کیا یہ منصوبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی تنازعات کی نذر ہوجائے گا
افغانستان میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت (TAPI) گیس پائپ لائن منصوبے کے عملی کام کا باضابطہ آغاز ہوچکا ہے۔ یہ منصوبہ وسطی ایشیا کے ملک ترکمانستان سے قدرتی گیس کو جنوبی ایشیا تک پہنچانے کے لیے ایک اہم کڑی ہے، اور ان ممالک کے درمیان معاشی تعاون کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ خطے میں توانائی کی کمی کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ سمجھا جارہا ہے۔
منصوبے کا پس منظر
تاپی منصوبے کا آغاز 1990ء کی دہائی میں ترکمانستان کی جانب سے کیا گیا، جب اُس نے اپنے گیس کے وسیع ذخائر کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے مختلف راستوں کی تلاش شروع کی۔ ترکمانستان گیس پیدا کرنے والے دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہے، مگر سمندری راستے نہ ہونے کی وجہ سے یہ عالمی منڈیوں تک براہِ راست رسائی سے محروم ہے۔ چنانچہ ترکمانستان نے اپنی گیس کو برآمد کرنے کے لیے خشکی کے راستے تلاش کیے، جن میں سے ایک اہم راستہ تاپی منصوبے کے ذریعے افغانستان، پاکستان، اور بھارت سے ہوکر جنوبی ایشیا تک پہنچتا ہے۔
تاپی منصوبے کے تحت ترکمانستان کی قدرتی گیس گالکینیش گیس فیلڈ سے نکالی جائے گی، جو دنیا کے دوسرے بڑے گیس ذخائر میں شمار کی جاتی ہے۔ یہاں سے 1,814 کلومیٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے یہ گیس افغانستان کے صوبے ہرات، قندھار، اور پاکستان کے شہروں کوئٹہ و ملتان سے گزرتی ہوئی بھارت کے شہر فاضلکا تک پہنچے گی۔
منصوبے کے اہم پہلو
تاپی منصوبہ افغانستان سمیت پورے خطے کی اقتصادی ترقی میں ایک نیا باب کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افغانستان اس منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے، جس کی زمین پر 735 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ افغانستان کو اس پائپ لائن کے ذریعے سالانہ 500 ملین ڈالر کی ٹرانزٹ فیس ملے گی، جبکہ ملک کو 500 ملین مکعب میٹر گیس بھی فراہم کی جائے گی۔
یہ منصوبہ نہ صرف توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دے گا، بلکہ اس منصوبے سے افغانستان کو نئے روزگار کے تقریباً 10,000 مواقع بھی فراہم ہوں گے، جو کہ ملک میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان کو بھی اس منصوبے سے کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ ترکمانستان کی گیس پاکستان کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی، جبکہ سستی گیس کی فراہمی سے پاکستان میں صنعتی پیداوار کو فروغ ملے گا۔ اس پائپ لائن سے توانائی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی، جس سے علاقائی ترقی اور خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔
علاقائی تعاون اور استحکام
تاپی منصوبے کی کامیابی کا دارومدار صرف گیس کی فراہمی تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ خطے میں سیاسی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا ایک ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے چار ممالک کے درمیان نہ صرف توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھ سکتا ہے بلکہ اقتصادی تعلقات کو بھی فروغ ملے گا۔ افغانستان، پاکستان اور بھارت جیسے ممالک، جن کے درمیان سیاسی اور علاقائی تنازعات موجود ہیں، اس منصوبے کی تکمیل سے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط اقتصادی بندھن میں بندھ سکتے ہیں۔
افغانستان جو کہ دہائیوں سے جنگ و جدل کا شکار رہا، اس منصوبے کی تکمیل کے ذریعے نہ صرف توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے، بلکہ ملک میں استحکام اور خوشحالی کے قیام کے لیے بھی اس منصوبے کو ایک سنگِ میل سمجھا جارہا ہے۔ فائبر آپٹک کیبل اور ریلوے لائن جیسے ذیلی منصوبے بھی اس کا حصہ ہیں، جو افغانستان کو عالمی انٹرنیٹ نیٹ ورک اور خطے کی تجارتی راہداریوں کے ساتھ منسلک کردیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے بھی یہ منصوبہ ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ کے لیے پائپ لائن کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی کی جائے گی، جو دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط کو مزید مضبوط بنائے گی۔
ترکمانستان کی معاشی پوزیشن
ترکمانستان، جو دنیا کے چند بڑے گیس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے، اس منصوبے کے ذریعے اپنی گیس کو بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوگا۔ ترکمانستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ گیس کی برآمدات پر منحصر ہے، اور اس منصوبے کے ذریعے اسے اپنے گیس کے ذخائر کو بہتر طور پر استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔
ترکمانستان پہلے ہی چین اور ایران کو اپنی گیس برآمد کررہا ہے، لیکن جنوبی ایشیا کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے پیش نظر، تاپی منصوبہ ترکمانستان کی معیشت کو مزید تقویت بخش سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکمانستان کو اس منصوبے سے ملنے والی آمدنی سے ملک میں بنیادی ڈھانچے اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بھی کام کرنے کا موقع ملے گا۔
چیلنجز اور سیکورٹی کے مسائل
تاپی منصوبہ جتنا اہم اور فائدہ مند ہے، اتنا ہی چیلنجز سے بھرا ہوا بھی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج اس منصوبے کا راستہ ہے، جو افغانستان اور پاکستان کے حساس علاقوں سے گزرتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت نے کئی بار اس منصوبے کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس منصوبے کو محفوظ رکھنا ایک مشکل امر ہوسکتا ہے۔ افغانستان میں جاری جنگی حالات اور مختلف گروہوں کے درمیان رسّاکشی کے باعث اس پائپ لائن کے متاثر ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا۔
پاکستان میں بھی بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاقوں میں سیکورٹی کے مسائل ہیں، جہاں علیحدگی پسند تحریکیں اور شدت پسند گروہ سرگرم ہیں۔ یہ گروہ کسی بھی وقت اس منصوبے کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جس سے اس منصوبہ کی کامیابی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
اس کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات اس منصوبے کی کامیابی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری سیاسی تنازعات اور ماضی میں مشترکہ منصوبوں کی ناکامی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تاپی منصوبہ بھی ان تنازعات کی نذر ہوسکتا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری نہ آئی تو اس منصوبے کی تکمیل میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
بین الاقوامی حمایت اور سرمایہ کاری
تاپی منصوبے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے عالمی برادری اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) اس منصوبے کی مالی معاونت میں پیش پیش ہے، جبکہ مختلف بین الاقوامی کمپنیاں بھی اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔
بین الاقوامی برادری کا یہ تعاون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تاپی منصوبہ صرف علاقائی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اہمیت کا حامل ہے۔ توانائی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ یہ منصوبہ علاقائی استحکام کے فروغ میں بھی کردار ادا کرسکتا ہے۔
مستقبل کے امکانات
تاپی منصوبہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کی کامیابی کا انحصار خطے کی سیکورٹی اور سیاسی استحکام پر ہے۔ اگر افغانستان اور پاکستان میں سیکورٹی کے مسائل حل ہوجاتے ہیں اور بھارت و پاکستان کے درمیان تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں، تو یہ منصوبہ نہ صرف اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہوگا بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی ایک اہم کڑی بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ تاپی منصوبہ افغانستان میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان اور بھارت کو بھی اس منصوبے سے فائدہ پہنچے گا، کیونکہ دونوں ممالک کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اس منصوبے سے پوری ہوسکیں گی۔