورسٹی کے اطراف میں ہزاروں طلبہ کی آمد سے شدید ٹریفک جام ہوگیا، اور کئی طلبہ کو دیر سے پہنچنے پر امتحانی مراکز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی، جس کی وجہ سے والدین اور طلبہ نے احتجاج کیا۔

لیکن اس سب کے باوجود آج تک بدلا کچھ نہیں ہے۔ اس برس بھی ایم ڈی کیٹ کے امتحانات کے دوران بدانتظامی کی روایت ہنوز جاری ہے۔ نقل، پرچہ لیک ہونے، ٹریفک جام، تاخیر، اور احتجاج جیسے مسائل طلبہ اور والدین کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنے ہیں۔ ہر سال انتظامیہ کی جانب سے بہتر انتظامات کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر مسائل حل نہیں ہوپاتے، جس کی وجہ سے ایم ڈی کیٹ کا امتحان طلبہ کے لیے جہاں ایک طرف پریشانی اور دباؤ کا باعث بنتا ہے، وہیں والدین بھی کوفت اور اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ امسال بھی امتحان والے دن ڈاؤ اور این ای ڈی یونیورسٹی کے اطراف میں ہزاروں طلبہ کی آمد سے شدید ٹریفک جام ہوگیا۔ امتحان صبح 10 بجے شروع ہوکر دوپہر ڈیڑھ بجے تک جاری رہا۔ جو بچے اندر ٹیسٹ دے رہے تھے ان کے لیے واش روم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ پانچ سے چھ گھنٹے بچے اذیت میں مبتلا رہے۔ جو جوس فراہم کیا گیا وہ بھی گرم تھا۔ یعنی ٹیسٹ دینا جہاں ایک امتحان تھا، وہیں انتظامی تکلیفیں ایک الگ امتحان تھا۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر امیدواروں کو ایک ایک کرکے داخلے کی اجازت دینے کے باعث صورتِ حال مزید بگڑ گئی۔ کچھ طلبہ قطار میں آگے بڑھنے کی کوشش میں آپس میں لڑتے نظر آئے۔ اسی طرح عین موقع پر کہا گیا کہ لڑکیاں جیولری پہن کر نہیں آسکتیں، بچیوں کے کانوں سے بندے تک اتارے گئے۔ طویل قطاروں اور ٹریفک جام کی وجہ سے متعدد طلبہ، خاص طور پر طالبات امتحانی مراکز میں تاخیر سے پہنچیں، جبکہ کئی امیدواروں کو امتحان گاہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جس پر طلبہ نے اپنے والدین کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے دھرنا بھی دیا۔

ایک دلخراش واقعہ یہ ہوا کہ ایک طالبہ اپنے والدین کے ساتھ رکشے میں امتحانی مرکز آرہی تھی جب ان کا رکشہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ اس حادثے میں طالبہ کی والدہ زخمی ہوئیں جنہیں طالبہ کے والد اسپتال لے گئے، لیکن طالبہ شدید زخمی حالت میں این ای ڈی یونیورسٹی کے گیٹ پر پہنچی۔ وہاں سیکورٹی عملے نے اسے امتحان میں شرکت سے روک دیا، کیونکہ اُس وقت انتظامیہ کا کوئی ذمہ دار فرد موجود نہیں تھا جو اس کی ہنگامی صورتِ حال کو سمجھتا۔ یہ بچی شدید زخمی تھی، سر سے خون نکل رہا تھا۔ وہ روتی رہی، مگر اسے امتحان دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔

عالمی سطح پر بھی کم ہی ممالک ایسے ہیں جو صرف ٹیسٹ کی بنیاد پر میڈیکل کالجز میں داخلے دیتے ہیں۔ امریکہ،بھارت، برطانیہ، اور دیگر ممالک میں بھی میڈیکل داخلے کے لیے امیدوار کے عمومی تعلیمی پس منظر، انٹرویوز، اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں ایم ڈی کیٹ جیسے نظام کے ساتھ ہر سال مسائل پیدا ہوتے ہیں،کیونکہ اس میں خاص طورپر طاقت ور لوگوں کی بدنیتی شامل ہوتی ہے جب پورا نظام ہی کرپشن زدہ ہوتو اس میں ایم ڈی کیٹ کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے۔؟

ایم ڈی کیٹ کے نظام میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جب انٹرمیڈیٹ کے نتائج موجود ہیں تو پھر الگ سے ٹیسٹ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ یہ ٹیسٹ نہ صرف طلبہ کے لیے غیر ضروری دباؤ کا سبب بنتا ہے بلکہ اس میں دھاندلی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں، جیسا کہ کراچی کے ٹیسٹ میں جعلی پرچہ وائرل ہونے کے حالیہ واقعات نے ظاہر کیا۔ حالانکہ ڈاؤ یونیورسٹی نے اس پرچے کو جعلی قرار دیا، مگر سوشل میڈیا پر افواہوں نے طلبہ کے ذہنوں میں بے چینی پیدا کی۔

ان تمام بے ضابطگیوں کی اصل ذمہ داری حکومتی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں بچوں کو معاشی، جسمانی، اور ذہنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کیا جارہا ہے تاکہ نجی تعلیمی ادارے فروغ پا سکیں۔ یہ رجحان نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کررہا ہے بلکہ اس سے طبقاتی تفریق بھی مزید گہری ہورہی ہے۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے انہیں مالی و انتظامی طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے والدین کو مہنگے نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً تعلیمی میدان میں ایک غیر منصفانہ مقابلے کا رجحان جنم لیتا ہے، جس کا خمیازہ وہ بچے بھگت رہے ہیں جن کے والدین ان نجی اداروں کی فیسیں برداشت نہیں کر سکتے۔

اب اگر دیکھا جائے تو حکومتی پالیسیوں کے باعث ان بچوں پر معاشی دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اضافی وسائل فراہم کرنے پڑتے ہیں۔ ایم ڈی کیٹ جیسے امتحانات کا انعقاد بچوں میں اضطراب اور ڈپریشن جیسے مسائل کو فروغ دے رہا ہے، اور ہم ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو مایوسی اور ڈپریشن کی طرف منظم انداز میں دھکیل رہے ہیں۔

یہ صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت تعلیمی نظام میں اصلاحات لائے، سرکاری اداروں کو مستحکم کرے، اور سب کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنائے تاکہ طبقاتی تقسیم کو کم کیا جا سکے اور بچوں کی ذہنی، جسمانی اور معاشی ترقی میں رکاوٹیں دور ہوں۔

ایم ڈی کیٹ کے امتحانات میں ہر سال انتظامی مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا یہ ٹیسٹ واقعی طلبہ کی قابلیت کو درست طور پر جانچنے کا بہترین ذریعہ ہے؟